پاکستان کیلئے نئی کنڈیشنز کے بارے میں سیکھنے کا موقع
انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز ٹیسٹ سیریز، انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا آغاز
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں پوری دنیا کا مزاج تبدیل ہوا، رہن سہن اور کاروبار سمیت زندگی کے طور اطوار بدل گئے۔
اجتماعی سماجی سرگرمیوں میں سر فہرست کھیل سب سے زیادہ متاثر ہوئے، مشکل صورتحال میں کھلاڑی تو بے کار ہو کر گھروں میں بیٹھے ہی، اربوں روپے کی سپانسر شپ اور نشریاتی حقوق کے معاہدے بھی ختم ہوئے،سپورٹس کی کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اخراجات میں کمی کے لیے نہ صرف اپنے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ روک دیا بلکہ کئی ملازمین کو بھی فارغ کر دیا۔
اس صورتحال میں کھیلوں کے ارباب اختیار بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ کورونا کو ختم کرنے والی کوئی جادوئی چھڑی فوری طور پر میسر آنا ممکن نہیں، دنیا کو کچھ عرصہ اب اس وائرس کے ساتھ ہی چلنا ہے تو پھر کھیلوں کو نئے ماحول میں زندہ رہنے کا طریقہ کیوں نہ سکھایا جائے، کوریا میں تماشائیوں کے بغیر بیس بال مقابلے امید کی پہلی کرن بنے، کورونا ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے یورپ میں فٹ بال مقابلوں کے آغاز نے مزید حوصلہ دیا۔
انگلش کرکٹ بورڈ کو داد دینی چاہیے جس نے مشکل ترین حالات کے باوجود ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے خلاف سیریز کی میزبانی کے لیے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ای سی بی نے اپنے میڈیکل پینل اور حکومتی متعلقہ اداروں میں شامل ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد بائیو سکیور کرکٹ کا تصور پیش کیا تو بڑی انہونی سی بات لگ رہی تھی، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت برطانیہ میں کورونا کیسز میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا،غیر یقینی صورتحال تھی، سفری پابندیوں کی وجہ سے لاجسٹک مسائل بھی تھے۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان حالات میں ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی ٹیمیں دورہ کے لیے تیار ہوتی بھی ہے یا نہیں،بالآخر تمام رکاوٹیں دور ہوئیں،بائیو سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے ٹیموں کو سیریز شروع ہونے سے 4 یا 5 ہفتے قبل انگلینڈ میں بلانے کا پلان بنایا گیا،مقصد یہ تھا کہ کھلاڑی 14 روزہ کا قرنطینہ مکمل کرنے کے ساتھ مقامی کنڈیشنز میں اچھی پریکٹس بھی کر سکیں، کاؤنٹی ٹیموں کے ساتھ وارم اپ میچز ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ٹیموں کو بڑے سکواڈز لانے کی اجازت دی گئی تاکہ مہمان کرکٹرز آپس میں ہی مقابلے شیڈول کر کے اچھی پریکٹس حاصل کر سکیں،تمام خدشات کو جھٹک کر پہلے ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے انگلینڈ میں ڈیرے ڈالے، اس کے بعد پاکستانی سکواڈ بھی چارٹرڈ طیارے میں پہنچ گیا۔
کیریبئنز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ ساؤتھمپٹن میں جاری ہے،ہار اور جیت سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ 117 روز کے طویل تعطل کے بعد کے شائقین کو بالآخر پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ دیکھنے کا موقع مل گیا، بند دروازوں کے پیچھے ہی سہی ایکشن تو شروع ہوگیا، بائیو سکیور ماحول میں میچز کا یہ کامیاب تجربہ یقینا دیگر ملکوں کو بھی انٹرنیشنل کرکٹ کے انعقاد کا حوصلہ دے گا۔
پاکستان سکواڈ بھی کورونا ٹیسٹنگ کے غیر متوقع نتائج سمیت مختلف مشکلات کو عبور کرتے ہوئے انگلینڈ میں پہنچا ہے،ابتدائی ٹیسٹ میں 10کھلاڑیوں کا پازیٹو آجانا ایک بہت بڑا دھچکا تھا، شعیب ملک کو تو پہلے ہی تاخیر سے 24 جولائی تک جوائن کرنے کی چھوٹ دیدی گئی تھی، ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے دیگر 28 میں سے 20 ہی بذریعہ چارٹرڈ طیارہ انگلینڈ روانہ ہو سکے، محمد حفیظ، وہاب ریاض، فخرزمان، شاداب خان، محمد رضوان اور محمد حسنین کمرشل پرواز میں ووسٹر پہنچے، انہی مراحل سے گزرنے کے بعد حیدر علی، کاشف بھٹی اور عمران خان سینئر نے بھی سکواڈ کو جوائن کرلیا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ ووسٹر میں بھی ان تمام کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ نیگیٹو آئے، اب صرف حارث روف پاکستان میں رہ گئے، ان کو ابھی ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آنے کا انتظار ہے، مینجمنٹ نے پہلے ہی محمد موسی اور روحیل نذیر کی شکل میں 2 ریزروز کو انگلینڈ بھجوا دیا تھا اس لیے شاید اب حارث رؤف کو بھجوانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے، بھرپور ٹریننگ کے ساتھ پہلا دو روزہ انٹر سکواڈ میچ بھی کھیلا گیا، دوسرا جاری ہے۔
مجموعی طور پر بیشتر مہمان کرکٹرز کی فٹنس بہتر نظر آرہی ہے، اس پر ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق، بولنگ کوچ وقار یونس اور اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد نے اطمینان کا اظہار بھی کیا لیکن چند کھلاڑیوں نے اپنا وزن خاصا بڑھا لیا ہے، ان میں عماد وسیم اور یاسر شاہ نمایاں نظر آ رہے ہیں، تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے جسم پر موجود فاضل چربی شرٹس بھی چھپانے میں ناکام رہی ہیں،ان دونوں کرکٹرز کے پہلے بھی انجریز سمیت فٹنس کے مسائل رہے ہیں۔
انگلینڈ کے گراؤنڈ میں گھاس کے نیچے ریتلی مٹی کی تہہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے ٹانگوں کے مسلز کا سخت امتحان ہوتا ہے، اس لیے 80 فیصد فٹنس کے ساتھ میدان میں اتارے جانے والے کھلاڑی بھی مشکلات کا شکار ہوں گے جن کا اثر ان کی کارکردگی پر پڑے گا، خوش آئند بات یہ ہے کہ ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان کو 29 کھلاڑیوں کی کھیپ میسر ہے جس میں سے کنڈیشنز کے مطابق پلیئنگ الیون کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، اس صورتحال میں فٹنس پر کوئی سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
آئی سی سی گائیڈ لائنز کے مطابق بائیو سکیور ماحول میں کھیلی جانے والی پہلی ٹیسٹ سیریز سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، ساؤتھمپٹن ٹیسٹ میں ویسٹ انڈین بولرز کی عمدہ کارکردگی سے پاکستانی پیسرز کو بھی بڑا حوصلہ ملا ہوگا، گیند کو تھوک کی بجائے پسینے سے چمکانے کے باوجود کیربیئنز نے انگلینڈ کو کھل کر بیٹنگ کا موقع نہیں دیا، جیسن ہولڈر اور شینن گبرائیل نے عمدہ لائن و لینتھ کا مظاہرہ کیا تو دوسری جانب مہمان ٹیم نے ریویوز کا بھی دانشمندی سے فائدہ اٹھایا۔
پاکستان کی پیس بیٹری میں ویسٹ انڈیز جیسا تجربہ تو نہیں لیکن نوجوان بولرز اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھلا جا چکے ہیں، محمد عباس سینئر اور انگلش کنڈیشنز سے اچھی طرح آگاہ ہیں، کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ بھی حاصل ہے، شاہین شاہ آفریدی تیزی سے ٹیسٹ کرکٹ کے مزاج کو سمجھ رہے ہیں، نسیم شاہ ردھم میں آ گئے تو پاکستان کے لیے تہلکہ خیز کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
عمران خان سینئر بھی اچھی کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہاب ریاض ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے لیے رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں، اسپن کے شعبہ میں یاسر شاہ بہترین فارم میں نہیں اور بولنگ کوچ مشتاق احمد کی مدد سے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، شاداب خان ابھی تک ٹیسٹ فارمیٹ میں اپنی افادیت ثابت نہیں کر سکے، کاشف بھٹی دورہ آسٹریلیا میں بغیر کوئی میچ کھیلے واپس آگئے تھے۔
پاکستان اگر ان کو سرپرائز پیکیج کے طور پر متعارف کروائے تو انگلش بیٹنگ کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، سپنرز کی کامیابی کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ اگست میں موسم کیسا رہتا ہے، اگر گرمی کی وجہ سے پچز خشک ہوئیں تو سلو بولرز کو مدد ملے گی، دوسری صورت میں بادلوں کے سائے میں پیسرز کو سیم اور سوئنگ کا موقع ملے گا، بہرحال کامیابی اسی ٹیم کا ہے مقدر بنے گی جو کنڈیشنز کا بہتر استعمال کرنے کے لیے موثر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
پاکستان کو اصل مسائل بیٹنگ میں پیش کر سکتے ہیں، عابد علی اچھی فارم میں ہیں لیکن ان کا انگلینڈ میں کھیلنے کا یہ پہلا تجربہ ہوگا، شان مسعود بیرون ملک بہتر تکنیک کے ساتھ کھیلتے ہیں لیکن اکثر اوقات اچھے آغاز کو بڑے سکور میں نہیں بدل پاتے،اظہرعلی کو تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرنا ہے لیکن ان کو اعتماد کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے، گزشتہ دورہ انگلینڈ میں بھی قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے تھے، اسد شفیق کی بھی یہی صورت حال رہی، دونوں ابھی تک مصباح الحق اور یونس خان جیسی کامیاب جوڑی نہیں بن پائے، تینوں فارمیٹ میں ہر طرح کی کنڈیشنز میں پاکستان کے لیے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بابراعظم ایک بار پھر امیدوں کا محور ہوں گے۔
مینجمنٹ کے بیانات کو دیکھا جائے تو سرفراز احمد کو سیریز میں آزمانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، محمد رضوان کے لیے اچھا موقع ہوگا کہ وکٹوں کے پیچھے عمدہ کارکردگی کے ساتھ رنز بھی بناتے ہوئے اپنا کیس مضبوط کریں، بیٹسمین کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھتے ہوئے اچھے ٹوٹل سکور بورڈ پر سجائیں گے تب ہی بولرز کو کارکردگی دکھانے کا موقع ملے گا۔
اجتماعی سماجی سرگرمیوں میں سر فہرست کھیل سب سے زیادہ متاثر ہوئے، مشکل صورتحال میں کھلاڑی تو بے کار ہو کر گھروں میں بیٹھے ہی، اربوں روپے کی سپانسر شپ اور نشریاتی حقوق کے معاہدے بھی ختم ہوئے،سپورٹس کی کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اخراجات میں کمی کے لیے نہ صرف اپنے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ روک دیا بلکہ کئی ملازمین کو بھی فارغ کر دیا۔
اس صورتحال میں کھیلوں کے ارباب اختیار بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ کورونا کو ختم کرنے والی کوئی جادوئی چھڑی فوری طور پر میسر آنا ممکن نہیں، دنیا کو کچھ عرصہ اب اس وائرس کے ساتھ ہی چلنا ہے تو پھر کھیلوں کو نئے ماحول میں زندہ رہنے کا طریقہ کیوں نہ سکھایا جائے، کوریا میں تماشائیوں کے بغیر بیس بال مقابلے امید کی پہلی کرن بنے، کورونا ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے یورپ میں فٹ بال مقابلوں کے آغاز نے مزید حوصلہ دیا۔
انگلش کرکٹ بورڈ کو داد دینی چاہیے جس نے مشکل ترین حالات کے باوجود ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے خلاف سیریز کی میزبانی کے لیے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ای سی بی نے اپنے میڈیکل پینل اور حکومتی متعلقہ اداروں میں شامل ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد بائیو سکیور کرکٹ کا تصور پیش کیا تو بڑی انہونی سی بات لگ رہی تھی، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت برطانیہ میں کورونا کیسز میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا،غیر یقینی صورتحال تھی، سفری پابندیوں کی وجہ سے لاجسٹک مسائل بھی تھے۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان حالات میں ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی ٹیمیں دورہ کے لیے تیار ہوتی بھی ہے یا نہیں،بالآخر تمام رکاوٹیں دور ہوئیں،بائیو سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے ٹیموں کو سیریز شروع ہونے سے 4 یا 5 ہفتے قبل انگلینڈ میں بلانے کا پلان بنایا گیا،مقصد یہ تھا کہ کھلاڑی 14 روزہ کا قرنطینہ مکمل کرنے کے ساتھ مقامی کنڈیشنز میں اچھی پریکٹس بھی کر سکیں، کاؤنٹی ٹیموں کے ساتھ وارم اپ میچز ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ٹیموں کو بڑے سکواڈز لانے کی اجازت دی گئی تاکہ مہمان کرکٹرز آپس میں ہی مقابلے شیڈول کر کے اچھی پریکٹس حاصل کر سکیں،تمام خدشات کو جھٹک کر پہلے ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے انگلینڈ میں ڈیرے ڈالے، اس کے بعد پاکستانی سکواڈ بھی چارٹرڈ طیارے میں پہنچ گیا۔
کیریبئنز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ ساؤتھمپٹن میں جاری ہے،ہار اور جیت سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ 117 روز کے طویل تعطل کے بعد کے شائقین کو بالآخر پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ دیکھنے کا موقع مل گیا، بند دروازوں کے پیچھے ہی سہی ایکشن تو شروع ہوگیا، بائیو سکیور ماحول میں میچز کا یہ کامیاب تجربہ یقینا دیگر ملکوں کو بھی انٹرنیشنل کرکٹ کے انعقاد کا حوصلہ دے گا۔
پاکستان سکواڈ بھی کورونا ٹیسٹنگ کے غیر متوقع نتائج سمیت مختلف مشکلات کو عبور کرتے ہوئے انگلینڈ میں پہنچا ہے،ابتدائی ٹیسٹ میں 10کھلاڑیوں کا پازیٹو آجانا ایک بہت بڑا دھچکا تھا، شعیب ملک کو تو پہلے ہی تاخیر سے 24 جولائی تک جوائن کرنے کی چھوٹ دیدی گئی تھی، ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے دیگر 28 میں سے 20 ہی بذریعہ چارٹرڈ طیارہ انگلینڈ روانہ ہو سکے، محمد حفیظ، وہاب ریاض، فخرزمان، شاداب خان، محمد رضوان اور محمد حسنین کمرشل پرواز میں ووسٹر پہنچے، انہی مراحل سے گزرنے کے بعد حیدر علی، کاشف بھٹی اور عمران خان سینئر نے بھی سکواڈ کو جوائن کرلیا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ ووسٹر میں بھی ان تمام کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ نیگیٹو آئے، اب صرف حارث روف پاکستان میں رہ گئے، ان کو ابھی ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آنے کا انتظار ہے، مینجمنٹ نے پہلے ہی محمد موسی اور روحیل نذیر کی شکل میں 2 ریزروز کو انگلینڈ بھجوا دیا تھا اس لیے شاید اب حارث رؤف کو بھجوانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے، بھرپور ٹریننگ کے ساتھ پہلا دو روزہ انٹر سکواڈ میچ بھی کھیلا گیا، دوسرا جاری ہے۔
مجموعی طور پر بیشتر مہمان کرکٹرز کی فٹنس بہتر نظر آرہی ہے، اس پر ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق، بولنگ کوچ وقار یونس اور اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد نے اطمینان کا اظہار بھی کیا لیکن چند کھلاڑیوں نے اپنا وزن خاصا بڑھا لیا ہے، ان میں عماد وسیم اور یاسر شاہ نمایاں نظر آ رہے ہیں، تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے جسم پر موجود فاضل چربی شرٹس بھی چھپانے میں ناکام رہی ہیں،ان دونوں کرکٹرز کے پہلے بھی انجریز سمیت فٹنس کے مسائل رہے ہیں۔
انگلینڈ کے گراؤنڈ میں گھاس کے نیچے ریتلی مٹی کی تہہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے ٹانگوں کے مسلز کا سخت امتحان ہوتا ہے، اس لیے 80 فیصد فٹنس کے ساتھ میدان میں اتارے جانے والے کھلاڑی بھی مشکلات کا شکار ہوں گے جن کا اثر ان کی کارکردگی پر پڑے گا، خوش آئند بات یہ ہے کہ ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان کو 29 کھلاڑیوں کی کھیپ میسر ہے جس میں سے کنڈیشنز کے مطابق پلیئنگ الیون کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، اس صورتحال میں فٹنس پر کوئی سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
آئی سی سی گائیڈ لائنز کے مطابق بائیو سکیور ماحول میں کھیلی جانے والی پہلی ٹیسٹ سیریز سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، ساؤتھمپٹن ٹیسٹ میں ویسٹ انڈین بولرز کی عمدہ کارکردگی سے پاکستانی پیسرز کو بھی بڑا حوصلہ ملا ہوگا، گیند کو تھوک کی بجائے پسینے سے چمکانے کے باوجود کیربیئنز نے انگلینڈ کو کھل کر بیٹنگ کا موقع نہیں دیا، جیسن ہولڈر اور شینن گبرائیل نے عمدہ لائن و لینتھ کا مظاہرہ کیا تو دوسری جانب مہمان ٹیم نے ریویوز کا بھی دانشمندی سے فائدہ اٹھایا۔
پاکستان کی پیس بیٹری میں ویسٹ انڈیز جیسا تجربہ تو نہیں لیکن نوجوان بولرز اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھلا جا چکے ہیں، محمد عباس سینئر اور انگلش کنڈیشنز سے اچھی طرح آگاہ ہیں، کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ بھی حاصل ہے، شاہین شاہ آفریدی تیزی سے ٹیسٹ کرکٹ کے مزاج کو سمجھ رہے ہیں، نسیم شاہ ردھم میں آ گئے تو پاکستان کے لیے تہلکہ خیز کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
عمران خان سینئر بھی اچھی کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہاب ریاض ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے لیے رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں، اسپن کے شعبہ میں یاسر شاہ بہترین فارم میں نہیں اور بولنگ کوچ مشتاق احمد کی مدد سے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، شاداب خان ابھی تک ٹیسٹ فارمیٹ میں اپنی افادیت ثابت نہیں کر سکے، کاشف بھٹی دورہ آسٹریلیا میں بغیر کوئی میچ کھیلے واپس آگئے تھے۔
پاکستان اگر ان کو سرپرائز پیکیج کے طور پر متعارف کروائے تو انگلش بیٹنگ کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، سپنرز کی کامیابی کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ اگست میں موسم کیسا رہتا ہے، اگر گرمی کی وجہ سے پچز خشک ہوئیں تو سلو بولرز کو مدد ملے گی، دوسری صورت میں بادلوں کے سائے میں پیسرز کو سیم اور سوئنگ کا موقع ملے گا، بہرحال کامیابی اسی ٹیم کا ہے مقدر بنے گی جو کنڈیشنز کا بہتر استعمال کرنے کے لیے موثر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
پاکستان کو اصل مسائل بیٹنگ میں پیش کر سکتے ہیں، عابد علی اچھی فارم میں ہیں لیکن ان کا انگلینڈ میں کھیلنے کا یہ پہلا تجربہ ہوگا، شان مسعود بیرون ملک بہتر تکنیک کے ساتھ کھیلتے ہیں لیکن اکثر اوقات اچھے آغاز کو بڑے سکور میں نہیں بدل پاتے،اظہرعلی کو تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرنا ہے لیکن ان کو اعتماد کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے، گزشتہ دورہ انگلینڈ میں بھی قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے تھے، اسد شفیق کی بھی یہی صورت حال رہی، دونوں ابھی تک مصباح الحق اور یونس خان جیسی کامیاب جوڑی نہیں بن پائے، تینوں فارمیٹ میں ہر طرح کی کنڈیشنز میں پاکستان کے لیے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بابراعظم ایک بار پھر امیدوں کا محور ہوں گے۔
مینجمنٹ کے بیانات کو دیکھا جائے تو سرفراز احمد کو سیریز میں آزمانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، محمد رضوان کے لیے اچھا موقع ہوگا کہ وکٹوں کے پیچھے عمدہ کارکردگی کے ساتھ رنز بھی بناتے ہوئے اپنا کیس مضبوط کریں، بیٹسمین کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھتے ہوئے اچھے ٹوٹل سکور بورڈ پر سجائیں گے تب ہی بولرز کو کارکردگی دکھانے کا موقع ملے گا۔