ٹائیفائیڈ۔۔۔ایک مہلک مرض

 سالانہ ایک سے دو کروڑ افراد متاثر جبکہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں


فوٹو : فائل

ٹائیفائیڈ بخار موسم گرما خصوصاً موسم برسات میں سامنے آنے والا ایک مہلک مرض ہے، جو پاکستان میں مئی سے لے کر اکتوبر تک بڑی شدت کے ساتھ موجود رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل وطن عزیز میں کرونا کے ساتھ ٹائیفائیڈ کے کیسز میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ تحریر قارئین کی نظر کی جارہی ہے۔

ٹائیفائیڈ بخار پہلی دفعہ 1880ء میں منظر عام پر آیا اور اس وقت ایک محدود اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 1 سے 2 کروڑ افراد اس سے متاثر جبکہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ اموات ہو رہی ہیںجن میں اکثریت کا تعلق براعظم ایشیا اورافریقہ سے ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے، جس کی بنیادی وجہ بیکٹیریا سالمونیلا ٹائیفی (Salmonella Typhi) اور سالمونیلا پیرا ٹائیفی اے ، بی ،سی ،ڈی (Salmonella paratyphi A,B,C,D) ہیں۔ ٹا ئیفائیڈ کا جراثیم متاثرہ شخص کے پیشاب اور پاخانہ کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے اور رفع حاجت کے بعد مناسب طریقہ سے ہاتھوں کو دھونے، انسانی فضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے کے علاوہ خوراک کے آلودہ ہونے سے پھیلتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کسی انسانی کیریئر کے ذریعہ پانی یا کھانے میں جمع ہوجاتے ہیں اور پھر اس علاقے کے دوسرے لوگوں میں پھیل جاتے ہیں۔

ٹائیفائیڈ سے کون لوگ متاثر ہوسکتے ہیں؟

ٹائیفائیڈ کا بیکٹیریا پانی یا خشک نالے میں ہفتوں تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس بیماری سے متاثرہ ہونے والے تقریبا 3سے 5فیصد افراد اس بیماری کے کیریئر (Carrier) بن جاتے ہیں ،کیریئر سے مراد وہ شفا پانے والے افراد ہیں جن میں ٹائیفائیڈ کے جراثیم ان کے جسم کو نقصان نہیں پہنچاتا تاہم یہ دیگر انسانوں کو جراثیم منتقل کرسکتے ہیں ۔یہ لوگ بیکٹیریا کے لمبے عرصے کے لیے کیریئر بن جاتے ہیں اور ان میں کوئی علامات نہیں ہوتیں۔

ٹائیفائیڈ بخار کی علامات ہو سکتی ہیں:

بخار، سر درد،کمزوری اور تھکاوٹ، پٹھوں میں درد، پسینہ آنا، خشک کھانسی، بھوک اور وزن میں کمی، پیٹ کا درد، اسہال یا قبض

ٹائیفائیڈ بخار کی تشخیص:

مرض کی تشخیص خون، پاخانے یا پیشاب کے نمونے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔

ٹائیفائیڈ پھیلنے کے ذرائع:

ٹائیفائیڈ بخار کا باعث بننے والے بیکٹیریا آلودہ کھانا یا پانی اور کبھی کبھار متاثرہ شخص سے براہ راست رابطے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔

پیچیدگیاں:

ٹائیفائیڈ بخار کی سب خطرناک پیچیدگی آنتوں میں خون بہنا یا آنتوں کا پھٹ جانا ہے۔ جوکہ بیماری کے تیسرے ہفتے میں نمودار ہوسکتی ہے،جس کی وجہ سے آنتوں میں پائے جانے والے زہریلے مادے پورے پیٹ میں پھیل جاتے ہیں اور اس کی علامات میں پیٹ میں شدید درد، متلی، الٹی اورپورے جسم میںزہر کا پھیل جانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ دل، دل کے پٹھوں، لپبلے، گردے یا مثانے، دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گرد موجود جھلیوں اور سیال مادے کی سوزش اور نمونیا بھی ہو سکتا ہے

روک تھام:

بہت سارے ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کے اہداف جو ٹائیفائیڈ بخار کی روک تھام اور ان پر قابو پانے میں مدد کرسکتے ہیں جن میں پینے کا صاف پانی، بہتر صفائی اور مناسب طبی نگہداشت وغیرہ حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

ٹائیفائیڈ میری (Typhoid Mary)

یہ بات قارئین کی دلچسپی کے لیے بیان کی جارہی ہے کہ انسانی تاریخ میںمیری میلن( Mary Mallon)(ستمبر 23، 1869 - 11 نومبر، 1938) آئرش نژاد امریکن باورچی گزری ہیں ،جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انھوں نے 53 افراد کو ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا کردیا، جن میں سے تین فوت ہوگئے اور امریکہ میں اس کو ٹائیفائیڈ مرض کے پہلے کیریئر کے طورپر پہچانا جاتا ہے۔ چونکہ وہ ایک باورچی کے طور پر کام کرتی تھی جس کے ذریعہ دوسروں لوگ بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے اس وجہ سے اس کو ٹائیفائیڈ میری(typhoid Mary) کا نام دیا جاتا ہے ۔

میری میلن 1869ء میں کوک اسٹاؤن شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہوئیں۔ غالبا ًوہ ٹائیفائیڈ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کیونکہ حمل کے دوران اس کی والدہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا تھیں۔ 15 سال کی عمر میں وہ امریکہ چلی گئی۔ 1900ء سے 1907ء تک میری میلن نے آٹھ خاندانوں کے لئے نیو یارک سٹی کے علاقے میں باورچی کی حیثیت سے کام کیا، ان میں سے سات خاندان ٹائیفائیڈ کا شکار ہوئے۔ اگست 1906ء میں میری نے نیو یارک کے ایک امیر بینکر چارلس ہنری وارن(Charles Henry Warren) کے اہل خانہ کے ساتھ رہائش اختیار کیاور27 اگست سے 3 ستمبر تک خاندان کے 11 افراد میں سے 6 افراد ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہوئے۔

1906ء کے آخر میں میری کو والٹر بوون (Walter Bowen) نے ملازمت پر رکھا جس کا کنبہ پارک ایونیو میں رہتا تھااس کی نوکرانی 23 جنوری 1907ء کو بیمار ہوگئی اور جلد ہی چارلس وارن کی اکلوتی بیٹی کوٹائیفائیڈہوااور اس کی موت ہوگئی۔ان واقعات سے میری کو ٹائیفائیڈ انفیکشن کو پھیلانے والی کک ہونے کا شک ظاہر کیا گیااور اس معاملے میں تفتیش کا سلسلہ شروع کیاگیا کہ یہ اس بیماری کے پھیلانے میں ملوث ہے لیکن تفتیش کار اس کوڈھونڈنے سے قاصر رہے کیونکہ وہ عام طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی کو بتائے بغیر نکل مکانی کرجاتی تھی۔ میری میلن کو تقریباً 30سال قرنطینہ (Quarantine) میں رکھا گیاجوکہ انسانی طب کی تاریخ میں سب سے طویل ترین عرصہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں