سیاست اور جرائم کا باہمی گٹھ جوڑ
ہم اپنی ریاست میں ایک ایسے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جہاں ایک بہت ہی بڑی اصلاحات کا عمل ہمیں درکار ہے۔
ہمارا سیاسی ، انتظامی ، قانونی اور معاشی نظام واقعی ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے ۔اگر ہم نے واقعی مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہے تو تبدیلی کا یہ عمل ناگزیر ہوگیا ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معمولی پیچ ورک یا روائتی طور طریقوں سے ہم نظام میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں، وہ بھی غلطی پر ہیں ۔ہمارا جمہوری نظام سمیت دیگر ادارہ جاتی نظام میں اصلاحات کیونکر نہیں ہوسکیں او راگر کچھ اصلاحات کی جاتی ہیں تو اس پر عملدرآمد کا نظام اس قدر ناقص اور فرسودہ ہوتا ہے کہ اصلاحاتی عمل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔
جب اس طرز کے سوالات کچھ حلقوں کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں تو اسے بلاوجہ جمہوریت یا سیاسی نظام کی دشمنی کی بنیاد پر دیکھ کر رد کیا جاتا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہمارا مجموعی نظام مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے ۔
سندھ میں سانحہ بلدیہ، عزیر بلوچ اور ڈاکٹر نثار مورائی کے تناظر میں بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹس کو جان بوجھ کر پش پشت ڈال دیا گیا۔ اب جب یہ رپورٹس سامنے آئی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ریاستی ، حکومتی ادارے ، جمہوری سیاسی جماعتیں کس طرح سے جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پشت پناہی کرتی ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہی ہے کہ یہاں ریاستی وحکومتی سطح پر طاقت ور افراد جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پرورش کرتے ہیں۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ بالخصوص عزیر جان بلوچ پر وفاق اور سندھ کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ۔ اول پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ یہ رپورٹ جعلی ہے او راس میں ایک خاص مقصد کے تحت ٹمپرنگ کی گئی ہے ۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ازخود نوٹس لے کر اصل رپورٹ کو سامنے لائے اور وہ یہ رپورٹ خود سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے تیار ہیں ۔جب کہ سندھ حکومت کے بقول اس کی رپورٹ ہی اصل ہے ۔
روشنیوں کا شہر کراچی کی تباہی و بربادی کی کہانی کافی پرانی ہے ۔ ایک ایسا شہر جس پر پورے ملک کی معیشت کا نظام جڑا ہو اسے کیسے جرائم پیشہ افراد دیا دہشت گردی سمیت کاقانونیت، بھتہ خوری ، بوری بند لاشوںاور مسلح افراد کا شہر بنا، جو ہمارے ریاستی نظام کے لیے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔جب بھی یہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی بات کی جاتی ہے تو ہماری سیاسی جماعتیں او ران کی قیادتیں اس کو مسترد کرکے اسے اپنے اور سیاسی نظام کے خلاف ایک سازش سے جوڑتے ہیں ۔
اس سے قبل یہ ہی سیاسی جماعتیں اس بات سے بھی انکاری تھیں کہ ان کی جماعتوں میں مسلح گروپس موجود نہیں ہیں ۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے افراد کو کیسے مسلح کیا گیا اور کیسے طاقت او رتشدد کی سیاست کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعما ل کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جے آئی ٹی کی رپوٹ میں یہ تو ظاہر کردیا گیا کہ ان جرائم پیشہ افراد نے کیا کیا جرائم کیے مگر اس بات کو چھپایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے یہ جرائم کس کی مدد یا سرپرستی میں کیے ۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ ہم جے آئی ٹی یا ان سیاسی جماعتوں او ر ان سے جڑے جرائم پیشہ افراد کا ماتم کریں یا ہمیں مستقبل کے تناظر میں اس نظام کو کیسے بہتر بنانا ہے اس پر بات کرنی چاہیے۔ اب ہم اپنی ریاست میں ایک ایسے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جہاں ایک بہت ہی بڑی اصلاحات کا عمل ہمیں درکار ہے۔ سیاسی جماعتوں ، ریاستی و حکومتی اداروں ، پولیس ، انتظامیہ ،قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور تفتیش کے نظام میں بہت کچھ بدلنا پڑے گا ۔ یعنی ایک بڑی سرجری کا یہ نظام تقاضہ کرتا ہے تاکہ ہمیں اپنے اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنا کر قانون کی حقیقی حکمرانی کو طاقت دے سکیں ۔یہ نظام جس انداز سے چلایا جارہا ہے ایسے میں یہ نظام نہ توچل سکے گا او رنہ ہی اسے درست کیا جاسکے گا۔اسی طرح جو جماعتیں وہاں مسلح ہیں یا تشدد کی سیاست پر یقین کرتی ہیںیا جرائم پیشہ افراد سے ناطہ جوڑے ہوئی ہیں ان کو کیسے سیاسی جمہوری دائرہ کار میں لایا جائے۔
اس کا ایک طریقہ تو یہ ہی ہے کہ اول خود سیاسی جماعتیں اپنے اندر موجود ان مسائل سے نکلنے کے لیے بڑے فیصلے کریں تاکہ خود احتسابی کے نظام کے تحت بہتری کا سفر شروع ہو۔ دوئم قانون نافذ کرنے والے ادارے بلاتفریق خود ان جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں او ربشمول ان کو بھی جو ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ جے آئی ٹی کی اس رپورٹ کی بنیاد پر ہم کراچی کو دوبارہ حقیقی کراچی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔اس کے لیے ریاستی و حکومتی سطح پر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ اور ہر طرح کی سیاست کی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوکر کڑوے فیصلوں کی طرف بڑھنا ہوگا ۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ حکومت ان جے آئی ٹی کی بنیا د ان لوگوں کے خلاف کوئی بڑ ی کاروائی کرے گی جو اس رپورٹ کے مطابق مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ اگر اس رپورٹ کے بعد سندھ حکومت نے کچھ نہیں کرنا اور سیاسی سمجھوتے کے تحت اس مسئلہ کو دبائے رکھنا ہے تو اس سے رپورٹ کے اجرا کی اہمیت بھی ختم ہوجائے گی ۔
کیونکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس طرز کی رپورٹس کے اجرا پر ہماری سیاسی قیادتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی مدد سے کھیل کھیلتی ہیں۔اس وقت بھی ان رپورٹس کے اجرا پر وفاق اور سندھ کے درمیان ہمیں محاذآرائی یا سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے اور دونوں فریقین ایک دوسرے کو چیلنج کرکے قانونی معاملات میں سیاست کرکے الجھارہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واقعی قومی سیاست کے لیے بڑی بدقسمتی ہوگی ۔