حقائق سے پردہ پوشی
حکومتی اداروں کا کراچی کے حساس معاملے پر چشم پوشی یا پردہ پوشی سے کام لینا کہاں تک عوامی مفاد میں ہے
آج کل شہر کراچی میں دوبارہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ روزانہ 10 سے 15 افراد قتل ہو رہے ہیں۔ دہشت گردوں کی امن و امان کو بگاڑنے میں گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے لیکن حکومت موجودہ دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ حکومت کی کوئی مضبوط حکمت عملی سامنے نہیں آ رہی ہے۔ محض بیان بازیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ یوں کر دیں گے یوں قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ مشکل یہ ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موجودہ سنگین صورت حال کو سنجیدگی سے نہیں محسوس کر رہے ہیں۔ نتیجتاً دہشت گردوں کی گرفت مضبوط تر ہو گئی ہے اور وہ مسلسل دہشت گردی کی وارداتیں کر کے آزادانہ طور پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ قانون کی کیسی عملداری ہے کہ نہ ہی ملزم گرفتار ہو رہے ہیں اور نہ ہی انھیں عدالتوں میں پیش کر کے سزائیں دلوائی جا رہی ہیں۔ روزانہ حکومتی حلقوں سے یہی دعوے سننے میں آ رہے ہیں کہ اتنے دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے، اتنے دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے، لیکن یہ نہیں پتہ چل رہا ہے کہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے خلاف کیا کارروائی کی جا رہی ہے یا کی جائے گی؟
معاملہ نہایت سنجیدہ ہے لیکن حکومتی اداروں کی طرف سے کوئی سنجیدہ اقدامات کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ معلوم نہیں حکومتی اداروں کا اس حساس معاملے پر چشم پوشی یا پردہ پوشی سے کام لینا کہاں تک عوامی مفاد میں ہے۔ کیا حکومتی اداروں کی جانب سے اس رویے کو یہ نہ سمجھا جائے گا کہ حکومت کے لیے روزانہ دس پندرہ جانوں کا ضایع ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیا انسان کا خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے۔ کیا حکومتی اداروں کو اس بات کا احساس بھی نہیں کہ بے گناہ مارے جانے والوں کے خاندانوں پر کیا بیت رہی ہو گی۔ جس خاندان کا ایک کفیل مارا جائے تو اس خاندان کا کوئی تو پرسان حال ہونا چاہیے لیکن یہاں تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔
مرنے والے کے لواحقین کو لاوارث سمجھا جا رہا ہے۔ ان کو کسی قسم کا ریلیف دینا تو درکنار ان کی اشک پوشی کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔ کیا یہی انسانی حقوق کی پاسداری ہے یا پامالی؟ عام آدمی کو حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہی اس قسم کے حالات کی سنگینی کا احساس کرتا ہے اور احساس رکھتا ہے۔ مگر وقت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ اس کی شنوائی تو کہیں نہیں ہوتی بلکہ الٹا اس کو واقعے میں ملوث کرنے کی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ عدالتیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ بے گناہوں پر ظلم اور ہلاک کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ انھیں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کرے سزائیں دلوائی جائیں تا کہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ شاید ایسے اقدامات کرنے سے دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی واقع ہو۔ مگر سردست تو ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ بس اندھیر نگری چوپٹ راج قائم ہے۔ پسند ناپسند کا رجحان عام ہو گیا ہے۔ پسندیدہ شخصیات کے ساتھ ایک رویہ تو ناپسندیدہ کے ساتھ دوسرا رویہ۔
کیا اس طرح کی دوغلی پالیسی سے قانون کی دھجیاں نہیں اڑیں گی یا قانون کی پاسداری ہو گی۔ مگر کوئی نہیں اس پہلو پر غور کرنے والا۔ اس ناانصافی کا تدارک کرنے والا۔ عدالتیں کہاں تک اس لاقانونیت کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں گی۔ بقول ہمارے چیف جسٹس کے اگر یہ سب کام عدالتوں نے کرنا ہے تو حکومتوں کا کیا کام؟ ناکام حکومتوں کو تو از خود مستعفی ہو جانا چاہیے۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ بلکہ دوسرے افراد پر الزامات لگا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم مستعفی کیوں ہوں۔ اگر کوئی ذمے دار ہے تو اس کو اس کی سزا بھی تو بھگتنا چاہیے یا پھر ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ کسی دوسرے اہل تشخص کو ذمے داری سونپ دینی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے لیکن غیر ذمے دار افراد تو یہی کہیں گے کہ اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔ تو پھر کسی آنکھ والے کی بات کیوں نہیں مانتے یہ کیسی عملداری ہے کہ چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا۔ ایسا رویہ تو پھر لاقانونیت، دہشت گردی، ڈکیتی، چوری، راہزنی، اغواکاری کو تقویت پہنچائے گا۔ اور آپ سب تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے۔
خدارا! اٹھیے خواب غفلت سے حالات کا سختی و جوانمردی سے مقابلہ کیجیے۔ عوام کو ریلیف دیجیے۔ انھیں کچھ ڈلیور کیجیے کہ آپ کی کارکردگی سے وہ مطمئن نظر آئیں اور سکون کا سانس لیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ کچھ روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے اور کراچی میں حالات بہتر ہیں۔ معلوم نہیں وزیر اعلیٰ نے یہ بیان محض ایجنسیوں کی رپورٹ پر دیا ہے یا خود پورے شہر کا طوفانی دورہ کرنے کے بعد دیا ہے۔ کیا عوام حقیقی واقعات نہیں دیکھ رہے اور الیکٹرانک میڈیا پر مناظر نہیں دیکھ رہے ہیں اس طرح وزیر اعلیٰ کے بیان کو محض قیاس آرائی کہا جا سکتا ہے یا پھر حقائق سے پردہ پوشی۔ کیا وزیر اعلیٰ کی نظر میں روزانہ 10 سے 15 افراد کا قتل معمولی واقعات ہیں؟ ہاں وہ سچ ہی تو کہہ رہے ہیں عوام بھی تو اب روزانہ ہونے والی قتل کی وارداتوں کو دیکھتے اور سنتے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ معمول کی بات ہے ان کے نزدیک اب ان واقعات کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن میں وزیر اعلیٰ کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہوں گا کہ حالات کا غلط اندازہ نہ لگائیے حقیقی صورتحال یہ ہے کہ لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ جب آتش فشاں پھٹے گا تو پھر آپ کے سارے اندازے محض مفروضوں پر مبنی ثابت ہوں گے اور حقائق سے پردہ پوشی بھی۔
وزیر اعلیٰ اور ان کے معاونین کا یہ فرض اولین ہے کہ عوام کے مسائل کو سنیں۔ ان کا حل ڈھونڈ کر عوام کی مشکلات دور کریں تا کہ عوام کو ریلیف ملے۔ ان کو عملی طور پر کچھ ہونے کا یقین ہو یعنی کچھ ہوتا دکھائی دے۔ محض جھوٹی تسلیاں، جھوٹے دعوے اور جھوٹی یقین دہانیوں سے عوام کو بہلایا نہیں جا سکتا۔ عوام کی فلاح و بہبود مقصود ہے اور ملک کی خوشحالی اور ترقی کی آرزو ہے تو ''عمل داری'' کو ترجیح دینا ہو گی۔ جو کچھ عمل ہو رہا ہو اس کے مضبوط اور ٹھوس نتائج آنے چاہئیں۔ ورنہ دور کے ڈھول سہانے کے مترادف ہو گا اور ''حقائق سے پردہ پوشی'' تباہی کے کنارے لے جائے گی، پھر کہوں گا کہ ''حقائق سے پردہ پوشی'' نہ کریں۔
معاملہ نہایت سنجیدہ ہے لیکن حکومتی اداروں کی طرف سے کوئی سنجیدہ اقدامات کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ معلوم نہیں حکومتی اداروں کا اس حساس معاملے پر چشم پوشی یا پردہ پوشی سے کام لینا کہاں تک عوامی مفاد میں ہے۔ کیا حکومتی اداروں کی جانب سے اس رویے کو یہ نہ سمجھا جائے گا کہ حکومت کے لیے روزانہ دس پندرہ جانوں کا ضایع ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیا انسان کا خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے۔ کیا حکومتی اداروں کو اس بات کا احساس بھی نہیں کہ بے گناہ مارے جانے والوں کے خاندانوں پر کیا بیت رہی ہو گی۔ جس خاندان کا ایک کفیل مارا جائے تو اس خاندان کا کوئی تو پرسان حال ہونا چاہیے لیکن یہاں تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔
مرنے والے کے لواحقین کو لاوارث سمجھا جا رہا ہے۔ ان کو کسی قسم کا ریلیف دینا تو درکنار ان کی اشک پوشی کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔ کیا یہی انسانی حقوق کی پاسداری ہے یا پامالی؟ عام آدمی کو حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہی اس قسم کے حالات کی سنگینی کا احساس کرتا ہے اور احساس رکھتا ہے۔ مگر وقت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ اس کی شنوائی تو کہیں نہیں ہوتی بلکہ الٹا اس کو واقعے میں ملوث کرنے کی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ عدالتیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ بے گناہوں پر ظلم اور ہلاک کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ انھیں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کرے سزائیں دلوائی جائیں تا کہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ شاید ایسے اقدامات کرنے سے دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی واقع ہو۔ مگر سردست تو ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ بس اندھیر نگری چوپٹ راج قائم ہے۔ پسند ناپسند کا رجحان عام ہو گیا ہے۔ پسندیدہ شخصیات کے ساتھ ایک رویہ تو ناپسندیدہ کے ساتھ دوسرا رویہ۔
کیا اس طرح کی دوغلی پالیسی سے قانون کی دھجیاں نہیں اڑیں گی یا قانون کی پاسداری ہو گی۔ مگر کوئی نہیں اس پہلو پر غور کرنے والا۔ اس ناانصافی کا تدارک کرنے والا۔ عدالتیں کہاں تک اس لاقانونیت کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں گی۔ بقول ہمارے چیف جسٹس کے اگر یہ سب کام عدالتوں نے کرنا ہے تو حکومتوں کا کیا کام؟ ناکام حکومتوں کو تو از خود مستعفی ہو جانا چاہیے۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ بلکہ دوسرے افراد پر الزامات لگا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم مستعفی کیوں ہوں۔ اگر کوئی ذمے دار ہے تو اس کو اس کی سزا بھی تو بھگتنا چاہیے یا پھر ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ کسی دوسرے اہل تشخص کو ذمے داری سونپ دینی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے لیکن غیر ذمے دار افراد تو یہی کہیں گے کہ اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔ تو پھر کسی آنکھ والے کی بات کیوں نہیں مانتے یہ کیسی عملداری ہے کہ چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا۔ ایسا رویہ تو پھر لاقانونیت، دہشت گردی، ڈکیتی، چوری، راہزنی، اغواکاری کو تقویت پہنچائے گا۔ اور آپ سب تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے۔
خدارا! اٹھیے خواب غفلت سے حالات کا سختی و جوانمردی سے مقابلہ کیجیے۔ عوام کو ریلیف دیجیے۔ انھیں کچھ ڈلیور کیجیے کہ آپ کی کارکردگی سے وہ مطمئن نظر آئیں اور سکون کا سانس لیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ کچھ روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے اور کراچی میں حالات بہتر ہیں۔ معلوم نہیں وزیر اعلیٰ نے یہ بیان محض ایجنسیوں کی رپورٹ پر دیا ہے یا خود پورے شہر کا طوفانی دورہ کرنے کے بعد دیا ہے۔ کیا عوام حقیقی واقعات نہیں دیکھ رہے اور الیکٹرانک میڈیا پر مناظر نہیں دیکھ رہے ہیں اس طرح وزیر اعلیٰ کے بیان کو محض قیاس آرائی کہا جا سکتا ہے یا پھر حقائق سے پردہ پوشی۔ کیا وزیر اعلیٰ کی نظر میں روزانہ 10 سے 15 افراد کا قتل معمولی واقعات ہیں؟ ہاں وہ سچ ہی تو کہہ رہے ہیں عوام بھی تو اب روزانہ ہونے والی قتل کی وارداتوں کو دیکھتے اور سنتے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ معمول کی بات ہے ان کے نزدیک اب ان واقعات کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن میں وزیر اعلیٰ کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہوں گا کہ حالات کا غلط اندازہ نہ لگائیے حقیقی صورتحال یہ ہے کہ لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ جب آتش فشاں پھٹے گا تو پھر آپ کے سارے اندازے محض مفروضوں پر مبنی ثابت ہوں گے اور حقائق سے پردہ پوشی بھی۔
وزیر اعلیٰ اور ان کے معاونین کا یہ فرض اولین ہے کہ عوام کے مسائل کو سنیں۔ ان کا حل ڈھونڈ کر عوام کی مشکلات دور کریں تا کہ عوام کو ریلیف ملے۔ ان کو عملی طور پر کچھ ہونے کا یقین ہو یعنی کچھ ہوتا دکھائی دے۔ محض جھوٹی تسلیاں، جھوٹے دعوے اور جھوٹی یقین دہانیوں سے عوام کو بہلایا نہیں جا سکتا۔ عوام کی فلاح و بہبود مقصود ہے اور ملک کی خوشحالی اور ترقی کی آرزو ہے تو ''عمل داری'' کو ترجیح دینا ہو گی۔ جو کچھ عمل ہو رہا ہو اس کے مضبوط اور ٹھوس نتائج آنے چاہئیں۔ ورنہ دور کے ڈھول سہانے کے مترادف ہو گا اور ''حقائق سے پردہ پوشی'' تباہی کے کنارے لے جائے گی، پھر کہوں گا کہ ''حقائق سے پردہ پوشی'' نہ کریں۔