خدا محفوظ رکھے اشرافیہ سے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے کی خواہش، اس شدت سے کیوں پیدا ہو رہی ہے
ہماری اپوزیشن نے اخباری بیانات کے ذریعے تو موجودہ حکومت کا خاتمہ کردیا ہے، لیکن اپوزیشن بھی جانتی ہے کہ حکومت کوکمزورکرنے کی جتنی کوشش کر رہی ہے، حکومت اتنی ہی مضبوط ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اور مسلم لیگ (ن) نے بھی پانچ، پانچ سال مکمل کرلیے تھے۔
اب عمران خان کی تحریک انصاف اقتدار میں ہے، اسے اقتدار میں آئے ہوئے تقریباً دو سال ہو رہے ہیں، اس کے خلاف اپوزیشن کرپشن کے الزامات ثابت نہیں کرسکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے کی خواہش، اس شدت سے کیوں پیدا ہو رہی ہے۔ حکومت بڑی ایمانداری سے اپنی حکومتی ذمے داریاں پوری کررہی ہے جب کہ ساری اپوزیشن کی سیاست اخباری بیانات پر چل رہی ہے۔
ہمارے سیاستدان صبح شام اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کا نام لیتے ہیں اور جتنے فراڈ ہوتے ہیں وہ سب جمہوریت کے نام پر ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عام آدمی میں اربوں روپوں کی کرپشن کی اہلیت ہی نہیں ہوتی ،یہ کام وہ خاص لوگ کرتے ہیں جسے ہم اشرافیہ کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے، چند ہزار افراد پر مشتمل اشرافیہ ہے،جو 72 سالوں سے سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اور اربوں کی کرپشن کا ارتکاب کر رہی ہے ملک میں۔ اکثریت غریب عوام، مزدور، اورکسان کی ہیں۔ 21کروڑ سے زیادہ عوام کو جن میں غریب آدمی، مزدور، کسان، صحافی، دانشور، مفکر، شاعر اور فنکار شامل ہیں ان سب کو اشرافیہ نے سیاست بدر کر رکھا ہے۔
ترقی یافتہ نظام میں ایک خوبی بہرحال ہے کہ انتخابات میں غریب امیر کی تفریق نہیں ہوتی صرف اہلیت کی اہمیت ہوتی ہے اس خوبی کی وجہ کچھ اہل افراد بھی قانون ساز اداروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں تو غریب عوام کا کام لمبی لمبی لائنوں میں سارا سارا دن کھڑے ہوکر ووٹ کاسٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں، جب غریب عوام کے ووٹ سے اشرافیہ اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہے تو وہی کرتی ہے جو ہم دیکھتے آ رہے ہیں اور بھگتتے آ رہے ہیں۔
دنیا کے ہر جمہوری ملک میں ایک موثر اپوزیشن ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے اور اگر کارکردگی میں خرابیاں ہوں تو ان کی نشان دہی کرتی ہے لیکن کوئی اپوزیشن حکومت گرانے کی بات نہیں کرتی۔ پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اپوزیشن کا سب سے بڑا مطالبہ حکومت گرانا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری حکومت میں بھی قابل گرفت، قابل تنقید خرابیاں ہیں اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ ان خرابیوں ان کمزوریوں کی نشان دہی کرے تاکہ ان کی اصلاح ہوسکے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ عشروں سے چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اقتدار میں آنے سے قبل بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف حکومت کی سخت ناقد تھی اب حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال ہو چکے ہیں لیکن حکومت ابھی تک اس بیماری پر قابو نہیں پاسکی یہ ایک ایسی کمزوری ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہماری حکومت بھی ماضی کی دوسری حکومتوں کی طرح عوامی فلاح کے بڑے بڑے دعوے کرتی آ رہی ہے لیکن ابھی تک یہ دعوے تشنہ تکمیل ہی ہیں ہماری طرف حکومت کی حمایت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت پر اپوزیشن بھی کرپشن کے الزامات نہیں لگا سکی جب کہ آج کی اپوزیشن کرپشن کے الزامات میں ڈوبی ہوئی ہے، اسے ہم حکومتوں کی بدعنوانیاں کہیں یا سرمایہ دارانہ نظام کی عنایتیں کہ کرپشن اس جمہوریت کا اہم حصہ بن کر رہ گئی ہے۔
ملازمین کے استحصال کا تعلق بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی خرابیوں میں سے ہی ہے، اگر اداروں میں انصاف ہو تو ایسی کوتاہیوں کا فوری تدارک کردیا جاتا ہے۔ یہ ہماری عشروں پرانی عادت ہے کہ ہم صبح بہت سویرے اٹھتے ہیں اور لکھنے پڑھنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس کی وجہ بیماریاں ہیں جنھوں نے ہمیں بہت کمزورکردیا ہے۔ ایک صبح آج سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے کی بات ہے ہم بستر سے اٹھنا چاہتے تو لڑکھڑا کر گرگئے مارے خوف کے ہمارا پسینہ نکل گیا۔
ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ نیورولوجسٹ ڈاکٹر آفتاب ہمارے پرانے معالج ہیں ہم بڑی مشکل سے بیٹے کی گاڑی میں اسپتال پہنچے۔ ڈاکٹر آفتاب نے ہمارا معائنہ کیا اور دوائیں تجویزکیں، ہم حیران رہ گئے کہ دو تین گھنٹے بعد ہم کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے۔ ایک ہفتے کے علاج ہی میں ہم چلنے پھرنے اور لکھنے پڑھنے کے قابل ہوگئے۔ ہم پہلے تو یہ سمجھے کہ ہم فالج کا شکار ہو گئے ہیں لیکن خیر ہوئی کہ ہم اس عذاب سے بچ گئے کالم میں ہم نے اس بات کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ جانے کتنے لوگ اس قسم کے مسائل سے دوچار ہیں اور پریشان ہیں خدا کرے ایسے بیماروں کو شفا حاصل ہوجائے۔