پاکستانی ماہرین نے آلو کی 7 نئی اقسام تیار کرلیں
آلو کی نئی اقسام میں پی آر آئی ریڈ، روبی، صدف، سیالکوٹ ریڈ، ساہیوال ریڈ اور کوسمو شامل ہیں
پوٹیٹو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب کے ماہرین نے مقامی سطح پرآلو کی 7 اقسام تیار کی ہیں جن سے اعلی کوالٹی کی معیاری اورزیادہ بہترپیداوارحاصل ہوسکے گی۔
آلو پاکستان کی ایک اہم فصل ہے کیونکہ اس سے فی ایکڑ آمدنی دوسری فصلوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے آلو ایک مکمل غذا ہے کیونکہ اس میں کافی مقدار میں نشاستہ ، وٹامن ، معدنی نمکیات اور لحمیات پائے جاتے ہیں۔ آلو کی فصل عام اناج کے مقابلے میں خشک مادہ کی بنیاد پر 2 سے 3 گنا زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کو پورا کرنے اور گندم پر دباؤ کم کرنے کے لئے آلوکی پیداوار میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔
پوٹیٹوڈویلپمنٹ اینڈریسرچ بورڈ پنجاب کے چیئرمین چوہدری مقصود احمد جٹ نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کے ادارے نے مقامی طورپر آلوکی 7 اقسام تیار کی ہیں جن میں پی آر آئی ریڈ، روبی، صدف، سیالکوٹ ریڈ، ساہیوال ریڈ اور کوسمو شامل ہیں۔ ان میں سے پی آر آئی ریڈ کا بیج گزشتہ سال پنجاب سیڈکارپوریشن کو دیا گیا تھا جس نے پھر اس کی بڑے پیمانے پر تیاری کرکے کاشتکاروں کو دیا اوراس سے معمول کی فصل کے مقابلے میں زیادہ پیداوار حاصل کی گئی تھی۔
چوہدری مقصود جٹ نے بتایا کہ آلو کی مزید چاراقسام کی پری کوالیفکیشن ہوچکی ہے اوراب آئندہ چند روز میں ان کے انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی نیلامی کی جائے گی، مختلف نجی کمپنیاں یہ اقسام خرید کر پھر اسے سستے داموں کاشت کاروں کا مہیا کریں گی۔ مقامی سطح پرآلو کی جواقسام تیار کی گئی ہیں یہ ناصرف چپس کی تیاری کے لئے بہترین آلو ہوگا بلکہ اسٹوریج اور ڈیری کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ اس وقت ہم نیدرلینڈ سے امپورٹ شدہ بیج کاشت کررہے ہیں جو ساتویں جنریشن کا ہے ہم اپنے کاشتکاروں کو تھرڈ جنریشن کا بیج دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ کم خرچے میں زیادہ اچھی اوربہترپیداوارحاصل کرسکیں۔
اس حوالے سے ڈی جی زراعت ایکسٹینشن پنجاب ڈاکٹرانجم علی نے بتایا ہمارے ملک میں آلو ہی ایک ایسی فصل ہے جو ساحل سمندر سے لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں تک کاشت کی جاتی ہے۔ پنجاب میں آلو کی تین فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ میدانی علاقوں میں اس کی دو فصلیں یعنی موسم بہار اور موسم خزاں اور پہاڑی علاقوں میں صرف ایک یعنی موسم گرما کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔
پاکستان میں آلو کی مجموعی ملکی پیداوار کا 95 فیصد حصہ صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔پنجاب میں ہر سال تقریباَ4لاکھ ایکڑ رقبہ پر آلو کاشت کیا جاتا ہے۔ پاکستانی آلو کی بہتر کوالٹی کے باعث دنیا بھر میں مانگ ہے، بین الاقوامی منڈیوں کی مانگ کے مطابق سبزیوں بالخصوص آلو کے معیار کو بہتر بنا کر اس کی برآمدات میں اضافہ وقت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آلو کی پیداوار 40 لاکھ ٹن جبکہ مقامی مجموعی کھپت25 لاکھ ٹن ہے۔ ملک میں طلب سے 15 لاکھ ٹن زائد آلو پیدا کیا جا رہا ہے جس کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف زرعی ماہرین کا کہنا ہے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، روس اور مشرق وسطیٰ کو آلو برآمد کیا جا سکتا ہے جس کے لئے خاطر خواہ میکنزم بنانے کی ضرورت ہے ۔ سمیڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں کولڈ سٹوریج کی تعداد 538 کے قریب ہے۔ جو ضرورت سے کم ہے، سٹوریج ، پراسیسنگ سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث پاکستان میں سالانہ 10 سے 30 فیصد زرعی اجناس ، پھل اور سبزیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔
آلو پاکستان کی ایک اہم فصل ہے کیونکہ اس سے فی ایکڑ آمدنی دوسری فصلوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے آلو ایک مکمل غذا ہے کیونکہ اس میں کافی مقدار میں نشاستہ ، وٹامن ، معدنی نمکیات اور لحمیات پائے جاتے ہیں۔ آلو کی فصل عام اناج کے مقابلے میں خشک مادہ کی بنیاد پر 2 سے 3 گنا زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کو پورا کرنے اور گندم پر دباؤ کم کرنے کے لئے آلوکی پیداوار میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔
پوٹیٹوڈویلپمنٹ اینڈریسرچ بورڈ پنجاب کے چیئرمین چوہدری مقصود احمد جٹ نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کے ادارے نے مقامی طورپر آلوکی 7 اقسام تیار کی ہیں جن میں پی آر آئی ریڈ، روبی، صدف، سیالکوٹ ریڈ، ساہیوال ریڈ اور کوسمو شامل ہیں۔ ان میں سے پی آر آئی ریڈ کا بیج گزشتہ سال پنجاب سیڈکارپوریشن کو دیا گیا تھا جس نے پھر اس کی بڑے پیمانے پر تیاری کرکے کاشتکاروں کو دیا اوراس سے معمول کی فصل کے مقابلے میں زیادہ پیداوار حاصل کی گئی تھی۔
چوہدری مقصود جٹ نے بتایا کہ آلو کی مزید چاراقسام کی پری کوالیفکیشن ہوچکی ہے اوراب آئندہ چند روز میں ان کے انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی نیلامی کی جائے گی، مختلف نجی کمپنیاں یہ اقسام خرید کر پھر اسے سستے داموں کاشت کاروں کا مہیا کریں گی۔ مقامی سطح پرآلو کی جواقسام تیار کی گئی ہیں یہ ناصرف چپس کی تیاری کے لئے بہترین آلو ہوگا بلکہ اسٹوریج اور ڈیری کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ اس وقت ہم نیدرلینڈ سے امپورٹ شدہ بیج کاشت کررہے ہیں جو ساتویں جنریشن کا ہے ہم اپنے کاشتکاروں کو تھرڈ جنریشن کا بیج دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ کم خرچے میں زیادہ اچھی اوربہترپیداوارحاصل کرسکیں۔
اس حوالے سے ڈی جی زراعت ایکسٹینشن پنجاب ڈاکٹرانجم علی نے بتایا ہمارے ملک میں آلو ہی ایک ایسی فصل ہے جو ساحل سمندر سے لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں تک کاشت کی جاتی ہے۔ پنجاب میں آلو کی تین فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ میدانی علاقوں میں اس کی دو فصلیں یعنی موسم بہار اور موسم خزاں اور پہاڑی علاقوں میں صرف ایک یعنی موسم گرما کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔
پاکستان میں آلو کی مجموعی ملکی پیداوار کا 95 فیصد حصہ صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔پنجاب میں ہر سال تقریباَ4لاکھ ایکڑ رقبہ پر آلو کاشت کیا جاتا ہے۔ پاکستانی آلو کی بہتر کوالٹی کے باعث دنیا بھر میں مانگ ہے، بین الاقوامی منڈیوں کی مانگ کے مطابق سبزیوں بالخصوص آلو کے معیار کو بہتر بنا کر اس کی برآمدات میں اضافہ وقت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آلو کی پیداوار 40 لاکھ ٹن جبکہ مقامی مجموعی کھپت25 لاکھ ٹن ہے۔ ملک میں طلب سے 15 لاکھ ٹن زائد آلو پیدا کیا جا رہا ہے جس کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف زرعی ماہرین کا کہنا ہے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، روس اور مشرق وسطیٰ کو آلو برآمد کیا جا سکتا ہے جس کے لئے خاطر خواہ میکنزم بنانے کی ضرورت ہے ۔ سمیڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں کولڈ سٹوریج کی تعداد 538 کے قریب ہے۔ جو ضرورت سے کم ہے، سٹوریج ، پراسیسنگ سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث پاکستان میں سالانہ 10 سے 30 فیصد زرعی اجناس ، پھل اور سبزیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔