قانون سازی پی سی بی کو قیوم رپورٹ کی بھی یاد آ گئی
وزیراعظم کوارسال کردہ تجاویزمیں حوالہ موجود،ماضی میں چیئرمین سوال اٹھا چکے
KARACHI:
کھیلوں میں کرپشن کیخلاف قانون سازی کیلیے پی سی بی کوجسٹس قیوم رپورٹ کی بھی یاد آ گئی جب کہ وزیر اعظم کو ارسال کردہ تجاویز میں اس کا حوالہ بھی موجود ہے۔
پی سی بی نے ''لیجسلیشن آن دی پریوینشن آف کرپشن ان اسپورٹس'' (کھیلوں کو بدعنوانی سے بچانے کیلیے قانون سازی) کے نام سے77 صفحات پر مشتمل تجاویز تیار کی ہیں،اسے گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کو بھی پیش کر دیا گیا تھا۔
اس میں دیگر کے ساتھ جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 1998میں پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ اور کرپشن کی تحقیقات ہوئیں جس کی رپورٹ2000میں سامنے آئی، اس کے نتیجے میں سلیم ملک پرتاحیات پابندی عائد ہوئی، وسیم اکرم کو کپتانی سے ہٹانے کی سفارش کردی گئی جبکہ مشتاق احمد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ بورڈ کے سربراہ احسان مانی 2018میں وسیم اکرم کو کرکٹ کمیٹی میں شامل کرتے ہوئے قیوم رپورٹ پر ہی سوال اٹھا چکے ہیں، اس رپورٹ میں وسیم اکرم پر3 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد ہوا تھا، وہ اب بھی کرکٹ کمیٹی کا حصہ ہیں، مشتاق احمد پر بھی تین لاکھ روپے جرمانہ ہوا، وقار یونس ایک لاکھ روپے جرمانے کی زد میں آئے، یہ دونوں بطور بولنگ کوچ ان دنوں قومی ٹیم کے ساتھ انگلینڈ میں موجود ہیں۔
اس حوالے سے ایک سابق کرکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایک طرف بورڈ کرپشن کیخلاف قانون سازی کی باتیں کر رہا ہے، دوسری جانب مشکوک ماضی والے کئی کرکٹرز مختلف حیثیتوں سے سیٹ اپ میں موجود ہیں، اس سے زیروٹولیرنس پالیسی کے دعوے خود ہی ختم ہو جاتے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ پی سی بی کی تجاویز پر کوئی قانون سازی ہو سکے گی۔
کھیلوں میں کرپشن کیخلاف قانون سازی کیلیے پی سی بی کوجسٹس قیوم رپورٹ کی بھی یاد آ گئی جب کہ وزیر اعظم کو ارسال کردہ تجاویز میں اس کا حوالہ بھی موجود ہے۔
پی سی بی نے ''لیجسلیشن آن دی پریوینشن آف کرپشن ان اسپورٹس'' (کھیلوں کو بدعنوانی سے بچانے کیلیے قانون سازی) کے نام سے77 صفحات پر مشتمل تجاویز تیار کی ہیں،اسے گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کو بھی پیش کر دیا گیا تھا۔
اس میں دیگر کے ساتھ جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 1998میں پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ اور کرپشن کی تحقیقات ہوئیں جس کی رپورٹ2000میں سامنے آئی، اس کے نتیجے میں سلیم ملک پرتاحیات پابندی عائد ہوئی، وسیم اکرم کو کپتانی سے ہٹانے کی سفارش کردی گئی جبکہ مشتاق احمد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ بورڈ کے سربراہ احسان مانی 2018میں وسیم اکرم کو کرکٹ کمیٹی میں شامل کرتے ہوئے قیوم رپورٹ پر ہی سوال اٹھا چکے ہیں، اس رپورٹ میں وسیم اکرم پر3 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد ہوا تھا، وہ اب بھی کرکٹ کمیٹی کا حصہ ہیں، مشتاق احمد پر بھی تین لاکھ روپے جرمانہ ہوا، وقار یونس ایک لاکھ روپے جرمانے کی زد میں آئے، یہ دونوں بطور بولنگ کوچ ان دنوں قومی ٹیم کے ساتھ انگلینڈ میں موجود ہیں۔
اس حوالے سے ایک سابق کرکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایک طرف بورڈ کرپشن کیخلاف قانون سازی کی باتیں کر رہا ہے، دوسری جانب مشکوک ماضی والے کئی کرکٹرز مختلف حیثیتوں سے سیٹ اپ میں موجود ہیں، اس سے زیروٹولیرنس پالیسی کے دعوے خود ہی ختم ہو جاتے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ پی سی بی کی تجاویز پر کوئی قانون سازی ہو سکے گی۔