سرمایہ دارانہ ملکوں میں جیل

اخبار پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام امرا کے لیے زندگی گزارنے کا بہترین وسیلہ ہے۔


Zaheer Akhter Bedari July 10, 2020
[email protected]

24 دسمبر 2018ء کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں سزا اور فلیگ شپ ریفرنس میں بری کرنے والے اسلام آباد احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔

ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ کی انکوائری میں قصور وار ثابت ہونے پر برطرف کیا گیا ہے۔ یہ عدالتی معاملات ہیں ہم ان پر ہمیشہ سے تبصرہ کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں،ہمارا یہ موقف رہا ہے کہ جج صاحبان عدالتی معاملات کو بہتر طریقے سے سمجھتے اور انھیں حل کر سکتے ہیں،عام آدمی کو ان پر تبصرہ کرنے سے گریز ہی کرنا چاہیے۔

البتہ ہمیں اپنا ماضی یاد آ رہا ہے اسے ہم اپنے قارئین سے ضرور شیئر کرنا چاہیں گے۔ یہ 1969ء کی بات ہے یحییٰ خان کا زمانہ تھا، ہم کراچی کی ایک لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری تھے یحییٰ خان کے دور میں مزدوروں اور طلبا کی بڑے پیمانے پرگرفتاریاں ہو رہی تھیں، ان گرفتار ہونے والوں میں ہم بھی شامل تھے۔

کورٹ کے جج یا صدر کے سامنے ہماری پیشی ہوئی، پولیس کا چالان پیش کیا جس میں یہ کہا گیا کہ ملزم یعنی ہمارا قد ساڑھے چار فٹ ہے، ملزم موٹا ہے ہماری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی، ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں توہین عدالت کے الزام میں ہم پر ایک مقدمہ اور نہ بن جائے لیکن عدالت کے سربراہ کے چہرے پر بھی ہنسی کھیل رہی تھی کیونکہ ہماری رپورٹ یعنی چالان میں ہمارا قد ساڑھے چار فٹ اور بھاری جسم بتایا گیا تھا اور ہمارا قد 6 فٹ کے لگ بھگ تھا۔

بہر حال وقت ختم ہوا اور ہم نے گزارش کی کہ سر ہمارا قد 6 فٹ کے قریب ہے، جب کہ چالان میں ساڑھے چار فٹ بتایا گیا ہے اور ہمیں بھاری جسم کا ملزم کہا گیا ہے جب کہ ہم دبلے پتلے انسان ہیں۔ ہمارے بیان پر صدر عدالت مسکرا رہے تھے چونکہ اوپر کا حکم تھا کہ ہر ملزم کو لازمی سزا دی جائے سو ہمیں بھی ایک لمبی سزا ہوئی۔

تفصیل اس احوال کی یہ تھی کہ سائٹ میں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا اور اندھی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا، ہم کو جس جگہ اور وقت پرگرفتارکرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اس وقت ہم ڈیوٹی پر تھے ان سارے حقائق کے باوجود ہمیں گرفتار بھی کیا گیا اور سزا بھی دی گئی۔ جیل بڑی دلچسپ جگہ ہوتی ہے اور ایک بار ہم بیرک میں بیٹھے تھے کہ تین سانڈ جیسے قیدی آئے اور جمعدار سے کہا ہمیں کل عید منانی ہے ہمیں اپنی مرضی کی سہولتیں دے دیں۔

ہم بڑے پریشان کہ ان کو من چاہی سہولتیں کیوں مل رہی ہیں؟ جیل میں مالدار قیدیوں کو ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ایسی سہولتیں جو باہر بڑی مشکل سے میسر ہوتی ہیں۔ ہم جیل کے تمام قیدیوں میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے تھے یعنی ڈبل ایم اے تھے۔ عام قیدیوں سے سخت کام لیے جاتے ہیں، لیکن ہم چونکہ پڑھے لکھے بلکہ زیادہ ہی پڑھے لکھے تھے لہٰذا ازراہ کرم ہمیں کپڑا گودام میں لگا دیا گیا۔ ہم قیدیوں کو ان کے ناپ کے کپڑے مہیا کرتے تھے قیدیوں نے ہمارا نام کپڑے والا بابو رکھ دیا۔

جیل میں سپاہی قیدیوں کے کام کر دیتے ہیں جیل میں ہمیں بخار ہو گیا۔ دوا کا نام لکھ کر ایک سپاہی کو دیا اور گھر کا پتا بتایا۔ سپاہی صاحب دوا لے کر آئے ہم نے اپنے گھر کا پتا دیا کہ سپاہی گھر سے پیسے لے لے۔ تیسرے دن گھر سے ملاقات آئی بیگم نے دواؤں کے پیسوں کا ذکرکیا تو معلوم ہوا کہ بھائی سپاہی نے حق خدمت کے طور پر 500 روپے وصول کر لیے۔ ہمارے مزدوروں نے سپاہی کو پکڑ لیا اور پٹائی کر دی۔ بڑی مشکل سے اسے بچایا گیا۔ جیل میں اس جیسے بہت کیس ہوتے ہیں اور دولت مند قیدیوں کوگھر کی تمام سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ صرف پیسے کی ضرورت ہوتی ہے سارا کھیل پیسے کا ہوتا ہے۔

کسی بھی ملک کی ترقی دیکھنا ہو تو اس کے قانون اور انصاف کو دیکھیں۔ اس سے قانون اور انصاف کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں غریبوں کے لیے الگ انصاف ہوتا ہے اورامیر کے لیے الگ انصاف ہوتا ہے۔ اصل میں سرمایہ دارانہ نظام میں دولت ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے دنیا کا ہر کام دولت سے ہوتا ہے۔ غریبوں کے لیے جیلیں عذاب سے کم نہیں، لیکن امیروں کے لیے جیل 5 اسٹار ہوٹل سے زیادہ عیش کی جگہ ہوتی ہے، اس سسٹم میں حکمرانوں کو ایسی ایسی سہولتیں میسر ہوتی ہیں کہ کسی کو یقین ہی نہیں آتا۔

اخبار پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام امرا کے لیے زندگی گزارنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ میں نے جیل میں عمر قید گزارنے والے ایسے قیدی دیکھے ہیں جن کی زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ جیلوں میں گزر گیا اور اسی جیل میں امرا کو یہ سہولت میسر ہوتی ہے کہ کم ازکم کسی آزاد ملک میں اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں جیل اصلاحات ہوتی رہتی ہیں لیکن عام قیدی کو اس سے سوائے تسلی کہ کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے اور وہ ساری خوبیاں بھی ہمارے ملک میں ہیں۔ ہم نے 1969ء کی آپ بیتی میں جیلوں کا مختصر تذکرہ کیا ہے یہ 1969ء کی بات ہے اب تو بہت ترقی ہوچکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں