وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے کیسز دائر کر سکیں گے جسٹس مشیر عالم
بروقت فیصلے نہ ہونے پر ججز کو بھی منہ چھپانا پڑجاتا ہے، جسٹس مشیر عالم
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مشیر عالم نے کہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے کیسز دائر کر سکیں گے۔
کورونا وائرس کے باعث عدالتی نظام کو درپیش مسائل پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مشیر عالم نے ماسک کے تناظر میں کہا کہ کورونا نے یقینا ہم سب کی زندگی بدل دی ہے، مقدمات کا بروقت فیصلہ نہ ہونے اور التوا کے باعث ججز کو بھی بعض اوقات منہ چھپانا پڑجاتا ہے، میری بیگم بھی نقاب کرتی ہیں۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ہمارا نظام انصاف اچھا نہیں ہے، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق 128 ممالک میں سے پاکستان 120 نمبر پر تھا، ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ایز آف بزنس میں 190 ممالک میں سے پاکستان 156ویں نمبر پر ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہم نے سب سے پہلے سندھ ہائیکورٹ میں آٹومیشن کی کوشش کی، وکلا نے اسے اپنا دشمن سمجھا اور احتجاج شروع کر دیا، میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ تھا میرے خلاف بھی احتجاج ہوا، مجبوراً ہمیں ضلعی سطح پر آٹومیشن سسٹم ختم کرنا پڑا،
حکومت سے فنڈز کی بات کی تو انکار کر دیا گیا، ہم فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں آٹومیشن سسٹم کی تنصیب کر رہے ہیں۔
جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ اگر بار یہ سمجھتی ہے کہ آٹومیشن ان کی پریکٹس میں رکاوٹ ہے تو اس سے مشکلات بڑھیں گی، اب سندھ ہائیکورٹ میں جعلی کیسز نہیں ا سکتے کیوں کہ موکلین کی ذاتی حیثیت میں پیشی ضروری ہے، سپریم کورٹ بار آٹومیشن کے قوانین بنائے، اس معاملے پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی ای کورٹس کے لیے کافی کام کیا ہے، اس وقت ہمیں فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے، ہم بگ ڈیٹا بینک اور نیشنل ڈیٹا بینک کی ضرورت ہے، وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے کیسز دائر کر سکیں گے اور پھر ہمیں منہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔
کورونا وائرس کے باعث عدالتی نظام کو درپیش مسائل پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مشیر عالم نے ماسک کے تناظر میں کہا کہ کورونا نے یقینا ہم سب کی زندگی بدل دی ہے، مقدمات کا بروقت فیصلہ نہ ہونے اور التوا کے باعث ججز کو بھی بعض اوقات منہ چھپانا پڑجاتا ہے، میری بیگم بھی نقاب کرتی ہیں۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ہمارا نظام انصاف اچھا نہیں ہے، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق 128 ممالک میں سے پاکستان 120 نمبر پر تھا، ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ایز آف بزنس میں 190 ممالک میں سے پاکستان 156ویں نمبر پر ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہم نے سب سے پہلے سندھ ہائیکورٹ میں آٹومیشن کی کوشش کی، وکلا نے اسے اپنا دشمن سمجھا اور احتجاج شروع کر دیا، میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ تھا میرے خلاف بھی احتجاج ہوا، مجبوراً ہمیں ضلعی سطح پر آٹومیشن سسٹم ختم کرنا پڑا،
حکومت سے فنڈز کی بات کی تو انکار کر دیا گیا، ہم فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں آٹومیشن سسٹم کی تنصیب کر رہے ہیں۔
جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ اگر بار یہ سمجھتی ہے کہ آٹومیشن ان کی پریکٹس میں رکاوٹ ہے تو اس سے مشکلات بڑھیں گی، اب سندھ ہائیکورٹ میں جعلی کیسز نہیں ا سکتے کیوں کہ موکلین کی ذاتی حیثیت میں پیشی ضروری ہے، سپریم کورٹ بار آٹومیشن کے قوانین بنائے، اس معاملے پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی ای کورٹس کے لیے کافی کام کیا ہے، اس وقت ہمیں فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے، ہم بگ ڈیٹا بینک اور نیشنل ڈیٹا بینک کی ضرورت ہے، وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے کیسز دائر کر سکیں گے اور پھر ہمیں منہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔