تحریک انصاف کا مستقبل

تبدیلی چاہنے والے’نظام کہنہ‘ کو شکست تودے دیتے ہیں مگر اس کے متبادل کسی سیاسی نظام کی تعمیر کرنے کے قابل ہیں یا نہیں؟

nusrat.javeed@gmail.com

انٹرنیٹ کے پاکستان پہنچنے سے 24/7 چینلز کے فروغ تک والے 20 سے زیادہ برسوںمیں ہمارا معاشرہ یقینی طور پر Global Village کا ایک توانا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے باوجود میں اکثر اپنے آج کے صحافیوں کا 1930 اور 1940کی دہائیوں سے تقابل کرتا رہتا ہوں۔ ذرائع ابلاغ ان دنوں صرف اخبارات اور رسائل تک محدود تھے۔ مگر آپ مولانا آزاد اور محمد علی جوہر جیسے نابغوں کے صرف اخبارات کے لیے لکھے مضامین اور اداریے پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی معاملات کے ساتھ ہی ساتھ انھیں عالمی سطح پر حاوی سیاسی اور ثقافتی رویوں کے بارے میں بھی حیران کن حد تک آگہی حاصل تھی۔ اخبارات تو حالاتِ حاضرہ کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر اقبالؔ جیسے بے پناہ شاعر بھی ہمیں کارل مارکس، لینن اور مسولینی وغیرہ کا بھرپور انداز میں ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔

میں نے کئی برس پہلے کتابوں کی ایک دکان سے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب یوں ہی خرید لی تھی۔ اس کتاب میں جمعیت العلمائے ہند کے سالانہ جلسوں میں کی گئی صدارتی تقاریر اور بڑی سوچ بچار کے بعد منظور شدہ قراردادوں کو جمع کر دیا گیا تھا۔ اب بھی مہینے میں کئی بار میں وہ کتاب اٹھا لیتا ہوں اور اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ بلقان جنگ کے چھوٹے سے چھوٹے واقعات کا ہمارے ''مولوی'' حضرات کو کتنا گہرا علم تھا اور وہ ان واقعات کا انتہائی مدلل تجزیہ بھی کیا کرتے تھے۔ آپ اس تجزیے سے اتفاق یا اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں۔ مگر یہ اعتراف کرنے پر مجبور پائے جائیں گے کہ مدرسوں سے نکلے یہ ''مولوی'' کہنہ مشق سفارت کاروں کی طرح عالمی امور پر گہری نظر رکھنے کے علاوہ ان کے بارے میں اپنی ٹھوس رائے بھی رکھتے تھے۔

میری نسل کے صحافیوں میں یہ رحجان نظر نہیں آتا۔ بھارت، افغانستان اور ایران ہمارے بہت اہم ہمسائے ہیں۔ ان تینوں ملکوں کے بارے میں ایسے کسی پاکستانی صحافی کا میں تو نام نہیں جانتا جو ان ممالک میں طویل قیام یا بار ہا دوروں کے بعد اپنی ایک رائے رکھتا ہو۔ ان ممالک کے بارے میں ہمارا زیادہ تر ''علم'' ان امریکی اور یورپی صحافیوں کی نگارشات پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنی رپورٹنگ کی صلاحیتوں اور تجربات کو بالآخر کچھ کتابیں لکھنے کے لیے استعمال کیا۔ 1970 کی دہائی سے ''چین اپنا یار ہے'' کے دعوے ہو رہے ہیں۔ میں ایسے کسی بھی کالم نگار کا نام نہیں جانتا جو چینی زبان و ادب سے پوری طرح واقف ہو اور چین کے لوگوں سے طویل ملاقاتوں کے بعد ہمیں اس ملک کے بارے میں ایسی باتیں بتاتا ہو جو امریکی یا یورپی لوگوں کی نظروں سے مختلف وجوہات کی بناء پر چھپی رہتی ہیں۔


گزشتہ ہفتے بھارت کے دارالحکومت نئی دلی کی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ ان کے نتیجے میں 15 سال تک اس شہر کی وزیر اعلیٰ رہنے والی شیلا ڈکشٹ کو چند ہی ماہ پہلے قائم ہونے والی ''عام آدمی پارٹی'' کے بانی اُروند کیجرال نے ووٹوں کی ایک حیران کن اکثریت کے ساتھ شکست دے دی۔ بات صرف شیلا تک محدود نہیں رہی۔ بھارت کی حکمران کانگریسی جماعت کا دلی میں تقریباََ صفایا ہو گیا ہے۔ دلی کی ہمسایہ راجستھان میں بھی عبرت ناک شکست اس جماعت کا مقدر بنی۔ مدھیہ پردیش اور دوسرے صوبوں کے انتخابات اب واضح طور پر نشاندہی کر رہے ہیں کہ شمال مغربی بھارت کی نام نہادCow Belt یعنی ہندی بولنے والے علاقے ذہنی طور پر گجرات کے نریندر مودی اور اس کی BJP کو بھارت کا حکمران دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ نریندر مودی کو ہم محض ایک ہندو انتہاء پسند کے طور پر جانتے ہیں۔ اسے بڑی جائز وجوہات کی بناء پر اپنے صوبے میں ہندو بالادستی قائم کرنے کے جنون کا نمایندہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمیںیہ جستجو تو کرنا چاہیے کہ بھارت کے پڑھے لکھے لوگوں میں اپنے خلاف موجود اتنی نفرت کے باوجود نریندر مودی بھارتی عوام کی اکثریت کو اپنی طرف کیوں راغب کر رہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں اس کی جانی پہچانی ''مسلم دشمنی'' کے علاوہ دوسرے اسباب کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ مگر اس کے لیے وقت چاہیے اور سنجیدہ تحقیق اور ان دونوں چیزوں سے ہم بحیثیت مجموعی محروم پائے جاتے ہیں۔

نریندر مودی کو فی الوقت نظرانداز کرتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ''عام آدمی پارٹی'' کا حیران کن عروج ہمارے ہاں کی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ اس جماعت کا بانی اُروند ایک چھوٹے سرکاری ملازم کا بیٹا تھا جو بڑی محنت اور دوبار فیل ہو جانے کے بعد بھارت کی سول سروس کے لیے منتخب ہوا۔ ملازمت اس کو ٹیکس کے محکمے میں ملی۔ وہاں کام کرتے ہوئے اسے بھارت کی اشرافیہ میں پھیلی کرپشن کا بھرپور احساس ہوا۔ اپنے اس تجربے کی بدولت اس نے اس تحریک کا پورا ساتھ دیا جو Right to informationکے نام پر سرکاری معاملات کی مکمل شفافیت کا تقاضہ کرتی تھی۔ RTI باقاعدہ قانون بن گیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے استعمال کی بدولت لوگوں کو حقائق کا پتہ تو چل جاتا ہے۔ گھپلوں کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے مگر بدعنوانی کے اصل ذمے داروں کے احتساب کا حق پھر بھی نہیں ملتا۔ احتساب کے اسی حق کے حصول کے نام پر اس نے ''عام آدمی پارٹی'' بنائی۔ دلی کے صحافیوں، کالم نگاروں اور وہاں کے جید سیاست دانوں نے اُروند کو محض ایک مسخرا سمجھا۔

کسی نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دلی کی اسمبلی کے انتخابات کے لیے جب اس کی پارٹی نے تمام نشستوں کے لیے امیدوار بھی چن لیے تو اس جماعت پر غیر ملکی امداد سے ایک NGO کو سیاسی جماعت بنانے کے الزامات بھی لگے۔ سیاسی دائو پیچ اور ''فراست و حکمت'' کے بارے میں لاعلم اور Outsider قرار دیے جانے والا اُروند ''مغرور'' بھی ٹھہرایا گیا۔ بالآخر مگر اس نے کانگریس کی چھٹی کروا دی۔ دلی کے انتخابات کے بعد BJP وہاں کی اکثریتی جماعت کے طور پر ضرور اُبھری ہے مگر اس کے پاس دلی کی اسمبلی میں واضح اکثریت میسر نہیں۔ ''عام آدمی پارٹی'' کے ساتھ مخلوط حکومت بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مگر یہ پارٹی کہہ رہی ہے کہ چونکہ اس کو واضح اکثریت نہیں ملی اس لیے وہ حکومت سازی کے عمل میں شریک نہیں ہو گی۔ وہ اس بات پر بضد رہی تو دلی میں گورنر راج لگاکر بالآخر نئے انتخابات کرانا ہوں گے۔ یہی وہ وقت ہو گا کہ جب ہمیں یہ سمجھ آ سکے گی کہ ''تبدیلی'' چاہنے والے ''نظام کہنہ'' کو شکست تو دے دیتے ہیں مگر اس کے متبادل کسی سیاسی نظام کی تعمیر کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔ اس سوال کا جواب مل گیا تو اپنی تحریک انصاف کا مستقبل بھی ہماری سمجھ میں آ جائے گا۔
Load Next Story