ہے عوامی خواہشات کا کوئی نظام
جنرل پرویز مشرف کے صدارتی نظام میں پی پی اور (ن) لیگ پر کبھی اتنا برا وقت نہیں تھا جتنا موجودہ حکومت میں آیا ہوا ہے۔
صدارتی نظام کے نو سال کے وقفے کے بعد گزشتہ بارہ سالوں سے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت چل رہا ہے اور پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دو حکومتوں کے اپنا اپنا عرصہ اقتدار مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو اقتدار ملا۔ پی پی اور (ن) لیگ اب اپوزیشن میں ہیں۔
پی پی چار بار اور مسلم لیگ (ن) تین بار پارلیمانی نظام میں اقتدار میں رہی اور دونوں پارٹیاں صدر جنرل پرویز مشرف کے صدارتی دور میں بھی اپوزیشن میں رہ چکی ہیں۔ یہ دونوں حکمران پارٹیاں جنرل پرویز مشرف کے زیر سایہ اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ (ق) کی بھی اپوزیشن رہی ہیں اور (ق) لیگ بھی جنرل پرویز مشرف نے دونوں پارٹیوں کے رہنما توڑ کر بنوائی تھی جس کو صرف ایک بار نام کا اقتدار ملا تھا اور اصل اقتدار جنرل پرویز مشرف کے پاس ہی تھا اور پی پی اور مسلم لیگ (ن)کی قیادت جلا وطن تھی۔ اب اقتدار پی ٹی آئی حکومت کے پاس ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے صدارتی نظام میں پی پی اور (ن) لیگ پر کبھی اتنا برا وقت نہیں تھا جتنا موجودہ حکومت میں آیا ہوا ہے۔ ماضی میں دونوں پارٹیاں اپنے اپنے اقتدار کے دوران ایک دوسرے کے خلاف 2008 تک مقدمات بنا کر انتقامی کارروائیاں کرتی رہیں اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت خود کو اس سلسلے میں بری الذمہ قرار دے کر کہتی ہے کہ نیب جو کچھ کر رہا ہے وہ سابقہ دونوں حکومتوں کے دور کا ہے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ عمران خان نے رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالنے کا اعلان کیا تھا جو ضرور پورا کیا گیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف خود نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے سیاسی مخالف تھے اس لیے انھوں نے دونوں کی جلاوطنی پر اکتفا کیا اور آرام سے نو سال حکمران رہے اور وزیر پنجاب پرویز الٰہی انتقامی کارروائیوں پر یقین کم رکھتے تھے اس لیے انھوں نے شریف برادران کی ٹرالی تک کا چالان نہیں ہونے دیا اور پیپلز پارٹی پر بھی ہاتھ نرم رکھا جس کے نتیجے میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے(ق)لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا تھا اور اپنے اقتدار میں عمران خان کی طرح انتقامی اعلانات کے بجائے اپنی حکومت کی مدت ضرور پوری کرالی تھی اور نواز شریف نے بھی پہلی بار پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائی سے گریز کیا تھا اور ان کی حکومت میں دھرنوں کے باوجود عمران خان اور طاہر القادری ایسے نشانہ نہیں بنے تھے جتنے نیب کی کارروائی میں صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے رہنما نشانہ بن رہے ہیں جب کہ ان دونوں پارٹیوں نے نیب کا چیئرمین مقرر کیا تھا جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
ملک میں فوجی جنرلوں کے صدارتی اور سیاستدانوں کے پارلیمانی نظام حکومت رہے مگر یہ حقیقت ہے کہ عوام کو اگر سکون و آرام ملا وہ جنرلوں کے صدارتی نظام میں ملا کیونکہ فوجی دور میں کرپشن اور کمائی کے خواہش مند محدود ہوتے تھے اور پارلیمانی نظام میں دوسروں کے سہارے اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم کے دور میں کرپشن اور کمائی کے سیاسی خواہش مندوں، ارکان اسمبلی، حکمران جماعت والوں کو اپنوں کو نوازنے کے علاوہ بیورو کریسی، پولیس اور دوسروں کو بھی حصہ دینا پڑتا ہے۔ کسی فوجی صدر پر یہ الزام نہیں کہ کسی نے عمران خان کی طرح غیر منتخب اور غیر سیاسی لوگوں اور ذاتی دوستوں کو حکومت میں اہم عہدوں سے نوازا ہے۔ پارلیمانی حکومتوں میں تو کہا جاتا ہے کہ نوازوں کو نوازے ہے سرکار میری۔
فوجی جنرلوں کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور عوام کے نام پر منتخب کرائے جانے والے اقتدار میں آکر عوام کو بھول اور اپنے وعدے و منشور یاد نہیں رکھتے البتہ ان کا سارا زور عوام پر چلتا ہے اور پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی حکومتوں میں آکر کے الیکٹرک جیسے نجی ادارے کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتیں اور مہنگائی کا سارا بوجھ بے بس عوام پر ڈالتی آئی ہیں جب کہ ایسا فوجی ادوار میں کم اور پارلیمانی نظام میں زیادہ سے زیادہ ہوتا آیا ہے اور عوام اپنے منتخب حکمرانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اس لیے ملک میں عوامی خواہشات پر پورا اترنے اور عوام کو حقیقی فائدہ پہنچانے والا کوئی عوامی نظام وجود ہی میں نہیں آیا۔
پارلیمانی حکومتوں میں عوام سے جھوٹے وعدے ہوتے آئے ہیں مگر وعدے پورے نہ کرنے، اپنے منشور بھلا دینے والوں کو سزا دینے کا کوئی سرکاری ادارہ یا عدلیہ موجود نہیں کیونکہ ہر سرکاری ادارے نے عوام کو نہیں ہر برسر اقتدار حکومت کو ترجیح دینی ہوتی ہے اور رہے عوام ان کی کوئی سنتا ہے نہ کہیں ان کی شنوائی ہو رہی ہے۔