کورونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں
معذور، خواجہ سرا، اقلیتیں اور بیوہ خواتین ہماری توجہ کی طالب ہیں
کورونا رواں صدی کی ایسی وباء ہے، جس کے دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں بھی کورونا وائرس ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، جس نے متعدد نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ ملکی معیشت ہو یا عام آدمی، سب ہی کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے وباء سے نمٹنے کے لئے بروقت اور بڑے اقدامات کیے جن میں مستحق افراد اور غرباء پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح فوری لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا اور نہ ہی کرفیو لگایا گیا بلکہ غریب طبقہ کی معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کیا گیا، جس میں بعد ازاں نرمی بھی کی گئی اور اب سمارٹ لاک ڈاؤن جاری ہے، جس سے کسی حد تک عام آدمی کو راحت محسوس ہوئی ہے تاہم ان تمام تر اقدامات کے باوجود ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور لوگوں کے معمولات زندگی پر بد اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے لاک ڈاؤن کے پیش نظر غرباء اور مستحقین کی مدد کیلئے احساس پروگرام متعارف کروایا جو کامیابی سے جاری ہے اور اس کا پہلا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے ذریعے مستحق افراد میں میرٹ پر 12 ہزار روپے تقسیم کیے گئے جس سے یقینا غرباء کو کافی حد تک مدد ملی۔ اس کے علاوہ حکومت نے ریلیف کے دیگر پروگرام بھی شروع کئے، جن میں بجلی و گیس کے بلوں میں ریلیف جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ریلیف کے ساتھ ساتھ حکومت نے لوگوں کو کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بھی ترغیب دی۔ اس کے لیے روایتی و سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی گئی۔ تاہم یہاں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ حکومت کے تمام اقدامات اس وقت تک ناکافی ہیں، جب تک انہیں عوامی تعاون میسر نہ ہو۔ عوام کو چاہیے کہ لاپرواہی نہ کریں، احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور حکومت کی جانب سے دیے گئے ایس او پیز پر مکمل عمل کریں اور جن علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا ہے وہاں پر بھی حکومت کا ساتھ دیں تاکہ کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔
وباء کے دوران ریلیف کے کاموں میں حکومت کے ساتھ سماجی تنظیموں، مخیر حضرات، نوجوانوں غرض کے ہر شخص نے اپنی مدد آپ کے تحت مستحقین کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سخاوت اور خدمت، پاکستانیوں کے خون میں شامل ہے۔ سیلاب، زلزلہ یا کوئی اور مشکل گھڑی، پاکستانی ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اس طرح کورونا کی وبا ء میں بھی غریب شہریوں کی مدد کرنے کے لیے پاکستانی متحرک و متحد ہوئے اور بڑھ چڑھ کر غرباء و مستحقین کی مدد کر رہے ہیں۔
سماجی تنظیموں کی بات کریں تو ان کا کردار نہایت مثبت رہا ہے۔ان اداروں میں سرچ فار جسٹس اور اجالا نیٹ ورک سمیت بہت سی تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ کورونا وائرس کی مشکل صورت حال میں بھی سماجی ادارے اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں نے ایک طرف تو لوگوں کواس وباء سے بچنے کے لئے آگاہی دی ہے جبکہ دوسری طرف بڑے پیمانے پر فلاحی کام کیے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان اداروں کی جانب سے ہسپتالوں میں مفت سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں ماسک، سینی ٹائزرز، حفاظتی کٹس، ٹیسٹنگ کٹس، وینٹی لیٹرز، نئی آئسولیشن وارڈز، مستحقین کیلئے کھانا و دیگر سہولیات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مستحقین اور غریب افراد میں بھی ماسک، سینی ٹائزر، امدادی پیکیج، راشن و دیگر اشیائے ضروریہ تقسیم کی گئیں، جو قابل تحسین ہے۔ ان تمام کاموں سے لگتا ہے کہ حکومت، سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کی جانب سے کی گئی امداد کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ شاید ہی کوئی غریب بچا ہو، جس تک یہ امداد نہ پہنچی ہو۔ مجموعی طور پر تو یہی تاثر ہے مگر میرے نزدیک ابھی بھی ہمارے معاشرے کے کچھ ایسے طبقات ہیں جو نظر انداز ہوئے ہیں۔
وباء کے دوران نظر انداز کئے جانے والے 4 طبقات ہیں جن پر حکومت، سماجی اداروں اور مخیر حضرات کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں ''خصوصی افراد'' کی۔ عام آدمی تو کسی بھی طرح اپنے معاملات زندگی کو مینج کر ہی لیتا ہے مگر خصوصی افراد کو بے شمار مسائل ہوتے ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کی اس وباء نے انہیں بری طرح متاثر کیا ہے۔
سرکاری سطح پر ملک بھر میں موجود خصوصی افراد کا ڈیٹا نہیں ہے جس کے باعث وہ امدادی پیکیج سے محروم ہیںاور ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے لہٰذا حکومت اور سماجی تنظیموں کو معاشرے کے اس اہم طبقے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خصوصی افراد کے علاوہ ''اقلیتیں'' بھی نظر انداز ہوئی ہیں۔ ان میں خصوصاََ خاکروب و نچلا عملہ شامل ہے۔ ہسپتالوں و مختلف مقامات پر کام کرتے ایسے عملے کے پاس حفاظتی کٹس اور دیگر اشیاء کی کمی ہے اور بعض جگہ تو انہیں کٹس ہی نہیں ملی۔
اس کے علاوہ امدادی پیکیج میں بھی بعض جگہ مسائل سامنے آئے ہیں، لہٰذا ان کیلئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور سماجی تنظیموں کو اس طرف بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ نظر انداز ہونے والوں میں معاشرے کا تیسرا اہم طبقہ ''خواجہ سراء'' ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ نادرا میں رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
حکومت کے پاس ان کا مکمل ڈیٹا موجود نہیں ہے، لہٰذا وہ امدادی پیکیج سے محروم ہیں۔ معاشرے کا چوتھا نظر انداز ہونے والا طبقہ ایسی خواتین ہیں جو اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں۔ وہ یا تو بیوہ ہیں یا وہ خود گھر کی سربراہ اور اپنے خاندان کا واحد سہارا ہیں مگر اس مشکل میں انہیں سہارے کی ضرورت ہے۔ ایسی خواتین کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، سماجی تنظیموں، مخیر حضرات اور خود علاقے کے افراد کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔