والد کی عظمت
اسلام میں والد کی ناراضی کو اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور والد کی خوش نُودی کو ربّ تعالیٰ کی خوش نُودی سے تعبیر کیا گیا ہے
والد، دنیا کی وہ عظیم ترین ہستی ہے جو اپنے بچوں کی بہترین پرورش اور ان کی راحت کے لیے ہمہ وقت کوشش کرتا ہے۔ والد، کاوش اور مشقت میں پڑ کر زندگی گزارتا اور ضرورت پڑنے پر اپنے بچوں کے لیے جان تک کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔
ہر والد کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکیں اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ شریعت اسلامی میں والد کو بڑا رتبہ حاصل ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں والد کی ناراضی کو اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور اُس کی خوش نُودی کو ربّ تعالیٰ کی خوش نُودی قراردیا گیا ہے۔
قرآن پاک کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کے فرمودات کی روشنی میں والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ماں کی طرح والد کی عظمت کا پاس رکھتے ہوئے اس کی اطاعت، فرمان برداری، خدمت اور تعظیم کرکے اس کی رضا حاصل کی جائے تو اﷲ پاک کی طرف سے ہمیں دین و دنیا دونوں کی کام یابیاں، سعادتیں اور جنّت کی بے شمار نعمتیں نصیب ہوسکتی ہیں۔
ایک بار ایک شخص خاتم النبیین نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سارا مال لے لیا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم! جب اس لڑکے کا والد آجائے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں، اور اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا۔ جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا۔ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں ؟ والد نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! آپ اسی سے پوچھ لیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہوگئی۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس کے والد سے دریافت فرمایا: وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا ؟ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! جو بات کانوں نے بھی نہیں سنی اس کی اطلاع آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہوگئی ۔ پھر اس نے کہا کہ میں نے چند اشعار دل میں پڑھے تھے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اشعار ہمیں بھی بتاؤ۔ اس صحابی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا، میں نے دل میں یہ کہا تھا: '' میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ہر ذمے داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر سخت بیداری اور بے قراری کے عالم میں، مگر ایسے جیسے کہ بیماری تمہیں نہیں مجھے لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تمام شب روتے ہوئے گزار دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تُو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنالیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم اتنا ہی کر لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تُونے مجھے کم از کم پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا۔ میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو بیٹے کو فرمایا کہ تُو اور تیرا مال سب تیرے والد کا ہے۔ (بہ حوالہ: معارف القرآن )
سوچیے! اولاد کے ستائے والد کے دل سے نکلے الفاظ کس طرح عرش الٰہی تک پہنچے، اور رحمت الٰہی جوش میں آئی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں، اگر کسی کو یہ نعمت حاصل ہے اور وہ ان کی خدمت و اطاعت کر رہا ہے تو وہ بڑا سعادت مند اور اﷲ کا محبوب بندہ ہے۔ قرآن پاک کے احکامات اور فرامین رسول کریم ﷺ میں جا بہ جا والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی غرض سے والد کا کردار ذرا سخت ہوتا ہے، جب کہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیار سے اولاد نڈر اور بے باک ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم، تربیت اور کردار پر بُرا اثر پڑتا ہے، جب کہ والد کی سختی، نگہہ داشت اور تیزی سے اولاد کو من مانی کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد والد سے زیادہ ماں کے قریب ہوتی ہے، لیکن اولاد یہ نہیں جانتی کہ ان کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم و تربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وہ والد ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل و عیال کو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کر یا روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھا کھانا، پینا، تعلیم اور تربیت میّسر ہو۔
اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی کے حکم کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں، ان کی رائے کو ترجیح دیں ، اور خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں۔ اور اپنی مصروفیات میں سے مناسب وقت ان کے لیے خاص کردیں، ان کی دل و جان سے خدمت و اطاعت کریں کہ اسی میں دین و دنیا کی کام یابی، سعادت اور فلاح ہے۔
اﷲ تعالی ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہر والد کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکیں اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ شریعت اسلامی میں والد کو بڑا رتبہ حاصل ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں والد کی ناراضی کو اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور اُس کی خوش نُودی کو ربّ تعالیٰ کی خوش نُودی قراردیا گیا ہے۔
قرآن پاک کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کے فرمودات کی روشنی میں والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ماں کی طرح والد کی عظمت کا پاس رکھتے ہوئے اس کی اطاعت، فرمان برداری، خدمت اور تعظیم کرکے اس کی رضا حاصل کی جائے تو اﷲ پاک کی طرف سے ہمیں دین و دنیا دونوں کی کام یابیاں، سعادتیں اور جنّت کی بے شمار نعمتیں نصیب ہوسکتی ہیں۔
ایک بار ایک شخص خاتم النبیین نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سارا مال لے لیا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم! جب اس لڑکے کا والد آجائے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں، اور اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا۔ جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا۔ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں ؟ والد نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! آپ اسی سے پوچھ لیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہوگئی۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس کے والد سے دریافت فرمایا: وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا ؟ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! جو بات کانوں نے بھی نہیں سنی اس کی اطلاع آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہوگئی ۔ پھر اس نے کہا کہ میں نے چند اشعار دل میں پڑھے تھے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اشعار ہمیں بھی بتاؤ۔ اس صحابی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا، میں نے دل میں یہ کہا تھا: '' میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ہر ذمے داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر سخت بیداری اور بے قراری کے عالم میں، مگر ایسے جیسے کہ بیماری تمہیں نہیں مجھے لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تمام شب روتے ہوئے گزار دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تُو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنالیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم اتنا ہی کر لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تُونے مجھے کم از کم پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا۔ میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو بیٹے کو فرمایا کہ تُو اور تیرا مال سب تیرے والد کا ہے۔ (بہ حوالہ: معارف القرآن )
سوچیے! اولاد کے ستائے والد کے دل سے نکلے الفاظ کس طرح عرش الٰہی تک پہنچے، اور رحمت الٰہی جوش میں آئی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں، اگر کسی کو یہ نعمت حاصل ہے اور وہ ان کی خدمت و اطاعت کر رہا ہے تو وہ بڑا سعادت مند اور اﷲ کا محبوب بندہ ہے۔ قرآن پاک کے احکامات اور فرامین رسول کریم ﷺ میں جا بہ جا والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی غرض سے والد کا کردار ذرا سخت ہوتا ہے، جب کہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیار سے اولاد نڈر اور بے باک ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم، تربیت اور کردار پر بُرا اثر پڑتا ہے، جب کہ والد کی سختی، نگہہ داشت اور تیزی سے اولاد کو من مانی کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد والد سے زیادہ ماں کے قریب ہوتی ہے، لیکن اولاد یہ نہیں جانتی کہ ان کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم و تربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وہ والد ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل و عیال کو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کر یا روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھا کھانا، پینا، تعلیم اور تربیت میّسر ہو۔
اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی کے حکم کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں، ان کی رائے کو ترجیح دیں ، اور خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں۔ اور اپنی مصروفیات میں سے مناسب وقت ان کے لیے خاص کردیں، ان کی دل و جان سے خدمت و اطاعت کریں کہ اسی میں دین و دنیا کی کام یابی، سعادت اور فلاح ہے۔
اﷲ تعالی ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین