امریکا پر صدیوں پرانا قرض دوسرا اورآخری حصہ
امریکی یہ سنہری موقع ضایع نہیں کریں گے اور صدیوں پرانا حساب بے باق کریں گے۔
افریقا سے جو غلام پکڑ کر جنوبی اور شمالی براعظم امریکا کے مختلف علاقوں اور ریاستوں میں لائے جاتے تھے، ان کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہوا کرتی تھیں۔ ان لوگوں کو ماں باپ، بھائی بہنوں اور گھر والوں سے جبراًجدا کرکے بحری جہازوں میں بھر کر لایا جاتا تھا۔ یہ غلام زنجیروں میں جکڑے ہوتے تھے۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ انھیں کہاں لے جایا جارہا ہے۔
بحری جہازوں میں بھرے غلام اپنے گھروالوں کو یاد کرکے بلند آواز میں آہ وبکا کرتے تھے۔ غلام عورتوں پر ہسٹریا کے دورے پڑے تھے، انھیں خاموش کرنے کے لیے ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ ان بد نصیب غلام مردوں اور عورتوں کو معلوم تھاکہ اب وہ اپنے پیاروں سے کبھی نہیں مل سکیں گے۔ غلام عورتوں کو بحری جہازوں کے ملاح جنسی درندگی کا نشانہ بناتے تھے۔ جو لوگ انھیں لاکر غلام منڈیوں میںفروخت کیا کرتے تھے وہ بھی ان پر جنسی تشدد کرتے تھے، غلام عورتوں کو خریدنے والے تو انھیں جنسی طورپر استعمال کرنے کا قانونی حق رکھتے تھے حتیٰ کہ غلام مالکان کے بیٹے اور دوست احباب بھی ان مجبور اور بے کس عورتوں کی جبراً آبرو ریزی کرتے تھے۔
عورتوں کی عصمت دری کرنے کا مقصد اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا۔ غلام عورت پر جنسی تشدد کرکے ان کے والدین، بھائی، بہنوں اور دوسروں کو یہ پیغام دیناہوتا تھا کہ وہ کس قدر بے بس اور کمزور ہیں اور اپنی عورتوں کو بچانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ عصمت دری کوآج بھی خوف میں مبتلا اور دہشت زدہ کرنے اور اپنی طاقت اور اختیار کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
غلاموں کے مالک اور دیگر سفید فام افراد نے 15 سے 30 سال تک کی عمر کی 58 فیصدغلام عورتوں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے اور اتنے طویل عرصے تک لاکھوں عورتوں کی باقاعدہ آبروریزی کا کوئی اور واقعہ شاید تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ سیاہ فام عورتیں اپنی پسند کی شادیاں نہیں کرسکتی تھیں، جوعورتیں سفید فاموںکے بنائے گئے اصولوں سے انحراف کیا کرتی تھیں انھیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان کے ختنے کرنے کے بعد انھیں مار مار کر ہلاک کردیا جاتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے کئی طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔
ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ان عورتوں کو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردیا جاتا تھا، یہ کام اتنے خفیہ انداز میں کیا جاتا تھا کہ متعلقہ عورتوں کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوتی تھی کہ اب وہ اپنی زندگی میں کبھی ماں نہیں بن سکیں گی۔ 1932 میں آتشک کے مرض کی تحقیق کے لیے سرکاری طور پر غریب اور نادار سیاہ فام امریکیوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ ان پر تجربہ کرکے دیکھا جائے کہ اس مرض کا علاج نہ کیا جائے تو اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہ تجربے لوگوں کو بتائے بغیر کیے گئے جس کے باعث مرض سیاہ فام عورتوں اور بچوں کو منتقل ہوجاتا تھا۔
سیاہ فام غلام عورتوںنے اس صورتحال کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ انھوں نے جنسی تشدد کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار زبانی اور عملی دونوں طریقوں سے کیا۔ وہ مظالم سے بچنے کے لیے فرار ہوکر ان علاقوں میں چلی جایا کرتی تھیں جو نسبتاً کم خطرناک ہوتے تھے۔ بہت سی عورتوں نے زمین کے اندر 7 فٹ گہرے غاروں میں پناہ لی، وہیں بچے پیدا کیے اور کئی برسوں تک وہیں چھپی بیٹھی رہیں۔جب بھی سیاہ فاموں کی طرف سے مزاحمت اور شورش کی جاتی تھی تو سیاہ فام عورتیں ان کا بھرپور ساتھ دیا کرتی تھیں۔ وہ باغیوں کو پناہ دیتی تھیں، انھیں کھانا کھلاتیں،ان کے لیے جاسوسی کرتی تھیں اور بعض اوقات سپاہیوں کو ترغیب دے کر ان سے اسلحہ اور گولیاں بھی حاصل کرلیا کرتی تھیں۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن سیاہ فام عورتوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں اور آیندہ نسلوں کے اندر امید، زندگی، طاقت اور مزاحمت کے جذبے کو مرنے نہیں دیا۔ ان عورتوںنے اپنا ثقافتی ورثہ بھی انھیں منتقل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر جبر اور ستم کے باوجود سیاہ فام امریکی آج بھی اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہیں، وہ نسل پرست نہیں ہیں بلکہ نسل پرستی کے خلاف مزاحمت میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس موقع پر ان سیاہ فام غلام عورتوں کا تذکرہ کیا جانا چاہیے، جنھوں نے جرات اور بہادری کی تاریخ رقم کی۔ ان میں ایک نمایاں نام ہیریٹ جیکبس کا ہے۔ انھوں نے غلامی سے نجات کے لیے طویل عرصے تک زبردست مزاحمت کی۔ ان کا مالک انھیں بار بار جنسی زیادتی کانشانہ بناتاتھا، وہ اپنے آقا کے گھر سے فرار ہوکر اپنی نانی کے گھر کی ایک دو چھتی میں رہنے لگی۔ یہ جگہ نوفٹ لمبی اور سات فٹ چوڑی تھی اور یہاں چوہوں نے اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ ہیریٹ لکھتی ہے کہ یہاں ہوا اور روشنی کا گزر بھی نہیں تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے سوراخ سے اپنے بچوں کو دیکھا کرتی تھی۔ وہ اس دوچھتی میں سات سال تک چھپی رہی جہاں سیدھا کھڑے ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ نارتھ کیرولینا سے فرار ہوکر نیویارک آگئی جہاں غلامی کے خلاف جاری تحریک کے بہت سے ہم درد اور کارکن موجود تھے۔
ہیریٹ کا مالک اس کا پیچھا کرتے ہوئے نیویارک تک آپہنچا کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق فرار ہونے والا غلام خواہ امریکا میں کہیں بھی چلا جائے اس کا مالک اسے قانونی طور پر بازیاب کرنے کا حق رکھتا تھا۔ ہیریٹ جیکبس کی داستان بہت طویل ہے۔ سفید فام دوستوں کی مدد سے اس نے غلامی سے آزادی حاصل کی اور ایک شاندار کتاب لکھی جو امریکی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے ۔اس کتاب کا عنوان ''ایک غلام لڑکی کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات'' ہے۔ اس ادبی شاہ کار کے مطالعے سے وہ تمام تجربات سامنے آجاتے ہیں جن کا سیاہ فام غلام عورتوں نے صدیوں تک امریکا میں سامنا کیا تھا اور ایک نئے انداز میں آج بھی کررہی ہیں۔
ہیریٹ جیکبس کی طرح ولیم اور ایلن کے فرار کی داستانیں بھی حیرت زدہ کردینے والی ہیں۔ ان دونوں نے 1848 میں جارجیا میں شادی کی تھی۔ انھیں ڈرتھا کہ ان کے مالک کہیں انھیں الگ الگ فروخت نہ کر دیں۔ انھوں نے فلاڈلفیا فرار ہونے کا منصوبہ بنایا اور اپنا بھیس تبدیل کرلیا۔ ایلن کا رنگ کھلتا ہواتھا اس نے اپنے بال کٹوائے اور مردوں کا لباس پہن لیا اور سرپر پٹیاںباندھ لیں تاکہ وہ ایک سفید فام زخمی مرد نظر آئے۔ ولیم کا رنگ گہرا سیاہ تھا، اس نے خود کو زخمی سفید فام مالک کا غلام ظاہر کیا۔ دونوں ٹرین کے ذریعے شمال کے طویل سفرپر روانہ ہوگئے۔ اسی بہروپ میں انھوں نے کئی دنوں تک ٹرین اور اسٹیمر کا سفر کیا، ہوٹلوں میں راتیں گزاریں، کئی بار پکڑے جانے سے بال بال بچے اور بالآخر فلاڈلفیا پہنچ گئے۔ وہ وہاںسے بوسٹن گئے اور مفرور غلاموں کو ڈھونڈنے والوں سے بچ بچاکر برطانیہ جا پہنچے جہاں انھوں نے اپنے سفر کی روداد لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔
امریکیوں کی خاصی تعداد نسل پرستی کے سحر میں آج بھی گرفتار ہے۔ ان میں ادیب اور دانشور بھی شامل ہیں۔ مارگریٹ مچل نے اپنا شہرہ آفاق ناول Gone With The Wind ، غلامی کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے 35 سال بعد لکھا تھا۔ جس کے مطالعے سے غلامی کے دور سے مصنفہ کے ذہنی اور جذباتی لگائو کا واضح تاثر ملتا ہے۔ جہاں ایک طرف مارگریٹ مچل تھیں تو وہیں دوسری طرف ایک اور سفید فام خاتون الزبتھ بیچر اسٹیو تھیں جنھوںنے'' انکل ٹامز کیبن '' جیسا ناول لکھا۔ انیسویں صدی میںچند مہینوں کے اندر یہ ناول تین لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں شایع ہوا، اور پھر اس کی تعدادِ اشاعت اور مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور آج بھی غلامی کے خلاف لکھے جانے والے شاہ کار ناول میں اس کا شمارہوتا ہے۔۔
امریکا کا آنے والا صدارتی انتخاب سفید فام امریکی مردوں اور عورتوں کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ انھوں نے سیاہ فام غلاموں بالخصوص عورتوں پر جو مظالم ڈھائے تھے اس کا مداوا کریں۔ یہ کام صرف قوانین بنانے سے نہیں بلکہ امریکا میں موجود نسل پرستانہ رویوں اور رجحانات کو ختم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ امریکی یہ سنہری موقع ضایع نہیں کریں گے اور صدیوں پرانا حساب بے باق کریں گے۔
بحری جہازوں میں بھرے غلام اپنے گھروالوں کو یاد کرکے بلند آواز میں آہ وبکا کرتے تھے۔ غلام عورتوں پر ہسٹریا کے دورے پڑے تھے، انھیں خاموش کرنے کے لیے ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ ان بد نصیب غلام مردوں اور عورتوں کو معلوم تھاکہ اب وہ اپنے پیاروں سے کبھی نہیں مل سکیں گے۔ غلام عورتوں کو بحری جہازوں کے ملاح جنسی درندگی کا نشانہ بناتے تھے۔ جو لوگ انھیں لاکر غلام منڈیوں میںفروخت کیا کرتے تھے وہ بھی ان پر جنسی تشدد کرتے تھے، غلام عورتوں کو خریدنے والے تو انھیں جنسی طورپر استعمال کرنے کا قانونی حق رکھتے تھے حتیٰ کہ غلام مالکان کے بیٹے اور دوست احباب بھی ان مجبور اور بے کس عورتوں کی جبراً آبرو ریزی کرتے تھے۔
عورتوں کی عصمت دری کرنے کا مقصد اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا۔ غلام عورت پر جنسی تشدد کرکے ان کے والدین، بھائی، بہنوں اور دوسروں کو یہ پیغام دیناہوتا تھا کہ وہ کس قدر بے بس اور کمزور ہیں اور اپنی عورتوں کو بچانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ عصمت دری کوآج بھی خوف میں مبتلا اور دہشت زدہ کرنے اور اپنی طاقت اور اختیار کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
غلاموں کے مالک اور دیگر سفید فام افراد نے 15 سے 30 سال تک کی عمر کی 58 فیصدغلام عورتوں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے اور اتنے طویل عرصے تک لاکھوں عورتوں کی باقاعدہ آبروریزی کا کوئی اور واقعہ شاید تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ سیاہ فام عورتیں اپنی پسند کی شادیاں نہیں کرسکتی تھیں، جوعورتیں سفید فاموںکے بنائے گئے اصولوں سے انحراف کیا کرتی تھیں انھیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان کے ختنے کرنے کے بعد انھیں مار مار کر ہلاک کردیا جاتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے کئی طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔
ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ان عورتوں کو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردیا جاتا تھا، یہ کام اتنے خفیہ انداز میں کیا جاتا تھا کہ متعلقہ عورتوں کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوتی تھی کہ اب وہ اپنی زندگی میں کبھی ماں نہیں بن سکیں گی۔ 1932 میں آتشک کے مرض کی تحقیق کے لیے سرکاری طور پر غریب اور نادار سیاہ فام امریکیوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ ان پر تجربہ کرکے دیکھا جائے کہ اس مرض کا علاج نہ کیا جائے تو اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہ تجربے لوگوں کو بتائے بغیر کیے گئے جس کے باعث مرض سیاہ فام عورتوں اور بچوں کو منتقل ہوجاتا تھا۔
سیاہ فام غلام عورتوںنے اس صورتحال کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ انھوں نے جنسی تشدد کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار زبانی اور عملی دونوں طریقوں سے کیا۔ وہ مظالم سے بچنے کے لیے فرار ہوکر ان علاقوں میں چلی جایا کرتی تھیں جو نسبتاً کم خطرناک ہوتے تھے۔ بہت سی عورتوں نے زمین کے اندر 7 فٹ گہرے غاروں میں پناہ لی، وہیں بچے پیدا کیے اور کئی برسوں تک وہیں چھپی بیٹھی رہیں۔جب بھی سیاہ فاموں کی طرف سے مزاحمت اور شورش کی جاتی تھی تو سیاہ فام عورتیں ان کا بھرپور ساتھ دیا کرتی تھیں۔ وہ باغیوں کو پناہ دیتی تھیں، انھیں کھانا کھلاتیں،ان کے لیے جاسوسی کرتی تھیں اور بعض اوقات سپاہیوں کو ترغیب دے کر ان سے اسلحہ اور گولیاں بھی حاصل کرلیا کرتی تھیں۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن سیاہ فام عورتوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں اور آیندہ نسلوں کے اندر امید، زندگی، طاقت اور مزاحمت کے جذبے کو مرنے نہیں دیا۔ ان عورتوںنے اپنا ثقافتی ورثہ بھی انھیں منتقل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر جبر اور ستم کے باوجود سیاہ فام امریکی آج بھی اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہیں، وہ نسل پرست نہیں ہیں بلکہ نسل پرستی کے خلاف مزاحمت میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس موقع پر ان سیاہ فام غلام عورتوں کا تذکرہ کیا جانا چاہیے، جنھوں نے جرات اور بہادری کی تاریخ رقم کی۔ ان میں ایک نمایاں نام ہیریٹ جیکبس کا ہے۔ انھوں نے غلامی سے نجات کے لیے طویل عرصے تک زبردست مزاحمت کی۔ ان کا مالک انھیں بار بار جنسی زیادتی کانشانہ بناتاتھا، وہ اپنے آقا کے گھر سے فرار ہوکر اپنی نانی کے گھر کی ایک دو چھتی میں رہنے لگی۔ یہ جگہ نوفٹ لمبی اور سات فٹ چوڑی تھی اور یہاں چوہوں نے اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ ہیریٹ لکھتی ہے کہ یہاں ہوا اور روشنی کا گزر بھی نہیں تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے سوراخ سے اپنے بچوں کو دیکھا کرتی تھی۔ وہ اس دوچھتی میں سات سال تک چھپی رہی جہاں سیدھا کھڑے ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ نارتھ کیرولینا سے فرار ہوکر نیویارک آگئی جہاں غلامی کے خلاف جاری تحریک کے بہت سے ہم درد اور کارکن موجود تھے۔
ہیریٹ کا مالک اس کا پیچھا کرتے ہوئے نیویارک تک آپہنچا کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق فرار ہونے والا غلام خواہ امریکا میں کہیں بھی چلا جائے اس کا مالک اسے قانونی طور پر بازیاب کرنے کا حق رکھتا تھا۔ ہیریٹ جیکبس کی داستان بہت طویل ہے۔ سفید فام دوستوں کی مدد سے اس نے غلامی سے آزادی حاصل کی اور ایک شاندار کتاب لکھی جو امریکی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے ۔اس کتاب کا عنوان ''ایک غلام لڑکی کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات'' ہے۔ اس ادبی شاہ کار کے مطالعے سے وہ تمام تجربات سامنے آجاتے ہیں جن کا سیاہ فام غلام عورتوں نے صدیوں تک امریکا میں سامنا کیا تھا اور ایک نئے انداز میں آج بھی کررہی ہیں۔
ہیریٹ جیکبس کی طرح ولیم اور ایلن کے فرار کی داستانیں بھی حیرت زدہ کردینے والی ہیں۔ ان دونوں نے 1848 میں جارجیا میں شادی کی تھی۔ انھیں ڈرتھا کہ ان کے مالک کہیں انھیں الگ الگ فروخت نہ کر دیں۔ انھوں نے فلاڈلفیا فرار ہونے کا منصوبہ بنایا اور اپنا بھیس تبدیل کرلیا۔ ایلن کا رنگ کھلتا ہواتھا اس نے اپنے بال کٹوائے اور مردوں کا لباس پہن لیا اور سرپر پٹیاںباندھ لیں تاکہ وہ ایک سفید فام زخمی مرد نظر آئے۔ ولیم کا رنگ گہرا سیاہ تھا، اس نے خود کو زخمی سفید فام مالک کا غلام ظاہر کیا۔ دونوں ٹرین کے ذریعے شمال کے طویل سفرپر روانہ ہوگئے۔ اسی بہروپ میں انھوں نے کئی دنوں تک ٹرین اور اسٹیمر کا سفر کیا، ہوٹلوں میں راتیں گزاریں، کئی بار پکڑے جانے سے بال بال بچے اور بالآخر فلاڈلفیا پہنچ گئے۔ وہ وہاںسے بوسٹن گئے اور مفرور غلاموں کو ڈھونڈنے والوں سے بچ بچاکر برطانیہ جا پہنچے جہاں انھوں نے اپنے سفر کی روداد لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔
امریکیوں کی خاصی تعداد نسل پرستی کے سحر میں آج بھی گرفتار ہے۔ ان میں ادیب اور دانشور بھی شامل ہیں۔ مارگریٹ مچل نے اپنا شہرہ آفاق ناول Gone With The Wind ، غلامی کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے 35 سال بعد لکھا تھا۔ جس کے مطالعے سے غلامی کے دور سے مصنفہ کے ذہنی اور جذباتی لگائو کا واضح تاثر ملتا ہے۔ جہاں ایک طرف مارگریٹ مچل تھیں تو وہیں دوسری طرف ایک اور سفید فام خاتون الزبتھ بیچر اسٹیو تھیں جنھوںنے'' انکل ٹامز کیبن '' جیسا ناول لکھا۔ انیسویں صدی میںچند مہینوں کے اندر یہ ناول تین لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں شایع ہوا، اور پھر اس کی تعدادِ اشاعت اور مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور آج بھی غلامی کے خلاف لکھے جانے والے شاہ کار ناول میں اس کا شمارہوتا ہے۔۔
امریکا کا آنے والا صدارتی انتخاب سفید فام امریکی مردوں اور عورتوں کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ انھوں نے سیاہ فام غلاموں بالخصوص عورتوں پر جو مظالم ڈھائے تھے اس کا مداوا کریں۔ یہ کام صرف قوانین بنانے سے نہیں بلکہ امریکا میں موجود نسل پرستانہ رویوں اور رجحانات کو ختم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ امریکی یہ سنہری موقع ضایع نہیں کریں گے اور صدیوں پرانا حساب بے باق کریں گے۔