بجلی بنیادی انسانی حق
حکومتیں اور حزب اختلاف سب مل کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں مگر کوئی بھی فریق حقیقی حل پیش نہیں کررہا
کراچی ایک لاوارث شہر ہے۔ وفاقی وصوبائی حکومتیں اور حزب اختلاف سب مل کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں مگر کوئی بھی فریق حقیقی حل پیش نہیں کررہا۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر اسد عمر نے یہ خوش خبری سنائی ہے کہ کراچی میں جلد لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔
کے الیکٹرک نے نیپرا کے اجلاس میں ساری ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد کردی۔ اب کے الیکٹرک کو اضافی گیس کی فراہمی شروع ہوگئی ہے۔ کراچی کے عوام جانتے ہیں کہ یہ عارضی اقدامات ہیں، جب پارہ اوپر چڑھے گا تو کراچی میں بجلی لاپتہ ہوجائے گی۔ شہر میں بجلی کا نظام اتنا بوسیدہ ہوچلا ہے کہ 15 سے 20 منٹ کی بارش اور تیز ہواکے نتیجہ میں بجلی کے تاروں سے پھیلنے والے کرنٹ سے 10 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور کئی دنوں تک شہر میں بجلی کی فراہمی کا سلسلہ معطل رہا۔
کراچی میں پیر 6 جولائی کو شام کے وقت شہر کے کئی علاقوں میں اوسطاً 15 سے 25 منٹ تک گھن گرج کے ساتھ بارش ہوئی۔ بارش سے پہلے ہوائی طوفان نے کراچی کا احاطہ کیا۔ اس مختصر مدت کی بارش نے کراچی میں بجلی کے نظام کو تہہ و بالا کردیا۔ بجلی کی فراہمی طبقاتی نظام کے تابع ہوگئی ہے۔ امراء کی بستیوں میں بجلی کی سپلائی 4 سے 6گھنٹوں میں بحال ہوگئی۔ متوسطہ طبقہ کی بستیوں میں بجلی کی فراہمی اوسطاً 8 سے 10 گھنٹوں میں بحال ہوئی مگر غریبوں کی بستیوں میں 10سے 15 گھنٹوں تک بجلی کی سپلائی معطل رہی۔ بعض علاقوں میں 24 گھنٹے بعد بجلی بحال ہوئی ۔
بجلی کی بندش کے لیے مختلف اصلاحات استعمال کی جارہی ہیں۔ کبھی اسے لوڈ مینجمنٹ اور کبھی ایمرجنسی فالٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مینٹینس کا کام ہورہا ہے، یوں ہفتہ میں بعض اوقات 8سے 12 گھنٹوں تک بجلی بند کی جاتی ہے۔ جب غریبوں کے علاقے میں بجلی کی سپلائی معطل کرتی ہے تو لوڈ شیڈنگ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں پورے سال لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ کبھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 2سے 4گھنٹے ہوتا ہے مگر گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ 10 سے 15 گھنٹوں تک محیط ہے۔
کراچی کے مضافاتی بستیوں اور قدیم گوٹھوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقوں میں پورے سال لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے ۔ اس دفعہ صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی کی قیادت میں سندھ اسمبلی کے اراکین نے کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ انہو ں نے بجلی کی کمی دور کرنے کا یہ حل پیش کیا کہ کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کی جائے اور دیگر کمپنیوں کو بھی کراچی میں بجلی کی فراہمی کا کام سونپا جائے۔ فردوس شمیم نقوی این ای ڈی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کا مدعا ہے کہ کمپنیوں کے درمیان مقابلہ سے بجلی کی فراہمی کا نظام بہتر ہوجائے گا۔
فری مارکیٹ اکانومی کے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں صحت مند مقابلہ سے اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور اس طرح اشیاء کا معیار بہتر ہوسکتا ہے مگر پاکستان میں اجارہ داری کے نقصانات پر تحقیق کرنے والے طلبہ کا یہ تجزیہ ہے کہ مختلف شعبوں میں مختلف کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ ان کے درمیان مقابلہ بھی ہوتا ہے مگر یہ کمپنیاں اشیاء کی کم سے کم قیمت کے اپنی مرضی سے تعین کے لیے سنڈیکیٹ بنالیتی ہیں۔ گزشتہ دنوں منظر عام پر آنے والا شوگر اسکینڈل اس کی بڑی واضح مثال ہے۔
شوگر انڈسٹری میں بہت سے ایسے افراد کی سرمایہ کاری ہے جو سیاسی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں مگر شوگر کی قیمتوں کے تعین کے بارے میں سب مالکان ایک انجمن تلے متحد ہیں۔ایسی ہی صورتحال ادویات کے شعبہ کی ہے ۔ ایک ریٹائر انجنیئر رشید ابراہیم کا کہنا ہے کہ بجلی کی جنریشن کا شعبہ ریاست کے پاس ہونا چاہیے مگر بجلی کی تقسیم کا نظام نجی کمپنیوں کے سپرد کرنا چاہیے اور ہر علاقہ کے بلدیاتی ادارہ کے منتخب اراکین کو بجلی کی تقسیم کے کام کی نگرانی کا فریضہ سونپا جانا چاہیے۔
بجلی کے بغیر جدید معاشرہ کا تصور ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں بجلی کا بحران جنرل ضیاء الحق کے دور سے شر وع ہوا۔ 70ء کی دہائی میں کینیڈا نے پاکستان کو کراچی میں بجلی کی فراہمی کے لیے ایٹمی بجلی گھر کینپ دیا تھا۔ اس زمانہ میں ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر صوبہ میں دو ایٹمی بجلی گھر لگائے جائیں تو پاکستان بجلی کے شعبہ میں خودکفیل ہوسکتا ہے مگر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو افروایشیائی ممالک کی قیادت کا تصور بھا گیا تھا۔ پاکستان ایٹم بم بنانے میں لگ گیا۔ امریکا اور یورپی ممالک نے پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بجلی کے متبادل ذرائع کی ترقی پر غور ہی نہیں ہوا۔ افغان جہاد پروجیکٹ سے اربوں ڈالر آئے، وہ کہاں گئے کوئی نہیں جانتا۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے تیسرے دور میں کمپنیوں کو بجلی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا گیا۔ ان کمپنیوں نے منہ مانگے دام وصول کیے، یوں بجلی مہنگی ہوگئی مگر بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے نئے ذرائع تلاش کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں کوڑے سے بجلی تیار ہوتی ہے مگر کراچی میں جب بھی کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ شروع ہوا ، اس منصوبہ کو ناکام بنادیا۔
ایک صحافی کا کہنا ہے کہ شہر بھر میں افغان بچے کوڑا جمع کرتے ہیں۔ ان کی سرپرستی ایک بڑی مافیا کرتی ہے۔ پاکستانی ریاست یا تو انتہائی کمزور ہے یا قانون نافذ کرنے والوں کے اپنے مفادات میں ہو کہ اس کوڑا مافیا کا آج تک خاتمہ نہیں ہوسکا۔ پھر ابھی تو سولر انرجی کی صنعت کے تحفظ اور ترقی کے لیے ادارہ جاتی اقدامات نہیں ہوئے۔
کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ فزکس کے استاد ڈاکٹر قدیر کاکہنا تھا کہ کراچی سے بدین تک قدرت نے اتنی ہوا دی ہے کہ اگر اس ہوا کی ٹیکنالوجی کو ترقی دی جائے تو ملک اس زون میں بجلی کی پیداوار میں خودکفیل ہوسکتا ہے۔ پاکستان ہائیڈرل پاور بجلی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس طریقہ سے دیہاتوں میں نہری پانی سے اتنی بجلی حاصل ہوسکتی ہے کہ دیہاتوں کی خاصی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ سوشل سائنس کے ڈاکٹر عرفان عزیز کہتے ہیں کہ 80ء کی دہائی سے لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی مگر ریاستی اداروں نے اس مسئلہ کا دائمی حل تلاش کرنے کے بجائے جنریٹر مافیا کی حوصلہ افزائی شروع کردی۔
تمام حکومتوں نے لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لیے جنریٹر اور تیل کی خریداری کے لے رقم مختص کرنا شروع کر دی، یوں اسلام آباد سے کراچی تک ہر سرکاری ادارہ نے جنریٹر اور اس کے تیل کے لیے فنڈز مختص کردیے۔ اگریہ فنڈز بجلی کے متبادل ذرائع پر خرچ ہوتے تو بجلی کا بحران بہت کم ہوجاتا۔ اس ساری صورتحال سے ثابت ہوگیا ہے کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کا فیصلہ غلط تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست بنیادی انسانی حق بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اس کا نظام سنبھالے۔ بنیادی طور پر ریاست کو بجلی کی ہر فرد کو فراہمی کو اپنے ایجنڈا میں شامل کرنا چاہیے۔