فطرت کی بلند ہوتی چیخ

ماہرین کے مطابق اگر ایڈزپرقابو نہ پایا گیا تو یہ بیماری ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

''بھئی! لڑکے کے پاس گرین کارڈ ہے!'' یہ جملہ ہزاروں ازدواجی مسائل کا حتمی حل تصور کیا جاتا ہے، بھلا جس کے پاس ''ارض تمنا'' کا ''پروانہ راہداری'' ہو اس کی شرافت پر کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ لیکن جناب! اب ذرا محتاط ہو جایئے! کیونکہ ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں ایڈز ایسا مہلک مرض، اخلاقی بے راہ روی اور مذہب سے بیگانگی نیز طبی شعور کے فقدان کے سبب انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اقوام متحدہ کے ایڈز کے خلاف پروگرام یو این ایڈز کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 35.3 ملین افراد ایچ آئی وی انفیکشن کا شکار ہیں، رپورٹ کے مطابق 2012 میں ایڈز سے ہونے والی اموات کی تعداد 1.6 ملین رہی۔

2011 میں یہ تعداد 1.7 ملین تھی جب کہ 2005میں اس بیماری سے 2.3 ملین افراد لقمہ اجل بنے تھے، اگرچہ علاج کی سہولتوں میں بہتری کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا افراد کی شرح اموات میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایچ آئی وی کی وجہ سے ایڈز کی بیماری لاحق ہوتی ہے یہ انفیکشن مریضہ ماؤں، بریسٹ فیڈنگ، سرنج کے ذریعے نشہ کرنے، انتقال خون (متاثرہ مریض کا خون)، ہم جنس پرستی، غیر محتاط جنسی تعلق سے پھیلتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں ایڈز کے مریضوں کی کل تعداد میں سے 2.7 ملین نئے مریض شامل ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ تعداد امریکا اور افریقا اور دوسرے نمبر پر ایشیا میں موجود ہے اور اب ایشیا بھی تقریباً پوری طرح ایڈز کے شکنجے میں آ چکا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں تھائی لینڈکو ایڈز کا عالمی دارالحکومت کہا جا رہا تھا لیکن اب یہ تاج ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے سر پر رکھ دیا گیا ہے جس کا کچھ حصہ ہمارے سر بھی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 12 لاکھ کے لگ بھگ ہے جب کہ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں HIV / AIDS میں مبتلا افراد کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ہے مگر رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 7854 ہے۔ جب کہ نصف سے زائد تعداد اندرون سندھ میں موجود ہے جن کی تعداد 4420 تک ہے جس میں کراچی 3942 مریضوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود HIV / AIDS کے مریضوں کی نصف تعداد نوجوانوں کی ہے جو 25 سال کی عمر تک پہنچنے پر اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں اور 35 سال تک پہنچنے پر ان کی موت واقع ہو جاتی ہے اور یہ مرض 11 فیصد متاثرہ ماں سے بچے کو، 10 فیصد نشہ آور سرنجوں اور 10 فیصد مرد سے مرد کے ہم جنس پرستی پر مبنی جنسی تعلقات کی وجہ سے پھیلتا ہے جب کہ پانچ فیصد آلودہ طبی اوزار بقایا مرد سے عورت کے ناجائز جنسی تعلقات سے پروان چڑھتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر اس مہلک مرض پر قابو نہ پایا گیا تو یہ بیماری ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکا، افریقا، زیمبیا، بھارت، پاکستان سمیت یہ مرض تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی ایڈز کی یلغار کا خطرہ ہے لیکن اب یہ خطرہ محض ایک خطرہ نہیں رہا بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور ہمارا ملک بھی ایڈز کے عذاب کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ایڈز ہمارے ملک میں کیا کیا گل کھلائے گا اور اس کے معاشرے پر کیا کیا اثرات مرتب ہوں گے محتاج بیان نہیں۔ ہمارا ملک پہلے ہی جہالت، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور امن و امان کے فقدان سمیت لاتعداد مسائل اور چیلنجز کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، ایڈز کا تحفہ سونے پر سہاگہ ثابت ہو گا، یک نہ شد بے شمار شد۔ ہمارے ملک کا نوجوان طبقہ گزشتہ چند برس سے ملک کی خراب معیشت اور حالات کی وجہ سے تجارت، نوکری اور تفریح کی غرض سے مشرقی بعید اور یورپی ممالک کے بکثرت دورے کرتا رہا ہے۔ ایسی صورت میں اس بیماری کے دن دوگنی اور رات چوگنی توسیع فروغ کے خوفناک امکانات موجود ہیں۔


خصوصاً پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چند سالوں سے بنگالی خواتین کی آمد، خواجہ سراؤں اور دیگر خواتین و مردوں کی جسم فروشی کے کاروبار اور گھناؤنی سرگرمیوں نے اس خطرے کو ایک خطرناک حقیقت میں بدل دیا۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے بھی اہم ، بڑے اور پوش علاقوں میں کئی ناپسندیدہ واقعات اور ممنوعہ جنسی سرگرمیوں کی وجہ سے شہر کی فضا مکدر ہو گئی ہے بلکہ قانونی اور صاف ستھرا کاروبار کرنے والوں نیز شریف النفس خواتین و حضرات کی دشواریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور جس طرح ہمارے شہری اور دیہی علاقوں میں ہونے والے اکثر جرائم کی پشت پناہی محکمہ پولیس کی طرف سے ہوتی ہے اسی طرح اس گھناؤنی معاشرتی و کاروباری یلغار کے پیچھے بھی پولیس کا دست شفقت ہے اس لیے کہ ان کی آمدنی کے غیبی راستے کھل گئے ہیں، منتخب عوامی حکومت کو عوام کے دیگر مسائل کی طرح اس جانب بھی خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اور اس مرض کی روک تھام کے لیے ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے بڑے بڑے مسائل اور چیلنجز یعنی دہشت گردی، بدامنی، معیشت کی بدحالی اور توانائی کے بحران وغیرہ نے ہماری ترجیحات کی سمت اس اہم ترین مسئلے سے یکسر موڑ دی ہے لیکن آنکھیں بند کر لینے سے خطرہ نہیں ٹلے گا ہمیں شعوری طور پر اس کی روک تھام کے لیے اہم اور موثر ترین اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

ایڈز کا حملہ ہمارے ملک کے لیے دشمن حملے سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے اور اس کی موثر ترین روک تھام نہ کی گئی تو ساری قوم کا کسی جنگ کے بغیر از خود ہی صفایا ہو جائے گا۔ پاکستان کے باشعور طبقوں بالخصوص میڈیا اور طب سے تعلق رکھنے والے ذمے داران کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقی یلغار کا احساس کرتے ہوئے اس سے بچاؤ اور تحفظ نیز سدباب کے لیے ہر ممکن ذرایع کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ضمن میں عوامی شعور کو خصوصی طور پر بیدار کریں اس کے لیے صرف ایک دن کافی نہیں جیسا کہ یکم دسمبر کو ایڈز کے عالمی دن کے موقعے پر علامتی طور پر اس مرض سے آگہی اور بچاؤ کی تشہیر کی گئی اس کے لیے اس طرز پر سارا سال ترجیحی بنیادوں پر خصوصی کام ہونا چاہیے۔ ایڈز نے جس طرح امریکا، یورپ، افریقا، زیمبیا، تھائی لینڈ اور بھارت کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف اگلے پانچ برسوں میں بھارت کی ہر گلی اور ہر محلے میں ایڈز کے مریض ہوں گے۔

امریکا کے نائب صدر ڈان کوئل نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ایڈز سے بچاؤ کا بہترین طریقہ ''ضبط نفس'' ہے تو ان کا بہت مذاق اڑایا گیا تھا ۔تاہم آج اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اس مہلک مرض کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے ضبط نفس، مذہبی اقدار کے فروغ اور اخلاقی بے راہ روی ایسے اسباب پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے لہٰذا اس ضمن میں حکومت وقت کے ساتھ ساتھ طبی ماہرین، ایڈز کنٹرول پروگرام کے مفکرین و دیگر غیر سرکاری تنظیموں، فلاحی اداروں، دینی، اخلاقی، علمی، ادبی اور سائنسی حلقوں کو اہم اور کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایڈز کا فی الحال واحد علاج احتیاط ہی ہے اگرچہ اس بیماری کے مقابلے میں ٹریٹمنٹ تھراپی کافی موثر ثابت ہو رہی ہے مختلف کیمیائی اجزا سے تیار کردہ اس دوا کے کورس کو اس بیماری کے خلاف ایک اہم ہتھیار تصور کیا جا رہا ہے تاہم یہ دوا ماں سے بچے کو HIV انفیکشن منتقل ہونے سے روکتی ہے، یہ دوا اس بیماری کا علاج نہیں ہے لیکن بیماری کو آگے منتقل ہونے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یو این ایڈز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل سیڈیبی نے کہا ہے کہ 2015 تک 1.5 ملین انسانوں کو ایڈز کے علاج کی سہولت فراہم کر دی جائے گی، گزشتہ برس HIV اور ایڈز کے خلاف جنگ پر صرف کی جانے والی عالمی امداد 18.9 بلین ڈالر رہی جو اندازوں سے 3 تا 5 بلین ڈالر کی تھی عالمی برادری کو اس ٹارگٹ سے آگے کا سوچنا چاہیے تا کہ کوئی بھی مریض علاج سے محروم نہ رہے، عالمی برادری کی طرف سے ترتیب دیے گئے اندازوں کے مطابق 2015 تک HIV اور AIDS کے خلاف جاری مختلف منصوبہ جات کے لیے سالانہ بنیادوں پر 22 کا 24 ملین ڈالر کی خطیر رقم کی ضرورت ہے۔

یاد رکھیے! ایڈز ایسی فطرت کی چیخ روز بروز دنیا میں بلند ہو رہی ہے اس سے مکمل آگہی اور نیکی کی راہ اختیار کرنے سے ہی آپ اس موذی اور مہلک بیماری سے کود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔
Load Next Story