بی آر ٹی منصوبہ مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا
پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی طور پر خیبرپختونخوا میں اقتدارکے دو نہیں بلکہ سات سال مکمل ہو رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد سیاست میں جو جمود طاری ہواتھا اس میں خیبرپختونخوا کی حد تک جمعیت علماء اسلام نے اے پی سی کا انعقاد کرتے ہوئے ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر بھی جمود ختم نہ ہوسکا کیونکہ کورونا وباء کے ساتھ ہی سب کی توجہ بجٹ پر مرکوز تھی جبکہ ساتھ ہی موسم گرما بھی اپنے جوبن پر ہے جس کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں تھم کر رہ گئی ہیں۔
ان حالات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے حلقہ بندیوں کا کام شروع کرنے کے اعلان کی وجہ سے ہل چل پیدا ہوئی ہے اور جمعیت علماء اسلام ہی وہ پہلی جماعت ہے کہ جس نے یہ معاملہ سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنی مجلس عاملہ کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق رپورٹ مانگ لی ہے اور اس کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جو رواں ماہ کی پندرہ تاریخ تک اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس میں یقینی طور پر جے یوآئی اپنے طور پرحلقہ بندیوں سے متعلق اپنی رائے سامنے لے کر آئے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی طور پر خیبرپختونخوا میں اقتدارکے دو نہیں بلکہ سات سال مکمل ہو رہے ہیں کیونکہ اس سے قبل بھی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی ہی پانچ سال اقتدار میں رہی ،پرویزخٹک کی حکومت ہی پی ٹی آئی کے اقتدار کی بنیاد تھی جس پر بعدازاں گزشتہ عام انتخابات میں مرکز اور پنجاب حکومتوں کی عمارت کھڑی کی گئی ہے اس لیے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کوغیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں یہ بات ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان چونکہ اب وزیراعظم ہیں اس لیے ان کے پاس شاید ہی اتنا وقت ہو کہ جتنا گزشتہ عام انتخابات کے لیے تھا جس کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے عام انتخابات کے لیے بھرپور انداز میں تیاری کی تھی اور اس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ،اس مرتبہ یقینی طور پر صوبہ کے وزیراعلیٰ محمودخان کو زیادہ بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانا ہوگا اور یہ بوجھ اٹھاتے ہوئے ہی وہ اپنی پارٹی کو اگلے عام انتخابات کے لیے بہتر پوزیشن میں لاسکتے ہیں جس کے لیے انھیں اب ہی سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔
کیونکہ اب تک بی آرٹی کا مسئلہ لٹکا ہوا ہے اوراس کی تکمیل نہیں ہو پائی اس لیے صوبائی حکومت جاری مالی سال کے بجٹ میں بھی کوئی دوسرا میگا پراجیکٹ شروع نہیں کرسکی۔ اب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو جلدازجلد بی آرٹی کے منصوبے سے جان چھڑانی ہوگی۔ کیونکہ یہ منصوبہ مکمل اورپوری طرح فعال ہوگا تو حکومت کو بھی دیگر شعبوں اور منصوبوں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن بھی اسی منصوبے کے حوالے سے حکومت کو مسلسل آڑے ہاتھوں لیتی آرہی ہے، منصوبے کی تکمیل سے یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی سابق سینئر وزیر شہرام ترکئی کے ساتھ صلح ہو گئی ہے اور ان سطورکی اشاعت تک ہو سکتا ہے کہ شہرام ترکئی وزارت کا حلف بھی اٹھا چکے ہوں تاہم جہاں تک دیگر دو سابق وزراء عاطف خان اور شکیل احمد کا تعلق ہے تو ان کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ شہرام ترکئی اوران کے خاندان کی جانب سے جو بھی کوشش کی گئی وہ حالات کے مطابق ہی ہوئی اور اسی کے نتیجے میں وہ حکومتی ایوانوں میں داخل ہونے کے لیے دوبارہ محو پرواز ہیں۔ تاہم جہاں تک عاطف خان کا معاملہ ہے تو وہ چونکہ خود وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار تھے اس لیے انھیں دوبارہ سینے سے لگانے کے لیے وزیراعلیٰ محمودخان بھی دس مرتبہ سوچیں گے۔
واپسی تو ان رہنماوں کی بھی دکھائی نہیں دے رہی جنھیں اے این پی کی صوبائی کابینہ سے باہر کیا گیا ہے ،بظاہر تو کسی ایک یا دوسری وجہ کو بیان کرتے ہوئے اے این پی کابینہ کے ارکان سے استعفے لیتے ہوئے انھیں باہر کی راہ دکھائی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان پارٹی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے خواہاں تھے یہی وجہ ہے کہ پارٹی کابینہ کے کئی ارکان استعفے دیتے ہوئے الگ ہوگئے ہیں جن کی جگہ نئے ارکان کابینہ کا حصہ بنادیئے گئے ہیں جس کے بعد صوبائی صدر ایمل ولی خان کو کام کرنے میں مزید سہولت ہوگی اور وہ احسن انداز میں اپنا کام چلاپائیں گے ،گوکہ جس انداز میں استعفے دیئے گئے ہیں ان پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں لیکن جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے اور اب سارے معاملات پارٹی کے صوبائی صدر کے کنٹرول میں ہیں۔
صوبائی سیٹ اپ میں تبدیلیوں کے بعد بعض حلقے اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ اے این پی کے مرکزی سیٹ اپ میں بھی شاید اکھاڑ پچھاڑ ہو لیکن ایسا دکھائی نہیں دیتا۔
ان حالات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے حلقہ بندیوں کا کام شروع کرنے کے اعلان کی وجہ سے ہل چل پیدا ہوئی ہے اور جمعیت علماء اسلام ہی وہ پہلی جماعت ہے کہ جس نے یہ معاملہ سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنی مجلس عاملہ کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق رپورٹ مانگ لی ہے اور اس کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جو رواں ماہ کی پندرہ تاریخ تک اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس میں یقینی طور پر جے یوآئی اپنے طور پرحلقہ بندیوں سے متعلق اپنی رائے سامنے لے کر آئے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی طور پر خیبرپختونخوا میں اقتدارکے دو نہیں بلکہ سات سال مکمل ہو رہے ہیں کیونکہ اس سے قبل بھی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی ہی پانچ سال اقتدار میں رہی ،پرویزخٹک کی حکومت ہی پی ٹی آئی کے اقتدار کی بنیاد تھی جس پر بعدازاں گزشتہ عام انتخابات میں مرکز اور پنجاب حکومتوں کی عمارت کھڑی کی گئی ہے اس لیے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کوغیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں یہ بات ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان چونکہ اب وزیراعظم ہیں اس لیے ان کے پاس شاید ہی اتنا وقت ہو کہ جتنا گزشتہ عام انتخابات کے لیے تھا جس کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے عام انتخابات کے لیے بھرپور انداز میں تیاری کی تھی اور اس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ،اس مرتبہ یقینی طور پر صوبہ کے وزیراعلیٰ محمودخان کو زیادہ بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانا ہوگا اور یہ بوجھ اٹھاتے ہوئے ہی وہ اپنی پارٹی کو اگلے عام انتخابات کے لیے بہتر پوزیشن میں لاسکتے ہیں جس کے لیے انھیں اب ہی سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔
کیونکہ اب تک بی آرٹی کا مسئلہ لٹکا ہوا ہے اوراس کی تکمیل نہیں ہو پائی اس لیے صوبائی حکومت جاری مالی سال کے بجٹ میں بھی کوئی دوسرا میگا پراجیکٹ شروع نہیں کرسکی۔ اب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو جلدازجلد بی آرٹی کے منصوبے سے جان چھڑانی ہوگی۔ کیونکہ یہ منصوبہ مکمل اورپوری طرح فعال ہوگا تو حکومت کو بھی دیگر شعبوں اور منصوبوں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن بھی اسی منصوبے کے حوالے سے حکومت کو مسلسل آڑے ہاتھوں لیتی آرہی ہے، منصوبے کی تکمیل سے یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی سابق سینئر وزیر شہرام ترکئی کے ساتھ صلح ہو گئی ہے اور ان سطورکی اشاعت تک ہو سکتا ہے کہ شہرام ترکئی وزارت کا حلف بھی اٹھا چکے ہوں تاہم جہاں تک دیگر دو سابق وزراء عاطف خان اور شکیل احمد کا تعلق ہے تو ان کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ شہرام ترکئی اوران کے خاندان کی جانب سے جو بھی کوشش کی گئی وہ حالات کے مطابق ہی ہوئی اور اسی کے نتیجے میں وہ حکومتی ایوانوں میں داخل ہونے کے لیے دوبارہ محو پرواز ہیں۔ تاہم جہاں تک عاطف خان کا معاملہ ہے تو وہ چونکہ خود وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار تھے اس لیے انھیں دوبارہ سینے سے لگانے کے لیے وزیراعلیٰ محمودخان بھی دس مرتبہ سوچیں گے۔
واپسی تو ان رہنماوں کی بھی دکھائی نہیں دے رہی جنھیں اے این پی کی صوبائی کابینہ سے باہر کیا گیا ہے ،بظاہر تو کسی ایک یا دوسری وجہ کو بیان کرتے ہوئے اے این پی کابینہ کے ارکان سے استعفے لیتے ہوئے انھیں باہر کی راہ دکھائی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان پارٹی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے خواہاں تھے یہی وجہ ہے کہ پارٹی کابینہ کے کئی ارکان استعفے دیتے ہوئے الگ ہوگئے ہیں جن کی جگہ نئے ارکان کابینہ کا حصہ بنادیئے گئے ہیں جس کے بعد صوبائی صدر ایمل ولی خان کو کام کرنے میں مزید سہولت ہوگی اور وہ احسن انداز میں اپنا کام چلاپائیں گے ،گوکہ جس انداز میں استعفے دیئے گئے ہیں ان پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں لیکن جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے اور اب سارے معاملات پارٹی کے صوبائی صدر کے کنٹرول میں ہیں۔
صوبائی سیٹ اپ میں تبدیلیوں کے بعد بعض حلقے اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ اے این پی کے مرکزی سیٹ اپ میں بھی شاید اکھاڑ پچھاڑ ہو لیکن ایسا دکھائی نہیں دیتا۔