عدلیہ کی تاریخ کا اہم ترین دور تمام ہوا

چیف جسٹس نے سووموٹو بہت لیے۔ ناقدین بڑی شدو مد سے کہتے ہیں کہ مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا؛ جی ہاں! مہذب دنیا میں۔۔۔


Anwaar Fitrat December 11, 2013
چیف جسٹس افتخار چودھری عدلیہ کی تاریخ میں ایک بڑے نام کا درجہ پا چکے ہیں تاہم ۔۔۔ کچھ سخت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں انہیں کم زور قرار دے کر تنقید کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

اقرار کا ایک سفر، جس کا آغاز انکار سے ہوا، عمومی (Normal) انسان خود کو مکمل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اس سے گریزاں بھی رہتا ہے۔

گریزاں اس لیے کہ اس راہ میں کچھ ایسے مقام آتے ہیں کہ سالک خوف زدہ ہو جاتا ہے، اس لیے، کہ تکمیلیت اس کی طبع کی عمومیت سے میل نہیں کھاتی لیکن خواہش یہ کرتا ہے کہ ایسوں میں رہے جو مکمل ہوں، تو تنقید و تنقیص یہیں سے آغاز ہوتی ہے۔ بہتر لوگ اعتدال کے تمنائی اور رجائیت کے جویا ہوتے ہیں، خوبیاں پہلے دیکھتے ہے، پھر ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے اثر کا رقبہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے، پھر خامیاں تلاشتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی مار کہاں تک ہے۔ بعض اوقات ایک ہی خوبی ''ساتوں عیوب شرعی'' پر بھاری پڑتی ہے اور بعض اوقات محض ایک خامی جیون بھر کی تپسیا کو نشٹ کر ڈالتی ہے۔ ایسی خوبیاں اور خامیاں جو فرد کی ذات تک محدود رہتی ہیں، یہاں ان کا ذکر نہیں، بات اس ''خوب وزِشت'' کی ہے، جو معاشرے کی کلیت اور اس کے نظام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس تناظر میں آج سابق ہونے جا رہے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے کام کو دیکھا جائے، جس کی ضحامت اپنے کسی بھی پیش رو سے لاریب زیادہ ہے، تو معلوم پڑتا ہے کہ ان کے مداحین کی تعداد ان کے ناقدین سے کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ان سے قبل دو تین ایسے ججوں کا نام آتا ہے، جنہوں نے عوامی سطح پر سندِ احترام حاصل کی، اشارہ جسٹس رستم کیانی، جسٹس کارنیلیئس اور جسٹس صمدانی کی طرف ہے، یہ لوگ ذاتی خوبیوں کے مالک تھے لیکن جسٹس افتخار محمد چودھری اس حوالے سے منفرد ہیں کہ انہوں نے نہ صرف احترام پایا بل کہ انہوں نے ایک عوامی جج کا درجہ بھی حاصل کیا اور عدلیہ کی تاریخ کے مقبول ترین جج بنے۔ وہ عدالت میں دُرشت زبانی بھی کرتے تھے، جس کی زد پر آنے والے یقیناً انہیں ناپسند کرتے ہوں گے لیکن ان کے یہ ہی سخت ریمارکس عوام کا تزکیۂ نفس بھی کرتے رہے۔ ان، اکیلے نے جب عدلیہ کو آزاد کرانے کا تہیہ کیا تو اس عزم نے ان کے اندر ایسا بے پناہ گلیمر پیدا کر دیا کہ زندگی کا ہر شعبہ، بے شبہ، متاثر ہو کر ان کی طرف کھنچا اور کشاں کشاں کاررواں بنتا گیا اور پھر ایک دن آمریت کو زمیں چاٹنا پڑ گئی اور آئین بالادست ہوگیا۔ وہ ایسے ایسے تنازعات (Issues) کے خارزاروں سے درانہ گزرے جن کے تصور کی بھی دوسرے ججوں کو تاب نہ تھی۔ وہ مقدس گائے کے عقیدے کو باطل قرار دے کر تاریکیوں کی بھول بھلیاں میں ''لاپتہ افراد'' کی جست جو کرتے رہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ پر حملے کی نظیر موجود تھی اس کے باوجود این آر او کیس اٹھایا اور عدالت عظمیٰ کی توہین کرنے پر ایک مضبوط وزیراعظم کو بارِ دگر مجاور بنا دیا۔

چیف جسٹس نے سووموٹو بہت لیے۔ ناقدین بڑی شدو مد سے کہتے ہیں کہ مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا؛ جی ہاں! مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ ارسلان کیس کو سووموٹو لیا اور بیٹے کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا، پھر کیس نیب کے حوالے کر دیا گیا کہ یہ انفرادی لین دین کا معاملہ ہے جس پر مخالفین نے زبان طعن خوب دراز رکھی تاہم کیا یہ غلط ہے کہ یہ انفرادی لین دین کا معاملہ تھا؟ لٹیروں کو این آر او کی سہولت فراہم کرنے کی روایت کیا جاری رہنی چاہیے؟ اندھا سٹیل ملز کی ریوڑیاں اپنوں میں بانٹنے پر تلا ہوا تھا اور وہ بھی بے مول، کیا اسے کوئی نہ روکتا؟ کہا کہ اس کے فروخت نہ ہونے سے پاکستان کو بے پناہ اقتصادی نقصان ہوا؛ تو کیا اس کے فروخت ہونے سے پاکستان کو بے پناہ اقتصادی فائدہ ہوتا؟ آٹے، دال،ٹماٹر کی منہگائی کا جواز سٹیل ملز کے فروخت نہ ہو پانے میں تلاش کرنا ''سیاسی جوکری'' کا نمونہ نہیں؟ اپنا اپنا دامن اور اپنا اپنا بندِ قبا دیکھا چاہیے!

افتخار محمد چودھری 12 دسمبر 1948 کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی شہر فیصل آباد کاایک گائوں تھا تاہم ''تقسیم'' کے دوران ان کے والد چودھری جان محمد 1947 ہی میں اپنے خاندان کو لے کر فیصل آباد منتقل ہو گئے تھے؛ چودھری جان محمد صاحب ایک پولیس کانسٹیبل تھے۔ افتخار محمد چودھری 2000 میں عدالت عظمیٰ کا جج بننے سے قبل سارا وقت بلوچستان ہی میں رہے، ان کے تین بھائی ہیں، جو بیرون ملک مقیم ہیں، یہ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں، اہلیہ محترمہ کا نام فائقہ ہے، دو بیٹے ارسلان اور احمد بالاچ ہیں، تین صاحب زادیاں عائشہ، اِفراء اور پلوشہ ہیں۔

چودھری صاحب نے جامعہ سندھ (جام شورو) سے آرٹس میں بیچلر اور ایل ایل بی کیا، 1974 میں بار میں شامل ہوئے، 1976 میں عدالت عالیہ کے ایڈووکیٹ ہوئے اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ 1989 میں انہیں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب اکبر بگٹی نے اٹارنی جنرل بلوچستان مقرر کیا، 6 نومبر 1990 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج بنے، اس عہدے پر 21 اپریل 1999 تک فائز رہے۔ 22 اپریل کو اسی عدالت کے چیف جسٹس تعینات ہوئے، اس کے ساتھ ہی بینکنگ جج، جج سپیشل کورٹ فار سپیڈی ٹرائلز، جج کسٹمز اپیلیٹ کورٹس اور کمپنی جج کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کوئٹہ کے صدر بھی رہے۔ دو بار کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ 1992 اور 1998 میں چیئرمین بلوچستان لوکل کونسل الیکشن اتھارٹی کے طور پر فائز رہے، ریویو بورڈ بلوچستان کے مسند نشیں بھی رہے اور دو بار پاکستان ہلال احمر سوسائٹی بلوچستان کے چیئرمین۔

4 فروری 2000 کو چودھری صاحب عدالتِ عظمیٰ کے اب تک کے کم عمر ترین جسٹس نام زد ہوئے، اسی لیے انہیں پاک عدلیہ کی تاریخ میں بہ طور چیف جسٹس خدمت کا سب سے طویل ترین عرصہ میسر آیا۔ 30 جون 2005 کو عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس بنے، اس کے ساتھ ہی وہ چیئرمین پاکستان بار کونسل کی انرولمنٹ کمیٹی اور سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔

پی سی او کے تحت حلف

پی سی او (پروکلیمیشن کانسٹی ٹیویشنل آرڈر) کے نفاذ کے بعد 26 جنوری 2000 کو ججوں کو پی سی او کے تحت از سر نو حلف لینے کا حکم صادر ہوا۔ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے اس آرڈر کے تحت حلف دینے سے انکار کر دیا، جن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی بھی شامل تھے، سو ان سب کو فارغ کر دیا گیا۔ اب جب میاں نوازشریف حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف ظفر علی شاہ کا زیرِالتوا کیس سرِنو کھلا تو سماعت کے لیے بنچ پورا نہیں پڑتا تھا لہٰذا بلوچستان اور سندھ کی عدالت ہائے عالیہ سے افتخار محمد چودھری اور رانا بھگوان داس کو سپریم کورٹ میں تعینات کرکے بارہ ارکان پورے کیے گئے اور یوں چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں کیس سماعت کیا گیا۔ اس بنچ نے آمر کے اقدام کو درست قرار دیا اور اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا، چودھری صاحب اس فیصلے میں شامل تھے۔ اُدھر پرویز مشرف کی منتخب پارلیمان نے ایل ایف او (لیگل فرم ورک آرڈر 2000) کے تحت پی سی او سپریم کورٹ کا سارا حلال حرام برابر کردیا البتہ بعد میں چودھری صاحب نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس کے فیصلے میں اس گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی بھرپورکوشش کی۔

معطلی، بہ حالی، وکلا تحریک

19 مارچ 2007 کا دن پاکستان کی عدلی، سیاسی و سماجی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیوںکہ اس دن پاکستان پر مسلط ایک بہت طاقت ور آمر نے اچانک اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔ یہ خود کش وار ایسا کاری تھا کہ اس کے بعد وہ پھر سنبھل نہ پایا اور بالآخر اپنے ہی ملبے تلے دب گیا۔ زچ ہوئے پرویز مشرف نے افتخار محمد چودھری کو عساکر خانے (Army House) میں طلب کر لیا۔ یہاں جو منظر ترتیب دیا گیا تھا، وہ ایک اچھے بھلے آدمی کو ''نم ۔ دار'' کر دینے کے لیے کافی تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت فوج کے 5 جرنیل وردی میں ملبوس تھے، علاوہ ان کے انٹیلی جنس سروسز کے سربراہان بھی پورے جاہ و جلال کے ساتھ براجے ہوئے۔ خشمگیں چشم آمر کو پورا یقین تھا کہ چودھری صاحب دہل جائیں گے اور اس کے حکم پر کانپتے ہاتھوں سے استعفیٰ تحریر کردیںگے لیکن حاضرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب چودھری صاحب نے صاف انکار کردیا۔ اب اسے اس کے سوا کوئی اور راستہ دکھائی نہ دیا کہ چودھری صاحب کے خلاف Misconduct (بداخلاقی) کا کیس بنائے، سو اس نے ایسا ہی کیا اور کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا، یوں چودھری صاحب نے پاکستان کی 60 سالہ عدلی تاریخ میں سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس ہونے کا اعزاز حاصل کیا جسے معطل کیا گیا (دوسری مرتبہ بھی معطل ہوئے)۔

چودھری صاحب محسوس کر چکے تھے کہ سپریم جوڈیشل کونسل انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بہ جائے آمر سے املا لے گی، سو یہ اعزاز بھی ان ہی کو حاصل ہوا کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آمر اور اس کے ریفرنس کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کرنے کی جرأت کی۔ ان پر آمر اور اس کے ٹوڈیوں کا الزام تھا کہ انہوں نے عدلیاتی اصولوں کو پامال کیا، بدعنوانی کی، خود پروری کی، سینئر وکیلوں کے ساتھ ناشائستگی سے پیش آئے اور ایگزیکٹو برانچ میں مداخلت کا ارتکاب کیا جب کہ دراصل تھا یوں! کہ افتخار محمد چودھری نے اپنے پیش روئوں کے برعکس ایک آمر کو قانونی ڈھال فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس طرح آمر ان سے، ایک اور پانچ سالہ دور صدارت حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کی جھونک میں منہ کے بل گر کر کاٹنے والے دانت تڑوا بیٹھا۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے لیے 13 رکنی بنچ ترتیب دیا، جس کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے تھے۔ چودھری اعتزاز احسن، حامد خان، منیر ملک، علی احمد کرد اور طارق محمود نے بڑی جرأت و جاں فشانی کے ساتھ عدالت کے اندر اور باہر چودھری صاحب کی وکالت کا حق ادا کیا۔

عوام برسا برس سے آمر کے خلاف اشتعال سے بھرے بیٹھے تھے، انہیں پھٹ پڑنے کا کوئی بہانہ چاہیے تھا، چودھری صاحب کی معطلی نے انہیں ایک راہ فراہم کر دی اور بھل بھل کرتا لاوا سڑکوں، گلیوں، بازاروں، مناروں اور چوباروں سے پھوٹ پڑا، ہر طرف افتخار محمد چودھری کے نام کی دھماچوکڑ دھمال ڈلی۔ 4 مئی 2007 کو جب معطل چیف جسٹس اسلام آباد سے لاہور بار ایسوسی ایشن روانہ ہوئے تو 250 کلومیٹر کے ہائی وے پر کوئی مقام ایسا نہ تھا، جہاں ان کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگوں کے ٹھٹھ نہ لگے ہوں، چار گھنٹے کی یہ مسافت 24 گھنٹوں میں طے ہو پائی۔ اس موقع پر چودھری اعتزاز احسن اور ان کے دیگر ساتھی بھی نتائج کی پروا کے بغیر ان کے ساتھ جگہ جگہ آنے والے سنہری دنوں کی نظمیں گاتے رہے۔ 20 جولائی 2007 کو سپریم کورٹ نے جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں افتخار محمد چودھری کی چیف جسٹس کی حیثیت بہ حال کر دی۔

2007 کی ایمرجنسی

سال 2007 کا نومبر، تین تاریخ اور دن ہفتے کا تھا جب وردی والے آمر نے آئین تج کر ایک کونے میں پھینکا، پارلیمان کو معطل کیا، ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی اور بزدلانہ انتقام کی یہ صورت نکالی کہ ان سارے ججوں کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا، جنہوں نے افتخار محمد چودھری کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ دل چسپ امر یہ کہ آمر نے نظر بندیوں کا جواز، آئین کی اسی کتاب سے برآمد کیا جسے اس نے خود ردی کی ٹوکری میں پھینکا تھا۔ الزام اس سے بھی دل چسپ تھا، یہ کہ اِن ججوں نے دستور کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس موسمِ دار و گیر میں چودھری صاحب کے بچے بھی زد پر لے لیے گئے۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بالاچ بھی، جو فزیوتھراپسٹ کے زیرعلاج تھا، انتقام کا نشانہ بنا، ان کی بیٹی کو اپنے اے لیول کے پرچے برٹش کونسل پاکستان کی زیرنگرانی نظربندی ہی کی حالت میں دینا پڑے۔

بارِدگر بہ حالی

فروری 2008 کے انتخابات ہو چکے تھے، پیپلز پارٹی کے جناب یوسف رضا گیلانی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے پہلے ہی دن ججوں کی نظربندی ختم کرنے کا اعلان تو کر دیا لیکن ججوں کی بہ حالی کے معاملے میں گو مہ گو کا شکار ہو گئے۔ وکلا نے فضا کو بد باس ہوتا پایا تو تحریک شروع کردی اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا، اس پر حکومت کو ''پِسو پڑگئے'' کہ اس سیلابِ بلا کو کسی طور روکا چاہیے، جب کچھ نہ بن سکا تو تماشا بنا دیا، برسابرس کا آزمودہ نسخہ، دفعہ 144 ۔۔۔ نافذ کردی، اسلام آباد کی طرف جانے والی تمام سڑکیں بند کر دی گئیں، ساتھ ہی ہمہ قسم ٹرانسپورٹ بھی روک دی گئی۔ شدِہ شدِہ تحریک میں سیاسی پارٹیوں کے کارکن، عام شہری اور سول سوسائٹی بھی شریک ہو لی۔ اب جو گرفتاریوں کی رو چلی تو بے شمار دھر لیے گئے لیکن تحریک کیا تھی ایک طوفان تھا، خس و خاشاک کے یہ بے مایہ بند اسے کیا روک پاتے لیکن اس سے پہلے کہ مقید ہوا دھماکے کے ساتھ پھوٹ کر سب تہس نحس کر ڈالتی، وزیراعظم نے ازغیب کی ہدایت پر لبیک کہتے ہوئے افتخار محمد چودھری کی بہ طور چیف جسٹس پاکستان بہ حالی کا اعلان کردیا۔



اعزازات

٭...امریکا سے شائع ہونے والے مجلے ''دی نیشنل لا جرنل'' نے انہیں اپنے 2007 کی اشاعت میں Lawyer of the year قرار دیا۔

٭...نووا سائوتھ ایسٹرن یونی ورسٹی سے 10 مئی 2008 کو ڈاکٹر آف لا کی ڈگری پیش کی گئی اور یہ خراج تحسین بھی دیا۔

٭...''افتخار محمد چودھری! آپ نے دنیا بھر کے وکلاء اور عام لوگوں کو اپنی جدوجہد سے متاثر کیا (جس کا اعتراف کرتے ہوئے) یونی ورسٹی کے ٹرسٹیز آپ کو ڈاکٹر آف لا کی ڈگری، مع تمام حقوق و مراعات پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔

٭...نیو یارک سٹی بار ایسوسی ایشن نے 17 نومبر 2008 کو انہیں پاکستان میں ''تحریکِ آزادی عدلیہ و وکلاء کی علامت'' تسلیم کرتے ہوئے اعزازی رکنیت پیش کی۔

٭...19 نومبر 2008 میں ہارورڈ لا اسکول کے تمغۂ آزادی پیش کیا۔

٭... کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے 3 مارچ 2012 کو انہیں فرسٹ لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا۔

٭... پنجاب (پاکستان) میں مہلک ڈور پر پابندی عائد کرنے پر PETA انڈیا نے ''ہیروٹو اینیمل ایوارڈ'' پیش کیا۔

٭... یو کے کی سپریم کورٹ کے صدر لارڈ فلپ نے 28 مئی 2012 کو انٹرنیشنل جیورسٹ کونسل کی طرف سے انٹرنیشنل جیورسٹس ایوارڈ پیش کیا۔

٭... 28 ستمبر 2012 کو سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے لائف ٹائم ایچیومنٹ ا یوارڈ پیش کیا۔

سخت مقام

# چودھری صاحب کے وکلا کو ان کی وکالت سے روکنے کے لیے ہراساں کیاجاتارہا۔ راول پنڈی بار ایسوسی ایشن کے رکن غلام مصطفٰی کندوال نے الزام عاید کیا کہ چیف جسٹس کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے اسے غوا کرکے مارا پیٹا گیا۔

# کراچی میں چیف جسٹس کے وکیل منیر ملک کے گھر پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ 14 مئی 2007 کو سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار سید حماد رضا کو ان کے گھر کے اندر قتل کردیاگیا، مقتول چیف جسٹس کے خلاف گواہ بننے پر راضی نہیں ہورہے تھے تاہم اس وقت کے وزیر داخلہ شیر پاؤ نے اسے ڈکیتی کی معمولی واردات قرار دے دیا تھا۔

# کوئٹہ میں مسلح افراد نے چیف جسٹسِ افتخار چودھری کی ہم شیرہ کے گھر میں گھس کر اہل خانہ سے بدتمیزی کی۔

# 17 جولائی 2007 کو اسلام آباد میں وکلا سے ان کے خطاب کے مقام پر دھماکا کرکے 17 افراد کو ہلاک اور متعدد کو معذور کردیا گیا۔

# پرویز مشرف کے اتحادیوںنے جوابی جلوس نکالے اور اخباروں میں چیف جسٹس کے خلاف کروڑوں روپے کے اشتہارات شائع کیے گئے۔ 12 مئی 2007 کو چیف جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد پر بلوے بپا کیے گئے تاکہ وہ ہوائی اڈے سے نکل ہی نہ پائیں اور ایسا ہی ہوا۔ اس کام یابی پر آمر ہوا کو اپنے گھونسے کی زد پر لے کے پاور کا مظاہرہ کرتا پھرا۔

# دسمبر 2009 میں پولیس کے مطابق پولیس کے دو اہل کاروں نے افتخار چودھری کے کارروان کو حادثہ سے دوچار کرنے کی کوشش کی جو اقدام قتل کی کوشش قرار دی گئی ہے۔

کچھ تو لوگ کہیں گے!

چیف جسٹس افتخار چودھری عدلیہ کی تاریخ میں ایک بڑے نام کا درجہ پا چکے ہیں تاہم ۔۔۔ کچھ سخت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں انہیں کم زور قرار دے کر تنقید کا ہدف بنایا جا رہا ہے:۔ # پاکستان کے بزرگ سیاست دان اصغر خان نے پاکستان کی انتخابی سیاست میں فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کردار کے خلاف نوے کی دہائی میں سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا تھا مگر بات ابتدائی سماعت سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ان کا شکوہ ہے کہ وہ اپنی درخواست کی شنوائی کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی چار خطوط لکھ چکے ہیں لیکن کئی برس تک جواب نہیں آیا۔ بہ ہر حال 2012 میں اس پر فیصلہ آ ہی گیا۔

# افتخار محمد چودھری کے صاحب زادے ارسلان افتخار چودھری پر ملک کے ایک تعمیراتی ٹائکون سے بھاری رقم وصول کرنے کا الزام ہے، الزام کی نوعیت یہ ہے کہ ارسلان نے اس ٹائکون کو بعض مقدمات میں مدد دینے کا ''وعدہ'' کیا تھا، یہ کیس مطلوبہ رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہا۔

# چودھری صاحب کی صاحب زادی کی نسبت ایک ایسے تعمیراتی گروپ کے مالک کے بیٹے سے طے پائی جس پر مالی بدعنوانی کے مقدمات ہیں، اس کیس میں چودھری صاحب منصف تھے۔

# جنرل الیکشن 2013 میں دھاندلی کا کیس سامنے آیا مگر چیف جسٹس نے ان الزامات کی تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا۔

# صحافیوں کو ہمیشہ یہ شکوہ رہے گا کہ ان کے ساتویں ویج ایوارڈ کے سیدھے سادہ کیس کا فیصلہ بارہ برسوں میں ہوا، جس کی بہ دولت ان کا آٹھواں، نواں، دو ایوارڈ ضائع ہوگئے اور متاثرین آج بھی عدالتوں میں خوار کیے جارہے ہیں۔ پاؤلو کوئل ہو کے ایک ناول Veronika Decides to Die کاایک نسوانی کردار چالیس برس کی وکالت کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ''قوانین مسائل کے حل کے لیے نہیں، طول طویل، مبہم مباحث کے لیے بنائے جاتے ہیں''۔

# ان پر یہ تنقید بھی روا کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک سے زیادہ بار خواہ مہ خواہ سوؤموٹو نوٹس لیے تاہم اس معاملے میں ان کے مداحین کی تعداد بہ مقابلۂ ناقدین بہت زیادہ ہے۔

مذکورہ الزامات کی حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے کچھ کہنا فی الحال قبل از وقت ہوگا البتہ ایک تنقید ان پر بہ ہرحال جائز رہے گی اور وہ یہ کہ وہ لوئر کورٹس کا کچھ بھی''بگاڑ'' نہ پائے۔ ان جیسے چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے قانون کی خرید و فروخت کا کاروبار جوں کا توں رہا، اور اب ۔۔۔۔ دگر دانائے راز آید کہ ناید۔

معروف کیس

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سرکاری سطح کی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں پر سوؤ موٹو ایکشن لینے میں بہت نام کمایا، اس حوالے سے بھی انہوں نے ملک کی عدلیاتی تاریخ میں اپنے پیش رؤں پر برتری حاصل کی جو، لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی خاصی دیر تک قائم رہے گی، اس سلسلے کا معروف ترین مقدمہ پاکستان اسٹیل ملز تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے متعدد فیصلے ہیں، جن کی بنا پر حکومت، نوکرشاہی اور بعض سماجی حلقے ان سے ہمیشہ شاکی رہے۔

حسبہ بل کیس

14 جولائی 2005 کو چھے دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل نے ''سرحد اسمبلی'' سے ایک بل منظور کرایا، جو حسبہ کہلاتا ہے۔ ایم ایم اے اس بِِل کے بَل پر، لوگوں کو اسلامی اقدار اپنانے پر مجبور کرنے کا اختیار حاصل کرنا چاہتی تھی۔ آمر پرویز مشرف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ کیس جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں نورکنی بنچ نے سماعت کیا اور 20 فروری 2007 کو اس بل کی بعض شقوں کو خلافِ آئین قرار دے کر اس کے کَس بَل نکال دیے۔

پاکستان اسٹیل ملز کیس

31 مارچ 2006 کو پاکستان سٹیل ملز کی نج کاری کا غلغلہ اٹھا۔ حکومت نے ملز کے ایک ارب 68 کروڑ حصص 21 ارب 68 کروڑ روپے میں فروخت کر دیے، یہ شرحاً کل کا 75 فی صد بنتے ہیں لیکن ''فروشندوں'' سے خامی یہ ہوگئی کہ ان سے خریداروں کے بارے میں اختلاف و ابہام سرزد ہوگیا۔ قبلِ نج کاری اور بعد نج کاری بولی دینے والوں اور خریداروں کے جو نام ظاہر کیے گئے، وہ آپس میں میل نہیں کھاتے تھے، ادھر مزدور یونینیں بھی ادھار کھائے بیٹھی تھیں۔ نوبت سپریم کورٹ تک پہنچ گئی اور 15 جون 2006 کو سودے اور سوداگروں کی کرکری ہوگئی۔

کہا جاتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ان انتہائی اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے تھے:

وزیر اعظم شوکت عزیز کی دوہری شہریت کی تحقیق اور ان کی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی قابلیت،

یہ مقدمہ کہ آیا صدر پرویز مشرف آئندہ صدارتی مدت کے لیے انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں؟

2010 میں حج کرپشن کیس پر سوؤ موٹو لیا جس مے اس وقت کے وفاقی وزیرِمذہبی امور فارغ ہوئے، ستمبر2011 میں سوؤموٹو کراچی بدامنی کیس،،

دسمبر 2011 میمورینڈم کے خلاف آئینی پیٹیشن، (پاکستانی سفیر برائے امریکا کا امریکی ایڈمرل مائک ملن کو خط)،

2011 ہی میں ذوالفقار علی بھٹو کیس پر نظرثانی،

اپریل 2012 میں سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو، توہینِ عدالت کیس میں، 30سیکنڈ کی سزا اور نااہلی،

مارچ2012 میں رینٹل پاور پلانٹس کیس، ان کے علاوہ این آئی سی سکینڈل، آر پی پی سکینڈل، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف 47 ارب روپے گھپلے کا کیس، بے نظیر بھٹو ائرپورٹ کی تعمیر کا کیس وغیرہ شامل ہیں ۔

جسٹس افتخار محمد چودھری کے پیش رو

جمہوری دور (1947-1958) عبد الرشید • محمد منیر

فوجی دور (1958-1971) محمد منیر • محمد شہاب الدین • ایلون رابرٹ کارنیلیس • ایس۔ اے۔ رحمان • فضل اکبر

جمہوری دور(1971-1977) حمود الرحمن • محمد یعقوب علی

فوجی دور (1977-1988) شیخ انوار الحق • محمد حلیم

جمہوری دور (1988-1999) محمد افضل • نسیم حسن شاہ • سید سجاد علی شاہ • اجمل میاں • سعید الزماں صدیقی

فوجی دور (2000-2008) ارشاد حسن خان • بشیر جہانگیری • شیخ ریاض احمد • ناظم حسین صدیقی • افتخار محمد چوہدری • رانا بھگوان داس (قائم مقام) • عبد الحمید ڈوگر (ڈی فیکٹو)

جمہوری دور (2008-تا حال) عبد الحمید ڈوگر (ڈی فیکٹو) • افتخار محمد چوہدری

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں