فیس بک پولیسنگ
پولیس افسروں کی بہت بڑی اکثریت status quo قا ئم رکھنے کی کو شش کرتی ہے
پولیس کا کام (پولیسنگ) مشکل بھی ہے، مہماتی بھی ہے، خطرناک بھی ہے ، دلچسپ بھی ہے، پرلطف بھی ہے اورThrillingبھی ہے ۔اس کا میدان بڑا وسیع و عریض ہے جہاںہر شخص اپنی مرضی اور اپنے مطلب کے مطابق کا م کرتا ہے۔ کئی نو آموز افسر'' کامیاب'' سینیئرزکے گرُ آزماتے ہیں اور کئی باضمیر ا فسرکامیا ب کی بجائے اچھیّ افسروں کی تقلید کرتے ہیں۔
پولیس افسروں کی بہت بڑی اکثریت status quo قا ئم رکھنے کی کو شش کرتی ہے۔ ایسے افسروںکی یہی کو شش ہوتی ہے کہ وہ جہا ں تعینا ت ہو ں وہاں پولیسنگ کے تالاب میں چھوٹی یابڑی لہر تو کیا کوئی بلبلہ تک جنم نہ لے۔ یعنی حالات جوں کے توں رہیں اور ان میں معمولی سا بھی ارتعا ش پیدانہ ہو، تاکہ اُن سے کوئی وضاحت نہ طلب کی جائے۔
اب جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے لہٰذا ء بہت سے افسروں نے، اپنے ضلعوں اور ڈویژنوں کو تھا نیداروں کے سپرد کرکے خود فیس بک پولیسنگ شروع کر دی ہے کہ شائد اس سے ہی کچھ فیس سیو نگ ہو سکے۔بہت سے ریٹائرڈ آئی جی صاحبان نے مجھے کئی بار کہا ہے کہ کئی ڈی پی او یا ڈی آئی جی اپنے ضلع، کے شہید ہونے والے پولیس افسروں کی بیٹیوں کی شادیوں میں مالی امداد دیتے ہیں تو یہ اُن کا فر ض ہے مگر وہ اس کی فلمیں بنا کر اور سوشل میڈیا پر چلا کر اس کا ڈھنڈوار کیوں پیٹتے ہیں ؟ایسا کر کے وہ شہیدوں اور ان کی بیٹیوں کی توہین کرتے ہیں۔
کیا وہ اپنی بہنوں یا بیٹیوں کی شادیوں کی فلمیں بنا کرسوشل میڈیا پر اپ لوڈکرتے ہیں۔ ہرگز ، نہیں کرتے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ شہید کی بیٹی کو اپنی بیٹی یا بہن سمجھ کر اس کی شادی میں شریک نہیں ہوتے بلکہ اسے ایک پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ شہداء کاہم پر قرض ہے، ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم شہداء کے ورثاء کا دل سے احترام کریں اور انھیں پوری طرح lookafter کریں۔
شہید کی تنخواہ اس کے گھر یااکاؤنٹ میں پہنچنی چاہیے، اگر شہید کا والد یا بیوہ تنخواہ کے لیے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہو تو یہ اُس ضلعے کے ڈی پی او کی نا اہلی بھی ہے اور خونِ شہداء سے بے وفائی بھی۔ بہر حال شہداء کی بیٹیوں کی فلمیں بنا کر چلانا غلط اور نا مناسب ہے۔
اس کا فی الفور خاتمہ ہو نا چاہیے ۔ ایک کلپ سوشل میڈیا پر کئی روز چلتا رہا جس میں ایک ضلع کا ڈی پی اوپولیس لائینز میں پولیس افسروں کو اپنے فرمودات سے نواز رہا ہے ۔سامعین با وردی ہیں مگر موصوف بنیان پہن کر ہی آگئے ہیں۔ نا مناسب لباس میں کیے گئے خطاب کا کیااثر ہونا ہے ۔ ایسے وعظ کے بعد سامعین افسر کے ڈریس پر تبصرے کر رہے ہوںگے ۔باقاعد ہ Formal) (میٹنگوں میں ڈی پی او ، ڈی آئی جی یا آئی جی کو مکمل یونیفار م میں ہونا چاہیے ۔
پھر ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملا جسمیں ایک ڈی پی او مستحقین میں آٹے کے تھیلے بانٹ رہا ہے ۔اسی اخبار میں یہ خبر بھی نظر سے گذری کہ ایک مقا می فلور مل کے مالک نے شکایت کی ہے کہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او اس کی مل سے زبردستی آٹے کے تین سو تھیلے لے گئے ہیں کہ ڈی پی او صاحب نے تقسیم کرنے ہیں۔
اس کی مووی بن جا ئیگی تو جتنے باقی بچیں گے وہ ہم واپس کر جائیںگے ۔ ان ''برآمدشدہ'' تھیلوں کی تقسیم یعنی تقریب تقسیم تھیلا جات کے کلپ کے نیچے کئی comments درج تھے کہ ایسا غریب پرور افسر نہ کبھی پہلے دیکھا ہے اور نہ آئیند ہ دیکھنے کی امیدہے۔
ایک اور ڈی پی او کا کلپ شئیر ہوا ہے کہ وہ غالبََا کسی مدعی کے گھر گیا ہے توخاتون خانہ کے ساتھ والی کرسی (جس پر وہ بیٹھا ہو ا تھا) چھوڑکر نیچے یعنی خاتون کے پیروں میں بیٹھ گیا ہے ۔ مگر وہ درویش صفت افسر اپنی عاجزی اور فقیری کے اس منظر کو فلمانے کے لیے کیمرہ مین کو ساتھ لانا نہیں بھولا ۔کوئی بھی خاتون ہو وہ آپکی اپنی والد ہ سے زیادہ قابلِ احترام نہیں ہوسکتی۔
اگر آپ اپنی والدہ صاحبہ کے برابر بیٹھتے ہیں تو کسی دوسری خاتون کے سا تھ برابر والی کر سی پر بھی ضرور بیٹھیں ، اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر مظلوم خواتین کا صر ف فوٹو یا ویڈیوبنانے کے لیے نہیں دل سے اُتنا احترام کریں جتنا آپ اپنی والدہ کا کرتے ہیں ۔
بعد میں یہ سنکر دُکھ ہوا کہ وہی خاتون (ڈی پی اوجسکے قدموں میں بیٹھا ہواہے) کچھ دنوں بعد ڈی پی او سے ملنے اُنکے دفتر گئی تو وہاں اُسے نہ ملاقات کا وقت ملا اور نہ ہی بیٹھنے کے لیے کرسی ملی ۔ لہٰذامیں پولیس افسروں کو یہ مشورہ دونگا کہ وہ فلمی پولیسنگ اور ڈرامے بازی کو چھوڑ دیں اور اپنے اندر مظلوم اور بے سہارا خواتین و حضرات کے لیے دلی ہمدردی کا جذبہ پیداکریں۔
فیس بک پر ایک اور کلپ میں ایک تھا نیدار دیہاڑی دار مزدوروں کی لائن لگواکر ان میں پیسے تقسیم کر رہا ہے ۔لیکن اس نیکی کو وہ دریا میں یا کھوہ کھاتے نہیں ڈالنا چاہتا اِس لیے مُووی میکر ساتھ لے کر آیا ہے تاکہ ان تاریخی لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے۔
ایک انسپکٹر یا سب انسپکٹر کی تنخواہ تو یقینا اتنی نہیں ہوتی کہ گھر کے اخراجات بھی چلائے اور پھر بھی اتنی رقم بچ جائے کہ وہ حاتم طائی بن کر غریبوں میں بانٹتا پھرے ،غالباََتھا نیدار یہ سمجھتاہے کہ بٹورے گئے مال میں سے کچھ رقم غریبوں میں بانٹ کر وہ اپنی بلیک منی وائیٹ کر لے گا۔ یہ اس کی غلط فہمی ہے مالکِ روزِ محشر کے ہاں ایسی جاوید اقبالین اکاؤنٹیبلٹی کاکوئی تصور نہیں ہے، نہ ہی وہاں رابن ہُڈ بننے کی گنجائش ہے۔ جب بھی کوئی حکومت پولیس کو غیر جانبدار بنانے میں ناکام رہے اور اس کی کارکردگی میں بہتری نہ لا سکے تو پھر وہ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ماڈل پولیس اسٹیشن بنانے کا راگ الاپنا شروع کر دیتی ہے۔
پچھلی حکومت میں احسن اقبال صاحب کے ہتھے بھی کو ئی پرانی فائل چڑھ گئی، انھوں نے جھاڑپونچھ کر ٹائیٹل دیکھا تو انھیں بھی ماڈل پولیس اسٹیشن کے الفاظ پسند آگئے، اور انھوں نے پنجاپ پولیس کو اس کا م پر لگا دیا ۔ یہ پروفیسر احسن صاحب کا کرپٹ تھانیداروں پر اتنا بڑا احسان تھا جس پر وہ آج بھی ان کے شکرگزارہیں ۔اُس وقت ہوتا یوں تھا کہ پولیس کے ضلعی سربراہان نےs SHOکو ماڈل پولیس اسٹیشن بنانے کے لیے فنڈز اکٹھا کر نے کا ٹاسک دے دیا ، جو انھوں نے پور ی جانفشانی اخلاص اور عرق ریزی کے ساتھ نبھا یا ، تما م تھانیدار علیٰ الصبح اس مقدس مشن پرنکل پڑتے اور تاجروں اور صنعتکاروں کو جا گھیرتے ۔کوئی ایک مہینے کی اس ولولہ انگیز مہم کے بعد گوجرانوالہ کے صنعتکاروں کا ایک وفد چیف منسڑ پنجاب سے جاکر ملا ۔ ملتے ہی صنعتکاروں نے ہا تھ جوڑ لیے اور عرض کی کہ'' حضورہمیں ماڈل تھانے نہیں چاہیں، ہمیں پرانے ہی منظور ہیں ۔ ہمیں ماڈل تھانوں والی پولیس سے بچائیں ۔
ہر روز صبح ایک ڈی ایس پی آجاتا ہے کہ سی پی او صاحب نے بھیجا ہے، ماڈل تھانے کے لیے فنڈز دیں، وہ جاتا ہے تو کوئی دوسرا تھانیدار آجاتا ہے کہ ماڈل تھانہ بنا نا ہے پیسے چاہئیں ۔ حضور پچھلے ایک مہینے سے صبح سے لیکر شام تک باودری منگتوں کو بھگتا رہے ہیں ۔ اب تنگ آکے آپ کے پا س آئے ہیں ہمیں ان سے بچا ئیں'' ۔
سب سے پہلے پولیس افسروں کو یہ سمجھ لینا چائیے کہ پو لیس کا سب سے بڑا مسئلہ نفری یا وسائل کی کمی یا بیرونی مداخلت وغیرہ نہیں ہے ۔بلکہ سب سے بڑا مسئلہ Trust Deficit ہے جسکا مطلب ہے کہ ہمارے کلائینٹ یعنی عوا م کو ہم (پولیس) پر اعتماد اور اعتبار نہیں ہے۔
عوام کا اپنے اوپر اعتماد بحال کرنا پولیس افسر وں کا سب سے بڑا ہد ف اور سب سے اوّلین ترجیح ہونی چایئے ۔ اس کے لیے تحصیلوں ، ضلعوں اور ڈویژنوں کو کمانڈکرنے والے افسروں کو چایئے کہ اپنے اندر سرایت کر جانے والی اُن بر ا ئیوں کو دور کریں جنکی وجہ سے ان کا ادار ہ عوام کے اعتماد سے محرو م ہے اور اُن کاموں پر توجہ دیں جن سے کھویا ہوا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ تمام سروسز میں خصوصاً پولیس اور ڈی ایم جی میں integrity کا لیول تشویشناک حد تک گر گیا ہے۔ نوجوان افسر اس تلخ حقیقت کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ دونوں اہم ترین سروسز میں دیانتدار افسروں کی شرح 25% سے بھی کم رہ گئی ہے۔ جو ادارے 75% حرام خوروں پر مشتمل ہوں عوام اُن پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ افسروں کی بڑی اکثریّت initiative لینے کی صلاحیّت سے ہی محروم ہو چکی ہے۔ ضلع اور ڈویژن کے کمانڈر اسی بات پر مطمئن رہتے ہیں کہ انھیں قیمتیں چیک کرنے، بار دانہ تقسیم کرنے یا ماسک اور تھیلے بانٹنے کا کام مل گیا ہے۔
ان کی اپنی کوئی ترجیحات ، کوئی حکمتِ عملی یا کوئی ایکشن پلان نہیں ہے۔ اُن سے پوچھیں کہ آجکل کیا ہو رہا ہے ؟ تو اُنکا یہی جواب ہوتا ہے کہ چیف منسٹر صاحب کی ڈائریکشنز آئی ہیں، اُن پر عمل کر رہے ہیں۔ پولیس پر شہریوں کا اعتماد قائم کرنا اور عوام کو ایک ایماندار ، خوش اخلاق ،ہمدرد اور غیر جانبدار پولیس دینا اُن کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے۔اُن میں وہ جذبہ اور تڑپ نہیں ہے کہ ُان کے ضلع کا ہر شخص اپنے آپ کو محفوظ سمجھے اور کوئی ایک شخص بھی ظلم اور زیادتی کا شکار نہ ہو۔ (جاری ہے)