نیٹو سپلائی کی بندش امریکی امداد سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں

قیادت کے قحط زدہ ماحول میں ہمارے پاس قائدین کا دستیاب ہو جانا ہی دلفریب خوش نصیبی سے کم نہیں

امریکی وزیر دفاع نے وزیراعظم پاکستان اور ان کی ٹیم کے ساتھ صاف صاف بات کی کہ نیٹو سپلائی بحال نہ کی گئی تو امداد کے ساتھ ساتھ ہمیں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے تمام صورتحال کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ فوٹو: فائل

آج سن 2013 کے بارہویں مہینے کی گیارہ تاریخ ہے۔ 11-12-13 ایسی نایاب تاریخ ہے جو یقینا ایک صدی بعد آئے گی۔

عالمی تاریخ اور تاریخ دان اس بابت کیا کہتے ہیں ہمیں اس سے غرض نہیں۔ وطن عزیز کی تاریخ بھی شاید اس دن کی اہمیت سے جڑے گوہر نایاب کو دوبارہ دیکھنے کے لیے صدیوں نہیں تو برسوں ضرور ترسے گی۔ بقول پروفیسر عرفان صدیقی آمریت کے گونگے بہرے موسموں کو زبان بخشنے والے جی ہاں! چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری ساڑھے آٹھ سال تک پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج رہنے کے بعد آج ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی وطن عزیز میں عدل، انصاف، جدوجہد اور یقین کا ایک دور اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ یہ بھی درست ہے کہ عوام کی عدلیہ کے ساتھ توقعات اور اعلیٰ ترین عدالت میں بیٹھے معزز جج صاحبان کے لیے جو سٹینڈرڈز گزشتہ ساڑھے آٹھ سال کے دوران سیٹ کر دیے گئے ہیں آنے والوں کے لیے ان معیارات سے نیچے آنا اب ممکن نہیں رہا۔

چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری اپنے اعزاز میں منعقد کیے جانے والی استقبالیہ تقریبات میں اظہار خیال کرتے ہوئے بجا فرما رہے ہیں کہ آئین سب سے مقدم ہے اور انہیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ لاقانونیت کے خلاف پرجوش کردار ادا کرتی رہے گی، ہم یہ تو دعا نہیں کریں گے کہ پاکستان کے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کام کے معیارات بلند کرنے کی اُمید پر خدا انہیں کسی طوفان سے آشنا کردے مگر یہ توقع تو کی جا سکتی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کے کام، کام اور بس کام ایسی ریاضت اور اخلاص کے قصے زبانِ زد عام ہونے سے عدلیہ، سیاست، صحافت، مقننہ اور عام آدمی کی زندگی میں بھی اپنی اپنی حیثیت میں اپنے اپنے کام میں ایسا یادگار کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو کہ انہیں بھی وطن عزیز کی تاریخ تاریخی اہمیت دیے بغیر مکمل نہ ہو۔

اعتراض کرنے والوں کی اپنی عادت، اپنی مجبوریاں اور اپنی دنیا ہے مگر انتہائی احترام سے اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہماری مختصر سی ملکی تاریخ میں ایسے کتنے جیتے جاگتے چلتے پھرتے قابل تقلید کردار ہیں جن کے نام کے ساتھ جدوجہد، اصول پرستی اور آمرانہ رویوں کے خلاف ڈٹ جانے کے سابقے اور لاحقے لگائے جا سکتے ہیں۔ ان کی عملی جدوجہد کے آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے واقعات کو ہماری کئی نسلیں آنے والی کئی نسلوں تک سینہ بہ سینہ سچی کہانیوں کی صورت آگے منتقل کرتی رہیں گی۔ قیادت کے قحط زدہ ماحول میں ہمارے پاس قائدین کا دستیاب ہو جانا ہی دلفریب خوش نصیبی سے کم نہیں اور دلفریب اس لیے بھی کہا کہ بعض سیاسی حلقے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد بعض ایسے قصے اور کہانیاں چھیڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس سے وہ ہماری تاریخ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ یوں بھی ہم اس حوالے سے یدطولیٰ رکھتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر عبدالقدیر کو ہم نے کون سا تنازعات سے بچا کے رکھا بلکہ اس عظیم قومی ہیرو کے معاملے میں تو ہم عالمی سازشوں کا باقاعدہ حصہ بھی بن گئے۔


وفاقی دارالحکومت میں وزیراعظم محمد نواز شریف اپنی حکومت کے پہلے عوامی فلاحی منصوبے وزیراعظم یوتھ بزنس لون پروگرام کی کامیاب لانچ کے ساتھ ساتھ اپنی صاحبزادی اور مستقبل کی سیاسی امید مریم نواز شریف کے سیاسی میدان میں قدرے کامیاب قدم رنجہ فرمائی پر خوش تھے کہ یوتھ بزنس لون پروگرام کو اس کے اجراء کے پہلے روز سے ہی پاکستان بھر کے نوجوانوں نے خوب پذیرائی بخشی۔ پہلے روز کے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق محض نیشنل بنک آف پاکستان اور سمیڈا کے دفاتر اور ویب سائٹس سے 27 لاکھ 67 ہزار نوجوانوں نے معلومات اور فارم حاصل کیے یا بزنس پلان ڈاؤن لوڈ کیے۔ جبکہ 11 ہزار سات سو نوجوانوں نے خود فون کرکے اس پروگرام بارے معلومات حاصل کیں۔ وزیراعظم نواز شریف اس کامیابی پر پھولے نہ سما رہے تھے کہ پیر کے روز اسلام آباد کے مختصر دورے پر آنے والے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے نیٹو سپلائی نہ کھولے جانے پر امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی سالانہ اربوں ڈالر کی امداد بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔

یہ قصہ تو ہمارے نئے ابھرتے ہوئے قومی سیاستدان عمران خان نے طورخم بارڈر سے افغانستان کے لیے جاری نیٹو سپلائی بزور بازو روک کے چھیڑا۔ مگر اس کا نزلہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت پر گرتا نظر آ رہا ہے۔ اسلام آباد میں موجود باخبر امریکی انتظامیہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے موقع پر امریکہ کی جانب سے کیے گئے ڈرون حملے کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں عمران خان کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے چند ذمہ داران بھی امریکہ اور امریکی پالیسیوں کے خلاف آگ بگولہ رہے۔ حکومتی سطح پر کھل کر ا مریکی ڈرون حملوں کی مخالفت یا نیٹو سپلائی روکنے کی دھمکی یا عملی اقدام بہ امر مجبوری نہ اٹھایا جا سکتا تھا اور اسی لیے عمران خان کو بعض ذمہ دار حکومتی و غیر حکومتی مشورہ دانوں نے بھرپور مزاحمت اور احتجاج کرنے کے لیے اکسایا اور حوصلہ افزائی کی۔ امریکی وزیر دفاع نے وزیراعظم پاکستان اور ان کی ٹیم کے ساتھ صاف صاف بات کی کہ نیٹو سپلائی بحال نہ کی گئی تو امداد کے ساتھ ساتھ ہمیں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے تمام صورتحال کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔

حکومت پاکستان نے تو سرکاری طور پر ذرائع ابلاغ کو کھل کر اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہ کیا مگر امریکی محکمہ خارجہ اور امریکی محکمہ دفاع نے اپنے ذرائع سے ساری بات کھل کے بیان کر دی اور پھر ہر اہم بات خفیہ رکھنے کے حکومتی کارپردازوں کو اپنی خفت مٹانے کا بھی راستہ نہ ملا۔ البتہ سرتاج عزیز جیسے چند روز پہلے یہ بیان دے کر حکومت کے لیے سبکی کا باعث بنے کہ امریکی حکام نے انہیں طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اب وزیر موصوف یہ بیان داغ بیٹھے ہیں کہ پختونخوا سے نیٹو سپلائی آئندہ ہفتے بحال ہو جائے گی۔ اب یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ یہ یقین دہانی کس امید پر دے رہے ہیں، کیا عمران خان کو وہ ان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے رضا مند کر چکے ہیں یا پھر صوبہ خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت کی رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے۔ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ سرتاج عزیز کے پہلے متنازعہ بیان کی طرح اس تازہ ترین ارشاد کو بھی وہی مقام حاصل ہونے والا ہے۔

قومی اسمبلی نے منگل کے روز اتفاق رائے سے ڈرون حملے رکوانے کے لیے قرارداد منظور کی ہے، یہ بھی امریکی حکام کے لیے ایک پیغام ہے کہ معاملہ صرف تحریک انصاف یا عمران خان کا نہیں بلکہ اس معاملے پر پوری قوم یک زبان ہے۔ ادھر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی قومی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے، وہ بھارت کے سات روزہ دورے پر روانہ ہونے والے ہیں اس سے پہلے عمران خان بھی بھارت کا دورہ کرکے واپس وطن پہنچ چکے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سیاسی قائدین کے دوروں کے بعد آل پارٹیز حریت کانفرنس کی کشمیر شاخ کے رہنما بھی اسلام آباد آئیں گے اور پھر وزیراعظم نواز شریف کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے پاک بھارت کی بات 1999ء کے اسی دور سے دوبارہ شروع کی جائے گی جہاں آج سے چودہ سال پہلے میاں نواز شریف بوجوہ چھوڑ کرگئے تھے۔
Load Next Story