کیا گندم الرجی ختم ہوسکتی ہے

بیماری میں گندم کا استعمال ترک نہ کیا جائے تو اور خطرناک امراض پیدا جاتے ہیں


بیماری میں گندم کا استعمال ترک نہ کیا جائے تو اور خطرناک امراض پیدا جاتے ہیں (فوٹو : فائل)

یہ کوئی دوسال پہلے کی کہانی ہے، ایک خاتون نے رابطہ کیا، کہنے لگیں:

'' ڈاکٹر صاحبہ ! میرا ایک ہی بیٹا ہے، سات سال کا۔ اسے گندم سے الرجی ہے۔ گندم سے بنی ہوئی کوئی چیز نہیں کھا سکتا۔ بچپن میں مسلسل پیٹ خراب اور دستوں کی شکایت رہتی تھی۔ پیٹ میں درد اور کافی تکلفیں رہیں۔ جب کافی ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ گندم سے الرجی ہے۔ ڈاکٹروں نے گندم بالکل بند کروا دی کہ اب ساری زندگی گندم نہیں کھا سکے گا۔ اب چاول یا مکئی کی روٹی استعمال کرتے ہیں۔ کوئی بسکٹ، بیکری آئٹم نہیں کھاسکتا۔ بہت پریشان ہوں۔ آخر کب تک وہ یہ پرہیز کرے گا؟ دوسرے بچے کچھ کھاتے ہیں وہ بھی دیکھ کر مانگتا ہے۔ کسی تقریب میں چاول کے سوا کچھ نہیں کھاسکتا۔ ایسا آخر کب تک چل سکے گا ؟؟

آپ پلیز کوئی علاج، کوئی دوا تلاش کریں کہ میرا بچہ ٹھیک ہوجائے''۔

مجھے اس سے ملتے ملتے جلتے ایسے کئی کیسز ملے جن کا ایک ہی مسئلہ تھا کہ وہ گندم سے بنی کوئی چیز نہیں کھاسکتے تھے، کھاتے تو فوراً پیٹ میں درد، دست، الٹیاں یا چھالے ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ان خاتون کے بیٹے کا علاج کیا،اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسے شفا نصیب ہوئی الحمدللہ، پھر اس نے سات سال بعد گندم کے پراٹھے کھائے، اب وہ سب کچھ کھارہاہے۔

گندم الرجی !!! یا سیلیک ڈزیز ہے کیا؟

گندم سے الرجی مراد گندم میں موجود پروٹین سے الرجی ہے اس کے مریضوں کا کمزور مدافعتی نظام، گندم میں پائی جانے والی مختلف اقسام کی پروٹین کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ گندم میں موجود پروٹین ''گلوٹین'' (Gluten) سے پیدا ہونے والی الرجی کو گلوٹن الرجی بھی کہتے ہیں۔

اس الرجی کے سبب سے چھوٹی آنتوں میں سوزش اور ورم پیدا ہو جاتا ہے اور شدید نوعیت میں چھالے دیکھے جاسکتے ہیں جس سے مریض کی چھوٹی آنتوں میں غذائی اجزاء کا انجذاب متاثر ہوتا ہے۔

گو کہ پاکستان میں اس کا وقوع بہت کم ہے، لیکن اب اس کے کیس بڑی تواتر سے سامنے آرہے ہیں۔ کسی بھی آبادی میں دو سے سات فیصد افراد متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض گندم سے بنی ہوئی کسی بھی غذا کا مسلسل استعمال نہیں کرسکتا۔اس کا واحد علاج یہ ہے کہ گندم سے بنی اشیاء کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گندم ہماری غذا کا لازمی جزو ہے۔ روٹی، کیک، دلیہ، بسکٹ، مٹھائی، حلیم ہر ایک میں گندم موجود ہوتی ہے، پرہیزکریں تو کیسے کریں؟

اس الرجی کے شکار بچوں کا قد اور وزن، ان کی عمر کے حساب سے نہیں بڑھتا اور اس کی علامات بھی ڈائجسٹو ڈس آرڈر سے ملتی جلتی ہیں۔گندم الرجی ایک بار میں ایک یا کئی عضوی نظام کو متاثر کرسکتا ہے اور اس میں شامل ہوسکتا ہے:

گندم کھانے سے علاماتِ : ٭ دستوں کے ادوار/دیر تک رہنے والے دست، ٭ دائمی قبض کے ساتھ پیٹ میں ہوا اکٹھی ہونا، ٭ پیٹ میں ہوا کی وجہ سے تناؤ کا احساس، ٭ آئرن اور وٹامنز کی دائمی کمی، ٭ طبیعت کی خرابی، ٭ بہت ز یادہ تھکن، ٭ پیٹ میں درد جس کی وجہ واضح نہ ہو، ٭ ہڈیوں کا بھربھرا اور کمزور ہونا، ٭ وزن نہ بڑھنا )وزن میں کمی( اور قد ٹھیک نہ بڑھنا )بچوں کیلئے، ٭ پکے دانتوں کی او پری حفاظتی تہ کو نقصان گندم سے الرجی کے باعث سانس کے راستے کی تکالیف )چھینکوں اور زکام کی عالمات، دمہ(، پیٹ/آنتوں کی تکالیف )پیٹ میں شدید درد، قے، دست( یا گندم کو چھونے پر جلد کی سرخی یا دانوں )کانٹیکٹ الرجی( کی تکلیف ہو سکتی ہے۔ اس الرجی میں مبتلا لوگوں کو بنیادی طور پر سیلیئک کا باعث بننے والی پروٹین کی بجاے گندم کی کسی اور پروٹین کی وجہ سے ردعمل ہوسکتا ہے۔

احتیاطی تدابیر : جن لوگوں کو یہ الرجی ہو انہیںگندم اور اس سے متعلق (جیسے میدہ) ہر شے سے احتیاط کرنا چاہئے۔ ڈاکٹرز کے مطابق ویٹ الرجی میں چار چیزوں سے احتیاط کرنا ہوتی ہے:

Barely,Rai, Oats, اور Wheat ۔

جن کا مخفف BROW بنتا ہے۔ویٹ الرجی کے شکار لوگوں کو چاہئے کہ وہ چاول کا استعمال کریں۔ پیکٹ میں بند شے (مثلا چاکلیٹ) خریدتے ہوئے اس پر دئیے گئے اجزاء کو ضرور پڑھ لینا چاہئے کہ آیا ان میں گندم وغیرہ سے متعلقہ کوئی شے تو نہیں۔ اچھی کمپنیاں تو باقاعدہ جلی حروف میں Wheat یا Oats یا Glutton لکھتی ہیں۔ سویا ساس میں بھی گلوٹن ہوتا ہے اس سے بھی احتیاط کرنا چاہئے۔ بعض کمپنیوں کے کارن سیریلز میں بھی اس کی ملاوٹ ہوتی ہے اگرچہ وہ لکھتے نہیں ۔ ہومیو پیتھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویٹ الرجی اگر کم سطح کی ہو تو اس کا علاج ممکن ہے۔

اگر آپ کے بچے ایسی کوئی علامت دیتے ہیں تو مکمل چیک اپ کروائیں، ٹیسٹ کروائیں۔

ویٹ الرجی ہونے کی بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ خون میں ہوموگلوبین کی مقدار باوجود آئرن سپلیمنٹ کے مسلسل کم رہتی ہے اور گاہے بگاہے موشن ہوجاتا ہے یا پیٹ میں گیس ہوجاتی ہے۔ ان علامات کے شکار لوگوں کو معالج کے مشورے سے ویٹ الرجی کا ٹیسٹ کروانا چاہئے۔ ساتھ ہی قریبی کسی اچھے ہومیو پیتھک ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے۔ ان شاء اللہ صحت یاب ہوجائیں گے۔

[email protected]

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں