چراغ۔۔۔ یادوں کے   پہلا حصہ

معزز قارئین کو آگاہ کرتا چلوں کیونکہ لکھنے والے اور پڑھنے والے دونوں ایک قسم کے غیر معروف دوست ہوتے ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

یوں تو یہ موضوع یادداشتوں کا ہے۔ سوچا کہ بے شمار موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ کچھ اپنے بارے میں بھی معزز قارئین کو آگاہ کرتا چلوں کیونکہ لکھنے والے اور پڑھنے والے دونوں ایک قسم کے غیر معروف دوست ہوتے ہیں۔ تو یہ انجانا پن بھی ختم کرتا چلوں۔ زندگی کی ناؤ ساحل کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے، لیکن اس یادداشت میں چراغ کا تذکرہ اس لیے آیا کہ بچپن سے چراغ اور موم بتیوں سے کھیلتا رہا۔

جب چند برس کا ہوا توگھروں میں بجلی کی آمد ہوئی۔ ویسے بھی چراغ روشنی کا استعارہ ہے۔ اور علم کی ضو یہیں سے پھوٹی ہے۔ پھر ہر مضمون میں کہیں نہ کہیں دوران گفتگو آگہی کے بہت سے پہلو نمایاں ہیں۔ جنھیں میں نے چراغ کا عنوان دے دیا جب میری عمر چھ برس کی ہوئی تو والدہ مجھے اسکول لے گئیں اور میرا داخلہ انگریزی اسکول میں کرایا گیا جس میں میٹرک کی سند میں یہ درج ہوتا تھا کہ طالب علم کی مادری زبان انگریزی ہے۔

والدکا خیال تھا کہ ان کا بیٹا حصول تعلیم کے بعد افسران بالا میں سے ہوگا کیونکہ باپ بھی ایم اے پاس اور دادا ڈپٹی کلکٹر۔ والدہ روزانہ شام کوکتابیں کاپیاں کھول کر دیکھتی تھیں اور ہفتے میں ایک دو دن باپ کے زیر تعلیم رہتا۔ مجھے یاد ہے کہ چھٹی جماعت تک تمام سیکشنوں میں اول آیا کرتا اور اکثر اسکول کی جانب سے ڈبل پروموشن کا اعزاز ملتا تھا مگر جب دسویں جماعت میں آیا۔ دماغ نے شعورکی منزلیں طے کیں تو جسم میں انتہائی سخت طوفان اٹھے۔

سنہ53 میں جب پہلی جماعت تھی تو ہر چیز مشاہدے میں تھی، مگر جب دسویں جماعت میں آیا، بچوں کی فیس میں تاخیر ہونے پر انتظامیہ کا رویہ دیکھا تو بڑا ہی افسوس ہوا۔ اسی دوران ایک روز میرا دوست جو میری ہی سیٹ کے قریب بیٹھا تھا کہنے لگا کہ ''آؤ، انیس صدرگھوم کے آتے ہیں'' اس زمانے میں صدر صاف ستھرا علاقہ ہوتا تھا۔ یہاں کرسچن اور پارسی بڑی تعداد میں رہائش پذیر تھے۔ بسیں بھی اصول سے چلا کرتی تھیں جب وکٹوریہ روڈ (عبداللہ ہارون روڈ) پر پہنچا تو سڑک پر ایک بورڈ تھا جس میں اشارہ بنا ہوا تھا "Volks Library" ۔

ہم دونوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ کیسی لائبریری ہے۔ ڈیڑھ بجے کا وقت ہوگا ہمارے دوست نے ہمت کی اور کہا چلو اوپر چلتے ہیں۔ جب اوپر چڑھے تو پانچ چھ عمر رسیدہ افراد نظر آئے جنھوں نے بڑی محبت سے ہمیں اپنے پاس بلایا اور بٹھایا۔ زیادہ تر یہ لوگ شیروانی اور پاجامے میں ملبوس تھے۔ انھوں نے چند باتیں کیں اور بچوں کی کچھ کتابیں ہمیں گفٹ کروا دیں۔ دسویں جماعت کے طالب علم تھے تو کتابیں پڑھ کر دوسری دنیا کے متعلق آگاہی ہوئی۔ یہ کتابیں ماسکو کی چھپی ہوئی تھیں۔ زیادہ تر کتابیں انگریزی میں تھیں اور کچھ اردو زبان میں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نیچے واپس آگئے۔

ابھی سیڑھی سے فٹ پاتھ پر پہنچے ہی تھے ایک پولیس مین نما شخص پاس آیا اور اس نے کہا کہ یہ جگہ بچوں کے جانے کی نہیں ہے جو لوگ روزانہ اوپر جاتے ہیں۔ پولیس ان کا پورا کچا چٹھہ لکھتی ہے اور تم بچے ہو یہاں نہ جایا کرو۔ پھر ہم کم ازکم چھ ماہ تک لائبریری میں نہیں گئے۔ یہاں تک کہ میٹرک کا رزلٹ آگیا۔پھر وہاں ایک بار جانا ہوا۔

میں اور میرے دوست عبدالستار محمدی یہ سوچ کر وہاں گئے کہ اب ڈھیر ساری کتابیں جو بھی مفت ملیں گی انھیں لے لیں گے اور دیکھیں گے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی تہذیب و تمدن، تعلیم اور رہائش کے کیا طریقے ہیں۔ اس زمانے میں Cell Phone نہیں ہوتے تھے اور لینڈ فون البتہ کسی کسی گھر میں ہوتے تھے۔ ہم دسویں جماعت میں پہنچ گئے تھے۔ اسی لیے ہمیں نویں جماعت نے فیئر ویل پارٹی دی تو دوستوں کے گھروں کے پتے اور کسی کا فون ہوا تو اس کا نمبر لے لیا۔

میٹرک کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی۔ ہر دوست اپنی پسند کے کالج میں چلا گیا۔ بچپن کے ساتھی ایک طرح سے بچھڑ گئے۔ فاصلے طویل۔ لہٰذا ملاقات بھی کم ہی ہوا کرتی تھی۔ صرف تعلیم اور معلومات کا ہی شوق تھا۔ گھر کی فکر نہ تھی کہ وہ تو والد محترم کے سپرد تھا لیکن یہ خیال آیا کہ اپنا وزن تو کم ازکم خود اٹھانا چاہیے، گھرکی فکر اس لیے بھی کم تھی کہ والد محترم کئی برس تک چینی سفارت خانے میں تصنیف و تالیف کے شعبے سے منسلک تھے اورگھر خوب تر چلتا تھا۔

یہ بات 1959 کی ہے کہ کسی حکومتی عہدیدار نے والد صاحب کو چینی سفارت خانے میں غیر ادبی کام کے لیے اکسایا لہٰذا والد صاحب نے چند روز میں چینی سفیر وانگ شو کو استعفیٰ پیش کردیا اور زبانی وانگ شو سے وجہ بتائے بغیر جاب چھوڑ دی۔ وانگ شو خود سمجھ گئے کہ ان کے نظریاتی ساتھی نے جاب کیوں چھوڑ دی۔ اب محض ادبی کام و کاج سے گھر چلایا جا رہا تھا۔


اتفاق کی بات ہے کہ چند ماہ بعد اسسٹنٹ پروفیسر کی جگہ کا اخبار میں اعلان ہوا اور حسن عادل صاحب نے والد صاحب کو اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے نیشنل کالج میں جاب دے دی۔ مجھے بھی والد صاحب نے نیشنل کالج میں فرسٹ ایئر سائنس میں داخل کروا دیا۔ اسی دوران میں نے چند ٹیوشن پڑھانے کا انتظام کرلیا اور ایک فری کوچنگ سینٹر لیاقت آباد میں کھولنے کا اہتمام کرلیا جو نویں جماعت کے سائنس کے طلبا کے لیے مخصوص تھا۔

رفتہ رفتہ یہ نویں اور دسویں جماعت کے لیے کردیا گیا کیونکہ اس میں میرے ایک دوست بھی شامل ہوگئے۔ کالج بھی رواں رہا۔ مگر ایک روز ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے نشاط زندگی کی دنیا ہی بدل دی۔ یہ 1964 کی بات ہے کہ میں کالج میں داخل ہوا تو دیکھتا کیا ہوں کہ دو حضرات بھی میرے ساتھ کالج میں داخل ہوئے ان کی عمریں پچیس چھبیس سال کی ہوں گی۔ دونوں نے یکے بعد دیگرے سلام کیا ہاتھ ملایا اور اپنے اسمائے گرامی بتائے۔

پہلے جو صاحب بولے انھوں نے کہا کہ میرا نام معراج محمد خان ہے اور تقریباً پانچ چھ منٹ تک اپنی کارکردگی کی تفصیلات بتاتے رہے جس کا مدعا یہ تھا کہ پاکستان میں تعلیم صرف مخصوص اور محدود طبقے کے لیے ہے۔ انھوں نے روس چین اور دوسرے ملکوں کے متعلق بتایا اور یہی بات دوسرے صاحب جن کے ایک ہاتھ میں پائپ نہایت نفیس سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ وہ فتح یاب علی خان تھے جو ایل ایل بی سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے۔ انھوں نے کہا ابھی ہمارے ساتھی نے جو باتیں آپ سے کی ہیں انھیں دہرانا نہیں چاہتا۔

اگر آپ کے پاس کبھی ٹائم ہو تو میڈیکل کالج کی کینٹین میں دو بجے کے بعد آجایا کریں۔ وہاں ہمارے اور بھی ساتھی ہوتے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر شیر افضل ملک ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ ان سے علمی استفادہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آپ بہت سلیقے سے اردو بول رہے ہیں۔ آپ ڈبیٹنگ میں حصہ لیجیے تو اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ یہ باتیں سن کر مجھے Volks Library کے صاحبان یاد آئے۔ وہ دونوں حضرات تو چلے گئے مگر دماغ کا دائرہ بدل گیا۔

کچھ دنوں بعد کالج میں موجود گزشتہ برس کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی نے اعلان کیا کہ دو ہفتے بعد اسی ماہ میں ہفتے کو کامن روم میں ایک ڈیبیٹنگ مقابلہ منعقد کر رہی ہے۔ جو افراد اس میں حصہ لینا چاہیں اپنے نام اس میں رجسٹر کروالیں۔ میرے لیے یہ نہایت خوشی کا موقعہ تھا کہ تقریری مقابلے میں اپنا نام لکھوا دیا۔ نتائج کی رو سے بھی مجھے اول مقام ملا۔ لہٰذا جب بین الکلیاتی مقابلہ کالج میں منعقد ہوا تو مجھے لیڈر آف دی ہاؤس اور میرے دوسرے ساتھی کو لیڈر آف دی اپوزیشن منتخب کیا گیا۔

مباحثے کے اختتام پر مجھے کالج کی انتظامیہ نے اور یونین کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے خراج تحسین پیش کیا۔ اس طرح میرے اعتماد کو مزید تقویت حاصل ہوئی پھر میں نے اردو ادب، شاعری اور تاریخی کتب کا مطالعہ شروع کردیا۔ اب میں نے الیکشن کمیٹی میں بیٹھ کر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے انتخابی اسٹوڈنٹس کے ساتھ خاصا وقت گزارا۔ اور مطالبات کی ایک فہرست تیار کرنے میں دوسرے طلبا کے ساتھ تعاون کیا۔ انتخابات ہوئے تو ہماری ٹیم فاتح قرار پائی اس طرح دو برسوں میں مجھے کالج میں ممتاز مقام حاصل ہوگیا۔

جب انٹرکے رزلٹ آئے تو میں سیکنڈ ڈویژن میں 57 فیصد نمبروں سے داؤد انجینئرنگ کالج میں داخلہ لینے گیا تو ساتھ دوسرے ساتھی بھی تھے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ یہاں تو جدید انجینئرنگ کے شعبے ہیں۔ آپ بی ایس سی کرکے بی ای میں داخلہ لیں تو یہ آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ لہٰذا یہ شعبہ تو میں نے خود گنوا دیا۔ اسی دوران والد صاحب نے نیشنل کالج کی ملازمت ترک کرکے فیڈرل بی ایریا میں کریم آباد کے قریب ایک نیا تعلیمی ادارہ سراج الدولہ کالج کے نام سے قائم کیا اور گھر بھی ناظم آباد شفٹ ہو گیا۔

ایسی صورت میں مجھے بی ایس سی پارٹ ون میں داخلے کے لیے گورنمنٹ کالج ناظم آباد جانا پڑا۔ یہاں بھی اردو انگریزی اور سائنس کے اساتذہ اچھے ہونے کے ساتھ ساتھ طلبا بھی کھیل کود اور ادب اور سائنس میں اچھا مقام رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کالج کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ کالج تعلیم کے علاوہ طلبا کے مسائل پر نمایاں لیڈر رکھتے تھے۔

(جاری ہے)
Load Next Story