نیٹو سپلائی کی بندش امریکا نے فوجی امداد بند کرنے کی دھمکی دیدی
سپلائی بحال نہ ہوئی تو عسکری امداد کی سیاسی حمایت مشکل ہوجائیگی،امریکی وزیر دفاع کاانتباہ
امریکی وزیردفاع چک ہیگل نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے علاقائی (خیبرپختونخوا) حکام نے نیٹو سپلائی روکنے کی اپنی روش برقرار رکھی تو اس سے پاکستان کیلیے امریکا کی اعلان کردہ اربوں ڈالر کی عسکری امداد خطرے میں پڑسکتی ہے۔
''ایکسپریس ٹریبیون'' کو ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نوازشریف نے امریکی وزیر دفاع اور امریکا کے سب سے بڑے فوجی ادارے پینٹاگون کے سربراہ کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت نیٹو سپلائی کے حوالے سے پیدا ہوئے مسائل کو حل کرنے کیلیے فوری اقدام کرے گی، موجودہ صورتحال جلد بہتر ہوجائے گی اور پاکستان افغانستان سے اتحادی افواج کے پرامن انخلا کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ وفاقی حکومت طورخم کے راستے امریکی اور اتحادی افواج کے سامان کی محفوظ نقل وحرکت کی ضمانت دینے کیلیے ایکشن لے گی۔گوکہ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم نوازشریف اور امریکی وزیر دفاع کی ملاقات میں یہ اہم معاملہ زیر بحث آیا تاہم اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ چک ہیگل نے نیٹو سپلائی میں رکاوٹوں پر امریکی حکومت کے تحفظات وزیراعظم تک پہنچادیے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کے بیان کے مطابق چک ہیگل نے ملاقات میں نیٹو سپلائی کے زمینی راستوں کو کھولے رکھنے کی اہمیت بھی بیان کی۔ امریکی سفارتخانے کے مطابق 2002 سے اب تک پاکستان کو سیکیورٹی تعاون کی مد میں 16 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دی جاچکی ہے۔
علاوہ ازیں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی ۔ چک ہیگل امریکی حکومت کے پہلی اہم شخصیت ہیں جنھوں نیجنرل راحیل کے فوج کی سربراہی سنبھالنے کے بعدان سے ملاقات کی ہے۔ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق ملاقات میں دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات، خطے کے استحکام اور دیگر امور زیر بحث آئے۔ چک ہیگل کے ساتھ اس ملاقات میں پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن اورقائممقام اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈاکٹر پیٹر لیوائے بھی تھے۔ امریکی وزیر دفاع سے ملاقات میں وزیر اعظم نے امریکی ڈرون حملوںکے حوالے سے اپنے تحفظات بیان کیے اور کہاکہ ڈرون حملے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششوں میں مفید ثابت ہونے کے بجائے ان میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری جانب ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ پاکستانی تحفظات کے باوجود چک ہیگل کا موقف تھا کہ اوباما انتظامیہ پراعتماد ہے کہ ڈرون حملوں میں متعدد مطلوبہ اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے اور آئندہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ امریکی سفارتخانے نے بھی ملاقات میں ڈرون حملوں پر بات چیت کا ذکر نہیں کیا ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چک ہیگل کے دورے کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید استحکام دینا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف اور امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے پاکستان اور خطے میں استحکام و ترقی کیلیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کی ملاقاتیں، وزیر اعظم نوازشریف کے دورہ واشنگٹن اور وہاں توانائی، دفاع، اور دیگر شعبوں میں تعاون کی بات چیت باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں بیحد معاون ثابت ہوگی۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے دفاعی تعلقات میں مزید فروغ پر بھی زور دیا گیا۔ چک ہیگل نے افغان امن عمل میں کوششوں پر پاکستانی کردار کو سراہا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نوازشریف نے یقین دہانی کرائی کہ خطے میں امن و استحکام کیلیے پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔علاوہ ازیں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ نوازشریف نے امریکا کی طرف سے پاکستانی حدود میں جاری ڈرون حملوں پر پاکستانی قوم کے غم و غصے کا بھی اظہار کیا۔ چک ہیگل نے پاکستان کی سرزمین پر عسکریت پسند تنظیموں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بالخصوص حقانی نیٹ ورک کا ذکر کیا جس کو مبینہ طور پر پاکستانی انٹیلی جنس کے بعض افسروں کی درپردہ حمایت حاصل ہے تاکہ افغانستان میں اثرورسوخ قائم رکھا جاسکے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اعلیٰ امریکی دفاعی عہدیدار نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک امریکا کیلیے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ امریکا کیلیے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی سیکیورٹی انتہائی مقدم ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک ان کیلیے خطرہ ہے۔ ملاقات میں انسداد دہشت گردی کے معاملات پر کوئی بریک تھرو ہوا نہ دونوں طرف سے کسی نے رعایتیں مانگی ہیں البتہ فریقین کو لاحق خطرے پر مشترکہ تشویش اور بات چیت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کو استثنیٰ حاصل ہے۔ دریں اثنا پینٹاگون کے حکام نے اس امرکی نفی کی کہ وزیردفاع نے پاکستان کو امداد میں کٹوتی کی دھمکی دی بلکہ انھوں نے یہ بات واضح کی امریکی انتظامیہ کی طرف سے جس امداد کا اعلان کیا گیا ہے وہ کانگریس کی نظرثانی سے مشروط ہے اور نیٹو سپلائی کا عمل جاری رکھنے میں پاکستانی حکومت کی معذوری امداد منجمد کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔ نیٹو سپلائی یقیناً پینٹاگون اور امریکاکیلیے ایک اہم معاملہ ہے جبکہ پاکستان کیلیے یہ اہم معاملہ ہے کہ اتحادی سپورٹ فنڈ کا سلسلہ جاری رہے۔ ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق چک ہیگل نے وزیراعظم سے یہی پیغام دینے کیلیے ملاقات کی کہ طورخم سرحد سے نیٹوسپلائی بحال کرائیں ورنہ پاکستان کیلیے اربوں ڈالر کی امداد کھٹائی میں پڑجائے گی۔
اس کے جواب میں نوازشریف نے کہا کہ مسئلہ حل کرائیں گے لیکن ڈرون حملے بھی بند کرائے جائیں۔ پاکستان نے امریکی سپلائی لائن کی راہ میں حائل رکاوٹیں فی الفور دورکرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چک ہیگل نے کہا اگر نیٹو سپلائی بحال نہ کی گئی تو پاکستان کو امداد نہیں دی جائے گی۔ اس وقت صرف چمن کے راستے نیٹوسپلائی جاری ہے لیکن پاکستانی حکومت طورخم کے راستے بھی سپلائی بحال کرائے ورنہ اربوں ڈالروں کی امداد رک جائے گی۔ اگر پاکستان سپلائی لائن میں احتجاجی دھرنوں کے باعث پڑنے والی رکاوٹیں دور نہیں کرتا تو پھر امریکی حکومت کیلیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کی سیاسی حمایت جاری رکھے۔ ملاقات کے بعد امریکی محکمہ دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستانی رہنماؤں نے نیٹو سپلائی کھولنے کیلیے اقدامات کا یقین دلایا ہے۔آئی این پی کے مطابق غیرملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے چک ہیگل نے کہا کہ نیٹو سپلائی کیخلاف مظاہروں کا معاملہ فوری طور پر حل کیا جائے۔ نیٹو سپلائی کی بندش سے پاکستانی امداد متاثر ہوسکتی ہے۔ اس موقع پر پاکستانی قیادت نے یقین دہانی کرائی کہ سپلائی بحال کرنے کیلیے فوری اقدامات کریں گے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور خیبرپختونخوا میں اس کی اتحادی جماعتوں نے ڈرون حملوں کیخلاف اہم راستے طورخم بارڈر سے نیٹو کی سپلائی روکی ہوئی ہے۔ احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے اور ٹرک ڈرائیوروں کے تحفظ کی خاطر امریکا نے خود بھی افغانستان سے پاکستان جانے والی گاڑیوں کو روک لیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے واشنگٹن انتظامیہ کے خدشات اور تحفظات بیان کیے ہیں اور ان کا یہ موقف پاکستانی امداد میں کسی بھی رکاوٹ کو آنے سے پہلے ہی روکنے کی کوشش ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ طوفانی دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش ہے تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوازشریف سے ملاقات میں انھوں نے ڈرون حملے روکنے کے حوالے سے کوئی یقین دہانیکرانے سے انکار کردیا۔امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے دورے میں وزیر اعظم نواز شریف، وزیر دفاع خواجہ آصف ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ چک ہیگل4سال میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی وزیر دفاع ہیں۔
وہ کابل سے اسلام آباد پہنچے ۔ واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ ''چک ہیگل نے یہ دورہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بے انتہا قربانیوں کے اعتراف کیلیے کیا ہے۔ وہ پاکستان کی امداد جاری رکھنے کا عزم کرنا چاہتے ہیں، دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ تناؤ ضرور ہے لیکن چک ہیگل اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں''۔ امریکی وزیردفاع نے پاکستانی سویلین اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں میں دوطرفہ سلامتی کے تعلقات کا جائزہ لیا اور خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کے امریکی عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر دفاع نے اپنی ملاقاتوں میں امریکا کی پاکستان کے ساتھ مضبوط اور پائیدار اشتراک کارکی خواہش پر زوردیا اور کہا کہ 2014میں افغانستان میں ایساف افواج کی کمی کے بعد بھی امریکا اور اس کے اتحادی پرعزم ہیں کہ عسکریت پسندوں کوخطے کو غیرمستحکم نہیں کرنے دیا جائیگا۔
''ایکسپریس ٹریبیون'' کو ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نوازشریف نے امریکی وزیر دفاع اور امریکا کے سب سے بڑے فوجی ادارے پینٹاگون کے سربراہ کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت نیٹو سپلائی کے حوالے سے پیدا ہوئے مسائل کو حل کرنے کیلیے فوری اقدام کرے گی، موجودہ صورتحال جلد بہتر ہوجائے گی اور پاکستان افغانستان سے اتحادی افواج کے پرامن انخلا کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ وفاقی حکومت طورخم کے راستے امریکی اور اتحادی افواج کے سامان کی محفوظ نقل وحرکت کی ضمانت دینے کیلیے ایکشن لے گی۔گوکہ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم نوازشریف اور امریکی وزیر دفاع کی ملاقات میں یہ اہم معاملہ زیر بحث آیا تاہم اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ چک ہیگل نے نیٹو سپلائی میں رکاوٹوں پر امریکی حکومت کے تحفظات وزیراعظم تک پہنچادیے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کے بیان کے مطابق چک ہیگل نے ملاقات میں نیٹو سپلائی کے زمینی راستوں کو کھولے رکھنے کی اہمیت بھی بیان کی۔ امریکی سفارتخانے کے مطابق 2002 سے اب تک پاکستان کو سیکیورٹی تعاون کی مد میں 16 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دی جاچکی ہے۔
علاوہ ازیں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی ۔ چک ہیگل امریکی حکومت کے پہلی اہم شخصیت ہیں جنھوں نیجنرل راحیل کے فوج کی سربراہی سنبھالنے کے بعدان سے ملاقات کی ہے۔ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق ملاقات میں دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات، خطے کے استحکام اور دیگر امور زیر بحث آئے۔ چک ہیگل کے ساتھ اس ملاقات میں پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن اورقائممقام اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈاکٹر پیٹر لیوائے بھی تھے۔ امریکی وزیر دفاع سے ملاقات میں وزیر اعظم نے امریکی ڈرون حملوںکے حوالے سے اپنے تحفظات بیان کیے اور کہاکہ ڈرون حملے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششوں میں مفید ثابت ہونے کے بجائے ان میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری جانب ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ پاکستانی تحفظات کے باوجود چک ہیگل کا موقف تھا کہ اوباما انتظامیہ پراعتماد ہے کہ ڈرون حملوں میں متعدد مطلوبہ اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے اور آئندہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ امریکی سفارتخانے نے بھی ملاقات میں ڈرون حملوں پر بات چیت کا ذکر نہیں کیا ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چک ہیگل کے دورے کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید استحکام دینا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف اور امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے پاکستان اور خطے میں استحکام و ترقی کیلیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کی ملاقاتیں، وزیر اعظم نوازشریف کے دورہ واشنگٹن اور وہاں توانائی، دفاع، اور دیگر شعبوں میں تعاون کی بات چیت باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں بیحد معاون ثابت ہوگی۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے دفاعی تعلقات میں مزید فروغ پر بھی زور دیا گیا۔ چک ہیگل نے افغان امن عمل میں کوششوں پر پاکستانی کردار کو سراہا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نوازشریف نے یقین دہانی کرائی کہ خطے میں امن و استحکام کیلیے پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔علاوہ ازیں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ نوازشریف نے امریکا کی طرف سے پاکستانی حدود میں جاری ڈرون حملوں پر پاکستانی قوم کے غم و غصے کا بھی اظہار کیا۔ چک ہیگل نے پاکستان کی سرزمین پر عسکریت پسند تنظیموں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بالخصوص حقانی نیٹ ورک کا ذکر کیا جس کو مبینہ طور پر پاکستانی انٹیلی جنس کے بعض افسروں کی درپردہ حمایت حاصل ہے تاکہ افغانستان میں اثرورسوخ قائم رکھا جاسکے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اعلیٰ امریکی دفاعی عہدیدار نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک امریکا کیلیے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ امریکا کیلیے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی سیکیورٹی انتہائی مقدم ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک ان کیلیے خطرہ ہے۔ ملاقات میں انسداد دہشت گردی کے معاملات پر کوئی بریک تھرو ہوا نہ دونوں طرف سے کسی نے رعایتیں مانگی ہیں البتہ فریقین کو لاحق خطرے پر مشترکہ تشویش اور بات چیت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کو استثنیٰ حاصل ہے۔ دریں اثنا پینٹاگون کے حکام نے اس امرکی نفی کی کہ وزیردفاع نے پاکستان کو امداد میں کٹوتی کی دھمکی دی بلکہ انھوں نے یہ بات واضح کی امریکی انتظامیہ کی طرف سے جس امداد کا اعلان کیا گیا ہے وہ کانگریس کی نظرثانی سے مشروط ہے اور نیٹو سپلائی کا عمل جاری رکھنے میں پاکستانی حکومت کی معذوری امداد منجمد کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔ نیٹو سپلائی یقیناً پینٹاگون اور امریکاکیلیے ایک اہم معاملہ ہے جبکہ پاکستان کیلیے یہ اہم معاملہ ہے کہ اتحادی سپورٹ فنڈ کا سلسلہ جاری رہے۔ ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق چک ہیگل نے وزیراعظم سے یہی پیغام دینے کیلیے ملاقات کی کہ طورخم سرحد سے نیٹوسپلائی بحال کرائیں ورنہ پاکستان کیلیے اربوں ڈالر کی امداد کھٹائی میں پڑجائے گی۔
اس کے جواب میں نوازشریف نے کہا کہ مسئلہ حل کرائیں گے لیکن ڈرون حملے بھی بند کرائے جائیں۔ پاکستان نے امریکی سپلائی لائن کی راہ میں حائل رکاوٹیں فی الفور دورکرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چک ہیگل نے کہا اگر نیٹو سپلائی بحال نہ کی گئی تو پاکستان کو امداد نہیں دی جائے گی۔ اس وقت صرف چمن کے راستے نیٹوسپلائی جاری ہے لیکن پاکستانی حکومت طورخم کے راستے بھی سپلائی بحال کرائے ورنہ اربوں ڈالروں کی امداد رک جائے گی۔ اگر پاکستان سپلائی لائن میں احتجاجی دھرنوں کے باعث پڑنے والی رکاوٹیں دور نہیں کرتا تو پھر امریکی حکومت کیلیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کی سیاسی حمایت جاری رکھے۔ ملاقات کے بعد امریکی محکمہ دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستانی رہنماؤں نے نیٹو سپلائی کھولنے کیلیے اقدامات کا یقین دلایا ہے۔آئی این پی کے مطابق غیرملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے چک ہیگل نے کہا کہ نیٹو سپلائی کیخلاف مظاہروں کا معاملہ فوری طور پر حل کیا جائے۔ نیٹو سپلائی کی بندش سے پاکستانی امداد متاثر ہوسکتی ہے۔ اس موقع پر پاکستانی قیادت نے یقین دہانی کرائی کہ سپلائی بحال کرنے کیلیے فوری اقدامات کریں گے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور خیبرپختونخوا میں اس کی اتحادی جماعتوں نے ڈرون حملوں کیخلاف اہم راستے طورخم بارڈر سے نیٹو کی سپلائی روکی ہوئی ہے۔ احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے اور ٹرک ڈرائیوروں کے تحفظ کی خاطر امریکا نے خود بھی افغانستان سے پاکستان جانے والی گاڑیوں کو روک لیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے واشنگٹن انتظامیہ کے خدشات اور تحفظات بیان کیے ہیں اور ان کا یہ موقف پاکستانی امداد میں کسی بھی رکاوٹ کو آنے سے پہلے ہی روکنے کی کوشش ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ طوفانی دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش ہے تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوازشریف سے ملاقات میں انھوں نے ڈرون حملے روکنے کے حوالے سے کوئی یقین دہانیکرانے سے انکار کردیا۔امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے دورے میں وزیر اعظم نواز شریف، وزیر دفاع خواجہ آصف ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ چک ہیگل4سال میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی وزیر دفاع ہیں۔
وہ کابل سے اسلام آباد پہنچے ۔ واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ ''چک ہیگل نے یہ دورہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بے انتہا قربانیوں کے اعتراف کیلیے کیا ہے۔ وہ پاکستان کی امداد جاری رکھنے کا عزم کرنا چاہتے ہیں، دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ تناؤ ضرور ہے لیکن چک ہیگل اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں''۔ امریکی وزیردفاع نے پاکستانی سویلین اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں میں دوطرفہ سلامتی کے تعلقات کا جائزہ لیا اور خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کے امریکی عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر دفاع نے اپنی ملاقاتوں میں امریکا کی پاکستان کے ساتھ مضبوط اور پائیدار اشتراک کارکی خواہش پر زوردیا اور کہا کہ 2014میں افغانستان میں ایساف افواج کی کمی کے بعد بھی امریکا اور اس کے اتحادی پرعزم ہیں کہ عسکریت پسندوں کوخطے کو غیرمستحکم نہیں کرنے دیا جائیگا۔