رعشہ پارکنسنز کے مریض معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں
پاکستان میں رعشہ کے سات لاکھ سے زائد مریض ہیں جن میں 50 فیصد سے زائد کے مرض کی صحیح تشخیص ہی نہیں ہوئی
رعشہ یعنی پارکنسنز ایک دماغی مرض ہے جس میں دماغ کا ایک کیمیکل ڈوپامین بنانے والے خلیے تباہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ چونکہ ڈوپامین جسم کی حرکات وسکنات کے لیے بنیادی جزو اوراہمیت کا حامل کیمیکل ہے اس لیے اس کی کمی کی صورت میں مختلف علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
اس بیماری کے نتیجے میں پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور حرکات و سکنات سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس مرض کے بارے میں عوام میں آگاہی کے لیے عالمی فیڈریشن آف نیورولوجی نے اس سال 22 جولائی کو منائے جانے والے 'عالمی یوم دماغ' کے موقع پر پارکنسنز کے متعلق آگاہی کو مرکزی موضوع قرار دیا ہے۔
رعشہ ایک پیچیدہ مرض ہے مگر بروقت اور درست تشخیص اور ادویات کے موزوں استعمال سے اس کی علامات کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس بیماری کا کوئی مستقل ودائمی علاج نہیں ہے تاہم ادویات کے مناسب استعمال کے ذریعے مریض سالہا سال مؤثر زندگی گزارسکتے ہیں۔
پاکستان میں پارکنسنز یا رعشہ کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی صحیح تعداد کے متعلق مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی تعداد چھ ، سات لاکھ سے زائد ہے جن میں 50 فیصد سے زائد مریض ایسے ہیں جن کے مرض کی صحیح تشخیص ہی نہیں ہوئی اور نہ انہیں کبھی علاج کی سہولیات میسر آئیں۔ پاکستان میں رعشہ کے مرض میں مبتلا افراد زیادہ تر 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں لیکن اس بیماری میں40 سے50 سال کی عمر کے افراد بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عمومی طور پر اس بیماری کی علامات کو بڑھاپے کا ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ایشیاء میں پاکستان کے علاوہ انڈیا اور قریبی ممالک میں رعشہ کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن بڑھتی ہوئی غربت کے باعث یہ بیماری بہت حد تک نظر انداز کردی جاتی ہے۔
پارکنسنز کا مرض عمومی طور پر آہستگی سے بڑھتا ہے۔ اگر چہ یہ بیماری جان لیوا نہیں مگر اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیاں اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں رعشہ کی بیماری اور اسکی تشخیص کے حوالے سے معلومات و مہارت میں کمی ہے، نہ صرف عام افراد بلکہ طب کے شعبے سے وابستہ افراد بھی اس کی علامات وتشخیص کے حوالے سے نابلد ہیں۔اس بناء پر اکثر رعشہ کے مریضوں کی تشخیص صحیح طور یا بر وقت نہیں ہو پاتی۔
اس مرض کے متعلق عوامی آگہی بہت ضروری ہے جس میں جلد تشخیص اور مریضوں کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے۔ یہ ایک بیماری ہے جو کہ بڑھاپے کا ردعمل نہیں لیکن یہ ایک قابل علاج مرض ہے اور یہ ایک زندگی بھر رہنے والا مرض ہے اور تمام عمر اس کا علاج جاری رہتا ہے اور علاج کے نتیجے میں لوگ عام زندگی گزار سکتے ہیں ۔
پاکستان میں اوسط عمر بڑھ گئی ہے اور یہ 60سے 65سال تک پہنچ گئی ہے ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ رعشہ کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر کے لوگوں میں سے دو فیصد کو رعشہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ، اس مرض کی تشخیص کے لیے کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں بلکہ حرکات و سکنات سے بہ آسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس بیماری کے نتیجے میں پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور حرکات و سکنات سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں، اس لیے اس کے علاج کے لیے دواؤں کے ساتھ ساتھ فزیو تھراپی اور تیماری داری بہت اہم ہوتی ہے اس کی دوائیاں بہ آسانی مارکیٹ میں موجود ہیں۔
پارکنسنز کے مرض کی خاص علامات میں روزمرہ زندگی کی حرکات وسکنات کی رفتار میں آہستگی کا ہوجانا، رعشہ کا ہونا (بالخصوص جب جسم کے اعضاء حرکت میں نہ ہوں) عضلات میں لچک کا ضیاع، توازن برقرار رکھنے میں دشواری ،پٹھوں میں تناؤ، چلنے کی رفتار میں کمی، چھوٹے چھوٹے قدم کے ذریعے چلنا اور چلتے وقت مڑنے میں دشواری وآہستگی کا شامل ہونا ہے۔پارکنسنز کی بیماری کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے مزید علامات ظاہر ہوتی رہتی ہیں جس میں چہرے کے تاثرات میں کمی، چہرے کا اترنا، رال ٹپکنا ،چال کا منجمد ہونا، گرنا،تھکاوٹ، ہاتھ کی لکھائی کا چھوٹا ہوجانا،قبض کا ہونا ، ذہنی تناؤ،دباؤ، جنسی نظام میں کمزوری ، مثانہ میں کمزوری، چکر آنا اور جلد کا خشک ہونا وغیرہ شامل ہے۔
اس مرض کی جلد تشخیص ، مریض کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے تاکہ مریض کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جاسکے یہ بیماری قطعاً بڑھاپے کا ردعمل نہیں ہے بلکہ قابل علاج مرض ہے۔پارکنسنز کے مرض کی درست تشخیص ماہر امراض ودماغ واعصاب (نیورولوجسٹ) طبی معائنے سے کرتے ہیں اس کی تصدیق کے لیے کسی قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔پارکنسنز کے مرض کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ادویات میں ترمیم ضروری ہوجاتی ہے۔
مریض کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ اپنی بیماری کے متعلق مکمل اور ٹھیک معلومات حاصل کرے۔ باقاعدگی کے ساتھ اپنے معالج کو دکھائے۔ نیز علامات کی تبدیلی پر کڑی نظر رکھے اور علامات کی تبدیلی کے نتیجے میں فوری معالج سے رجوع کرے۔ ہر مریض کے علاج کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ صحت مند غذا، ورزش اور ادویات کا بروقت و موثر استعمال علاج کی بنیادی کنجی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانی، سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے مریض بہتر محسوس کرتا ہے۔ پارکنسنز ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ادویات اور مثبت رویے سے ہی ممکن ہے۔
( ڈاکٹر عبدالمالک ایسوسی ایٹ پروفیسر و ماہر امراضِ دماغ و اعصاب ہیں۔ دارالصحت ہسپتال اور لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسری کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر بھی ہیں۔)
اس بیماری کے نتیجے میں پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور حرکات و سکنات سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس مرض کے بارے میں عوام میں آگاہی کے لیے عالمی فیڈریشن آف نیورولوجی نے اس سال 22 جولائی کو منائے جانے والے 'عالمی یوم دماغ' کے موقع پر پارکنسنز کے متعلق آگاہی کو مرکزی موضوع قرار دیا ہے۔
رعشہ ایک پیچیدہ مرض ہے مگر بروقت اور درست تشخیص اور ادویات کے موزوں استعمال سے اس کی علامات کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس بیماری کا کوئی مستقل ودائمی علاج نہیں ہے تاہم ادویات کے مناسب استعمال کے ذریعے مریض سالہا سال مؤثر زندگی گزارسکتے ہیں۔
پاکستان میں پارکنسنز یا رعشہ کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی صحیح تعداد کے متعلق مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی تعداد چھ ، سات لاکھ سے زائد ہے جن میں 50 فیصد سے زائد مریض ایسے ہیں جن کے مرض کی صحیح تشخیص ہی نہیں ہوئی اور نہ انہیں کبھی علاج کی سہولیات میسر آئیں۔ پاکستان میں رعشہ کے مرض میں مبتلا افراد زیادہ تر 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں لیکن اس بیماری میں40 سے50 سال کی عمر کے افراد بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عمومی طور پر اس بیماری کی علامات کو بڑھاپے کا ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ایشیاء میں پاکستان کے علاوہ انڈیا اور قریبی ممالک میں رعشہ کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن بڑھتی ہوئی غربت کے باعث یہ بیماری بہت حد تک نظر انداز کردی جاتی ہے۔
پارکنسنز کا مرض عمومی طور پر آہستگی سے بڑھتا ہے۔ اگر چہ یہ بیماری جان لیوا نہیں مگر اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیاں اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں رعشہ کی بیماری اور اسکی تشخیص کے حوالے سے معلومات و مہارت میں کمی ہے، نہ صرف عام افراد بلکہ طب کے شعبے سے وابستہ افراد بھی اس کی علامات وتشخیص کے حوالے سے نابلد ہیں۔اس بناء پر اکثر رعشہ کے مریضوں کی تشخیص صحیح طور یا بر وقت نہیں ہو پاتی۔
اس مرض کے متعلق عوامی آگہی بہت ضروری ہے جس میں جلد تشخیص اور مریضوں کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے۔ یہ ایک بیماری ہے جو کہ بڑھاپے کا ردعمل نہیں لیکن یہ ایک قابل علاج مرض ہے اور یہ ایک زندگی بھر رہنے والا مرض ہے اور تمام عمر اس کا علاج جاری رہتا ہے اور علاج کے نتیجے میں لوگ عام زندگی گزار سکتے ہیں ۔
پاکستان میں اوسط عمر بڑھ گئی ہے اور یہ 60سے 65سال تک پہنچ گئی ہے ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ رعشہ کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر کے لوگوں میں سے دو فیصد کو رعشہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ، اس مرض کی تشخیص کے لیے کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں بلکہ حرکات و سکنات سے بہ آسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس بیماری کے نتیجے میں پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور حرکات و سکنات سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں، اس لیے اس کے علاج کے لیے دواؤں کے ساتھ ساتھ فزیو تھراپی اور تیماری داری بہت اہم ہوتی ہے اس کی دوائیاں بہ آسانی مارکیٹ میں موجود ہیں۔
پارکنسنز کے مرض کی خاص علامات میں روزمرہ زندگی کی حرکات وسکنات کی رفتار میں آہستگی کا ہوجانا، رعشہ کا ہونا (بالخصوص جب جسم کے اعضاء حرکت میں نہ ہوں) عضلات میں لچک کا ضیاع، توازن برقرار رکھنے میں دشواری ،پٹھوں میں تناؤ، چلنے کی رفتار میں کمی، چھوٹے چھوٹے قدم کے ذریعے چلنا اور چلتے وقت مڑنے میں دشواری وآہستگی کا شامل ہونا ہے۔پارکنسنز کی بیماری کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے مزید علامات ظاہر ہوتی رہتی ہیں جس میں چہرے کے تاثرات میں کمی، چہرے کا اترنا، رال ٹپکنا ،چال کا منجمد ہونا، گرنا،تھکاوٹ، ہاتھ کی لکھائی کا چھوٹا ہوجانا،قبض کا ہونا ، ذہنی تناؤ،دباؤ، جنسی نظام میں کمزوری ، مثانہ میں کمزوری، چکر آنا اور جلد کا خشک ہونا وغیرہ شامل ہے۔
اس مرض کی جلد تشخیص ، مریض کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے تاکہ مریض کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جاسکے یہ بیماری قطعاً بڑھاپے کا ردعمل نہیں ہے بلکہ قابل علاج مرض ہے۔پارکنسنز کے مرض کی درست تشخیص ماہر امراض ودماغ واعصاب (نیورولوجسٹ) طبی معائنے سے کرتے ہیں اس کی تصدیق کے لیے کسی قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔پارکنسنز کے مرض کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ادویات میں ترمیم ضروری ہوجاتی ہے۔
مریض کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ اپنی بیماری کے متعلق مکمل اور ٹھیک معلومات حاصل کرے۔ باقاعدگی کے ساتھ اپنے معالج کو دکھائے۔ نیز علامات کی تبدیلی پر کڑی نظر رکھے اور علامات کی تبدیلی کے نتیجے میں فوری معالج سے رجوع کرے۔ ہر مریض کے علاج کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ صحت مند غذا، ورزش اور ادویات کا بروقت و موثر استعمال علاج کی بنیادی کنجی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانی، سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے مریض بہتر محسوس کرتا ہے۔ پارکنسنز ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ادویات اور مثبت رویے سے ہی ممکن ہے۔
( ڈاکٹر عبدالمالک ایسوسی ایٹ پروفیسر و ماہر امراضِ دماغ و اعصاب ہیں۔ دارالصحت ہسپتال اور لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسری کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر بھی ہیں۔)