علما کا ضابطہ اخلاق ایک اہم پیش رفت

یہ کس قدرنادانی کی بات ہے کہ ہم خود ہی رستے بند کرتے ہیں اورپھرخود ہی ٹریفک جام میں پھنسنے پراس ملک کوبرا بھلاکہتےہیں


Dr Naveed Iqbal Ansari December 11, 2013
[email protected]

گزشتہ ہفتے ذرائع ابلاغ پر ایک نہایت اہم خبر سننے کو ملی جس کے مطابق ملک کے چار بڑے مذہبی مکاتب فکر کے نمایندہ علما کی طرف سے متفقہ طور پر 9 نکاتی ضابطہ اخلاق پر دستخط کیے گئے۔ یہ دستخط پنجاب کے وزیر مذہبی امور کے دفتر میں کئی گھنٹوں کی مشاورت اور غور و خوض کے بعد ثبت کیے گئے۔ ضابطہ اخلاق کے تحت یہ بھی طے پایا گیا کہ لاؤڈ اسپیکر پر صرف اذان اور عربی زبان میں خطبہ مسنونہ دیا جا سکے گا اس کے علاوہ اس کے استعمال پر مکمل پابندی ہو گی۔

یہ ایک نہایت اچھی پیش رفت ہے گو کہ اس کی ضرورت ایک طویل عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن بے پناہ جانی و مالی نقصانات کے بعد اس طرف قدم اٹھایا گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں یہ تعلیمات مسلمہ ہیں کہ کسی بھی انسان کو دکھ اور تکلیف نہ پہنچائی جائے، لیکن رفتہ رفتہ نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی معاملات میں بھی وہ کچھ اہتمام کیا جانے لگا کہ جو عوام کے لیے باعث تکلیف بنا۔ لاؤڈ اسپیکر کا غیر ضروری استعمال اس وقت مذہبی یا سیاسی نہیں معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ تقریبات مذہبی، سیاسی حوالے سے ہوں یا شادی بیاہ کے حوالے سے ہوں ہم میں سے کتنے لوگ ہیں کہ وہ یہ احساس کریں کہ کہیں ان کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر یا ڈیک کے استعمال سے پڑوس میں رہنے والے کسی مریض، طالب علم یا عبادت گزار کے لیے بھی باعث زحمت بن سکتا ہے۔

یہ مشاہدہ تقریباً ہم سب ہی کا ہو گا کہ جب کوئی صاحب اپنے گھر میں مذہبی یا شادی وغیرہ کی تقریب کریں تو اس قدر زور سے ڈیک بجاتے ہیں کہ پڑوس میں رہنے والوں کو آپس میں گفتگو کرنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ کیا ہم کسی ایسے شخص کو جا کر منع نہیں کر سکتے کہ بھئی! آواز کم کر لیں؟ جی نہیں! اس لیے کہ آپ پہ کفر کا فتویٰ بھی لگ سکتا ہے، مخالف فرقے کے ہونے کا الزام بھی لگ سکتا ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ پڑوسی کی خوشی سے جلتے ہیں، خوشی برداشت نہیں کر سکتے۔

بہر کیف ان علمائے کرام نے مذکورہ 9 نکاتی ضابطہ اخلاق پر اتحاد کا مظاہرہ کر کے نہ صرف دین اسلام کی بلکہ پاکستانی عوام کی بھی بڑی خدمت کی ہے کیونکہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال عموماً مذہبی اختلافات ابھارنے کا باعث ہی نہیں بنتا بلکہ غیر اخلاقی معاملات میں بھی معاشرے کے لیے تکلیف دہ صورت حال پیدا کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ویسے ہی ہر طرح کی آلودگی کی بھرمار ہے اس پہ مزید شور کی آلودگی ذہنی کوفت کا باعث بنتی ہے۔ لوئر مڈل اور مڈل کلاس علاقوں میں بھی لاؤڈ اسپیکرز اور ڈیک پر شادی بیاہ کے گانے اونچی آواز میں لگا کر کئی دنوں بعض اوقات ہفتے بھر تک آس پاس کے مکینوں کے لیے انتہائی ذہنی کوفت پیدا کی جاتی ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ پھل کے چھلکے بھی دروازے کے باہر نہ پھینکو کہ کہیں پڑوسی کو اس کی کمی کا احساس ہو۔

اس سلسلے میں ایک اور ملتا جلتا مسئلہ راستوں کو بند کرنے کا ہے، بڑی جماعتوں کے جلسے جلوسوں کی بات تو دور کی ہے، ایک عام فرد بھی اپنے گھر کی کسی چھوٹی سی تقریب کے لیے راستوں کو اس طرح بند کر دیتا ہے کہ دیگر مکینوں کو گھر سے باہر آنے جانے میں سخت تکلیف اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ قابل اعتراض اس لیے ہے کہ راستہ بند کیے بغیر بھی تقریب کے لیے جگہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے مگر بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صاحب تقریب کا مقصد تقریب کے لیے جگہ کا حصول نہیں بلکہ راستے بند کر کے یہ ظاہر کرنا ہے کہ صاحب تقریب کے پاس کوئی اہم تقریب ہے۔

کراچی جیسے بڑے شہر میں جلسوں کے لیے ایسی شاہراہوں کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے جہاں سے نہ صرف پورا شہر متاثر ہوتا ہے بلکہ اہم اسپتالوں، ریلوے اسٹیشن اور ایئرپورٹ جیسی اہم جگہوں پر جانے کے لیے بھی ٹریفک کا راستہ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس مسئلے پر بھی راقم نے کئی مرتبہ توجہ دلائی ہے اور مختلف جماعتوں سے گزارش بھی کی ہے کہ اگر وہ مین شاہراہوں کو بند کیے بغیر اپنے جلسے جلوس یا احتجاج کر لیں تو اس سے کم از کم مسافروں اور خاص کر ایمرجنسی میں اسپتال پہنچنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔

ہو سکتا ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ اس بات سے اختلاف کریں مگر اس تکلیف کا احساس یقینا اس شخص کو ہو گا جو اس سے متاثر ہو رہا ہو۔ تھوڑی دیر کو تصور کیجیے کہ اگر آپ اپنی محبوب ترین شخصیت مثلاً اپنی ماں کو ایمرجنسی میں اسپتال لے جانا چاہتے ہوں آپ فون کر کے ایمبولینس بھی منگوا لیں، اس میں والدہ کو لٹا دیں اور اسپتال پہنچنے کے لیے چلتی ہوئی ایمبولینس میں ایک ایک سیکنڈ کو گن رہے ہوں کہ کب اسپتال پہنچیں اور والدہ کو فوری امداد مل سکے۔ لیکن راستے میں کسی جلسے، جلوس یا احتجاج کے باعث نہ صرف شاہراہ بند ملے بلکہ جب آپ چھوٹی اور تنگ گلیوں سے ایمبولینس میں گزرنے کی کوشش کریں تو وہاں بھی آپ کو شدید ٹریفک جام ملے۔ تو آپ کی حالت کیا ہوگی؟ آپ راستے بند کرنے کے اس عمل کو درست سمجھیں گے باوجود اس کے کہ جس گروہ کی جانب سے سڑکیں بند کی گئی ہوں وہ آپ کا پسندیدہ ترین نظریاتی گروہ یا جماعت ہو؟

ذرا غور کیجیے کیا یہ نادانی نہیں کہ جب ایک چھوٹی سی تقریب کے لیے ضرورت کے بغیر بھی اہم راستے بند کر دیے جاتے ہیں اور اونچی آواز میں گانے، ترانے وغیرہ بجاتے ہیں حالانکہ یہ تقریب ہم راستہ بند کیے بغیر بھی منعقد کر سکتے ہیں اور شور کی آلودگی رات بھر کرنے کے بغیر بھی اپنی تقریب مکمل کر سکتے ہیں۔

یہ کس قدر نادانی کی بات ہے کہ ہم خود ہی رستے بند کرتے ہیں اور ٹریفک جام کرنے میں مکمل حصہ لیتے ہیں اور پھر خود ہی ٹریفک جام میں پھنسنے پر اس ملک کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام نے اس 9 نکاتی ضابطہ اخلاق کو مرتب کر کے انتہا درجے کی نہ صرف دانشمندی بلکہ جرأت کا بھی مظاہرہ کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف ''بلا ضرورت'' شاہراہوں، محلوں اور گلیوں کو بھی بند کرنے کے خلاف متحد ہو جائیں اور سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ اس ضابطہ اخلاق میں شامل کر لیں تا کہ مسافر، مریض اور عام شہری بھی روز روز کے بلاوجہ ٹریفک جام اور تکلیف سے بچ سکیں۔ بات ہے سمجھ کی، اگر ہم سمجھ سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔