اسمارٹ لاک ڈاؤن کے مثبت نتائج تشویشناک حالت والے کورونا مریضوں میں 28 فیصد کمی
کمی اسمارٹ لاک ڈاؤن، ایس او پیز پر عملدرآمد، عوام کے رویوں میں تبدیلی سے آئی، اسد عمر
ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں اور کورونا کے مصدقہ کیسز میں نمایاں کمی آگئی ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے بتایا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی طرف سے متعارف کرائے گئے ایس او پیز پر عملدرآمد اور ملک بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کورونا کے تشویشناک حالت والے مریضوں میں 28فیصد کمی آئی ہے۔ کورونا کیخلاف یہ کامیابی اسمارٹ لاک ڈاؤن، ایس او پیز پر عملدرآمد اورعوام کے رویوں میں تبدیلی کی مرہون منت ہے۔
انہوں نے کہا وزیراعظم عمران خان پہلے شخص ہیں جنہوں نے سمارٹ لاک ڈاؤن کی حمایت کی، اس فیصلے پر ہم پر تنقید بھی کی گئی تاہم اب پوری دنیا اس حکمت عملی کی طرف آ رہی ہے۔دنیا بھر میں اس بات کااحساس کیا گیا کہ پورے پورے ملک کو بند کرنا ممکن نہیں ہے اور صرف ایک حل ہے ہے کو ان علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں بہت زیادہ کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے سامنے جب اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تجویز پیش کی گئی تو اس کی پرزور مخالف سامنے آئی تاہم جب ملک میں کورونا مریضوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوگئی تو کئی ترقی یافتہ ممالک نے بھی اس حکمت عملی کی تائید کردی۔ جرمنی، اٹلی اور پرتگال اب کورونا کے نئے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے لوکل شٹ ڈاؤن پر غور کر رہے ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ دیگر ممالک بھی پورا ملک بند کرنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے علاقوں کو بند کر رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ آسان نہیں تھا تاہم وزیراعظم نے مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کے باوجوداس فیصلے کو اختیار کیا تاکہ کورونا پھیلاؤ روکنے کے ساتھ ساتھ عوام کو معاشی مشکلات سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وبا کی صورتحال میں صحت اور روزگار میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کیا جاسکتا دونوں آپس میں باہم مربوط ہیں ہم یا تو تمام محاذوں پر کامیاب ہونگے یا تمام محاذوں پر ناکام رہیں گے۔
این سی او سی کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ ملک بھر میں 551 مقامات پر سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا، ان علاقوں کی کل آبادی 82 لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ وائرس کے حوالے سے موثر مہم چلائی گئی جس سے کورونا مریضوں میں کمی آنے لگی۔ مسلسل آگاہی مہم سے عوام کے رویوں میں بھی تبدیلی آئی، فیس ماسک کے استعمال میں 1400فیصد اور دستانوں کے استعمال میں 766فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح این 95ماسک کا استعمال5200 فیصد بڑھ گیا۔
ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا اگرچہ پاکستان نے کورونا کیخلاف نمایاں کامیابی حاصل کی ہے تاہم ابھی اس حوالے سے طویل سفر طے کرنا ہے۔ آنیوالا وقت چیلنجز سے بھرپور ہے۔عوام کو عیدالاضحیٰ اور محرم کے دس دنوں کے دوران بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے اگرایس او پیز کی خلاف ورزی اور غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو کورونا کیخلاف حاصل ہونے والے کامیابی کا سفر الٹ سکتا ہے لہذا عید اور محرم کے دنوں میں لوگوں کو ایس او پیز پر پوری طرح عمل کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا این سی او سی اس وقت ملک بھر میں سمارٹ لاک ڈاؤن کا معیار بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے۔ ماہرین صحت نے بھی سمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر عوام کو کورونا کیسز میں کمی کی وجہ قرار دیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ٹیسٹوں کی تعداد بڑھا کر نئے کیسز کی نشاندہی کرنی چاہئے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزکے ڈاکٹر طاہر شمسی نے کہا کہ کوررونا کیس مثبت آنے کی شرح میں 50کمی آئی ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں ہاٹ سپاٹس کو ٹارگٹ کرنا اور ایس او پیز پر عملدرآمد ہے۔ اس سے قبل لاک ڈاؤن کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اسد عمر نے کہا بھارت میں کورونا مریضوں کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں 10گنا زیادہ ہے اور وہاں پاکستان کے مقابلے میں 8گنا زیادہ اموات واقع ہو رہی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کورونا سے اموات کی شرح کم ہو کر 2.1 فیصد ہوگئی جبکہ بھارت میں مودی کے سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجود یہ شرح 2.7فیصد پر برقرار ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے بتایا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی طرف سے متعارف کرائے گئے ایس او پیز پر عملدرآمد اور ملک بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کورونا کے تشویشناک حالت والے مریضوں میں 28فیصد کمی آئی ہے۔ کورونا کیخلاف یہ کامیابی اسمارٹ لاک ڈاؤن، ایس او پیز پر عملدرآمد اورعوام کے رویوں میں تبدیلی کی مرہون منت ہے۔
انہوں نے کہا وزیراعظم عمران خان پہلے شخص ہیں جنہوں نے سمارٹ لاک ڈاؤن کی حمایت کی، اس فیصلے پر ہم پر تنقید بھی کی گئی تاہم اب پوری دنیا اس حکمت عملی کی طرف آ رہی ہے۔دنیا بھر میں اس بات کااحساس کیا گیا کہ پورے پورے ملک کو بند کرنا ممکن نہیں ہے اور صرف ایک حل ہے ہے کو ان علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں بہت زیادہ کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے سامنے جب اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تجویز پیش کی گئی تو اس کی پرزور مخالف سامنے آئی تاہم جب ملک میں کورونا مریضوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوگئی تو کئی ترقی یافتہ ممالک نے بھی اس حکمت عملی کی تائید کردی۔ جرمنی، اٹلی اور پرتگال اب کورونا کے نئے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے لوکل شٹ ڈاؤن پر غور کر رہے ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ دیگر ممالک بھی پورا ملک بند کرنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے علاقوں کو بند کر رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ آسان نہیں تھا تاہم وزیراعظم نے مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کے باوجوداس فیصلے کو اختیار کیا تاکہ کورونا پھیلاؤ روکنے کے ساتھ ساتھ عوام کو معاشی مشکلات سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وبا کی صورتحال میں صحت اور روزگار میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کیا جاسکتا دونوں آپس میں باہم مربوط ہیں ہم یا تو تمام محاذوں پر کامیاب ہونگے یا تمام محاذوں پر ناکام رہیں گے۔
این سی او سی کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ ملک بھر میں 551 مقامات پر سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا، ان علاقوں کی کل آبادی 82 لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ وائرس کے حوالے سے موثر مہم چلائی گئی جس سے کورونا مریضوں میں کمی آنے لگی۔ مسلسل آگاہی مہم سے عوام کے رویوں میں بھی تبدیلی آئی، فیس ماسک کے استعمال میں 1400فیصد اور دستانوں کے استعمال میں 766فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح این 95ماسک کا استعمال5200 فیصد بڑھ گیا۔
ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا اگرچہ پاکستان نے کورونا کیخلاف نمایاں کامیابی حاصل کی ہے تاہم ابھی اس حوالے سے طویل سفر طے کرنا ہے۔ آنیوالا وقت چیلنجز سے بھرپور ہے۔عوام کو عیدالاضحیٰ اور محرم کے دس دنوں کے دوران بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے اگرایس او پیز کی خلاف ورزی اور غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو کورونا کیخلاف حاصل ہونے والے کامیابی کا سفر الٹ سکتا ہے لہذا عید اور محرم کے دنوں میں لوگوں کو ایس او پیز پر پوری طرح عمل کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا این سی او سی اس وقت ملک بھر میں سمارٹ لاک ڈاؤن کا معیار بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے۔ ماہرین صحت نے بھی سمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر عوام کو کورونا کیسز میں کمی کی وجہ قرار دیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ٹیسٹوں کی تعداد بڑھا کر نئے کیسز کی نشاندہی کرنی چاہئے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزکے ڈاکٹر طاہر شمسی نے کہا کہ کوررونا کیس مثبت آنے کی شرح میں 50کمی آئی ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں ہاٹ سپاٹس کو ٹارگٹ کرنا اور ایس او پیز پر عملدرآمد ہے۔ اس سے قبل لاک ڈاؤن کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اسد عمر نے کہا بھارت میں کورونا مریضوں کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں 10گنا زیادہ ہے اور وہاں پاکستان کے مقابلے میں 8گنا زیادہ اموات واقع ہو رہی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کورونا سے اموات کی شرح کم ہو کر 2.1 فیصد ہوگئی جبکہ بھارت میں مودی کے سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجود یہ شرح 2.7فیصد پر برقرار ہے۔