حساس لوگوں کی قدر
انسان کی شخصیت کی تعمیر میں موروثیت، پرورش اور ماحول کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بالی وڈ کے اداکار سشانت سنگھ کی خودکشی کے تذکرے ہر طرف سنائی دے رہے ہیں۔ سشانت ایک اعلی تعلیم یافتہ، حساس اور ادبی ذوق رکھنے والا انسان تھا۔ وہ کلینیکل ڈپریشن سے نبرد آزما تھا۔ اس نے ایک جملہ یہ بھی کہا تھا کہ اکثر جنھیں دوست سمجھتے ہیں وہ آگے چل کر فون اٹھانا تک گوارا نہیں کرتے۔ یہ حقیقت ہے کہ ذہین اور حساس لوگ ہمیشہ سماج کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں، جس سماج میں خودغرضی، موقع پرستی اور بے حسی سکہ رائج الوقت ہو وہاں سچے، تخلیقی اور سادہ لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں، انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویے سماجی زندگی کے اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں۔
ہر سال آٹھ لاکھ افراد رویوں کی آلودگی کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں۔ یہ گراف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ذہنی عارضے میں مبتلا لوگوں کو اخلاقی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حساس لوگ ہیں جو دوسروں کے لیے محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں اور انھوں نے زندگی کی بدصورتیوں میں اپنے خوبصورت احساس سے توازن برقرار رکھا ہے۔ یہ موت کے بجائے زندگی کے اہل ہیں۔ ان کی قدر کیجیے، انھیں پہچانئے۔
انسان کی شخصیت کی تعمیر میں موروثیت، پرورش اور ماحول کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے، جو موروثی اثرات کے تحت آگے چل کر شدت اختیار کر لیتی ہے۔ خاص طور ہر حمل کے دوران ماں کی کیفیات بچے کے ذہن و جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں، ماں کو اگر اسی دوران پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہے تو اس کی شدت بھی بچے کی ذہنی نشونما کو متاثر کر سکتی ہے۔ ماں کو پہلے سے کوئی ذہنی عارضہ لاحق ہے تو حمل کے دوران فطری طور پر ہر عورت کو لاحق ہونے والا ڈپریشن شدت اختیارکر لیتا ہے۔
ہر عورت، حمل کے دوران پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے گزرتی ہے۔ یہ ڈلیوری کے بعد ہونے والی نفسیاتی کیفیت ہے، جو چار سے چھ ہفتے تک قائم رہتی ہے۔ اس عرصے سے طوالت کر جائے تو ماں کی ذہنی صحت کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ جس کا بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں، ماں کسی دوسرے ذہنی عارضے میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ بچے میں یہ کیفیات موروثی طور پر منتقل ہو جاتی ہیں۔
آگے چل کر جب ایسے نوجوان خودکشی کر لیتے ہیں تو اکثر مائیں کہتی ہیں کہ معلوم نہیں، کیوں اس نے یہ قدم اٹھا لیا حالانکہ ہم نے تو اس کے لیے سارے سکھ مہیا کر رکھے تھے۔ سکھ، والدین کی توجہ اور سمجھ کا نعم البدل نہیں ہو سکتے! بچپن کے تجربات، ڈپریشن کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ اساتذہ و ہم جولیوں کے رویے بھی بچے کی ذہنی صحت کا تعین کرتے ہیں، چونکہ ہمارا سماج رزلٹ اورینٹیڈ سماج ہے۔ وہ اوسط درجے پر ٹکے ہوئے بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ پوزیشن لینے کا کریز بھی بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت کو تباہ کر دیتا ہے۔ والدین و اساتذہ نفسیات سے واقف نہیں ہوتے لہذا وہ بجائے معاملہ سنبھالنے کے اسے مزید الجھا دیتے ہیں۔
یہ ایک ایسا سماج ہے، جو بچے کی عزت نفس سے جڑے ہوئے مسائل نہیں سمجھتا۔ یہ توقیر ذات کی پامالی کس طرح بچوں اور نوجوانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مثلا یہ کہنا کہ ''دیکھو بھائی پوزیشن لے رہا ہے اور تم فیل ہو گئے'' بہن بھائی ، کزنز یا دوستوں سے موازنہ کرنا سراسر غلط رویہ ہے۔ ہر انسان کی سمجھ و صلاحیت اور کام کی رفتار الگ ہوتی ہے۔ اس کی ذہنی استطاعت اور جسمانی صحت مختلف ہوتی ہے لہذا اسے دوسرے کی کارکردگی کے معیار پر پرکھنا انتہائی غلط ہے۔ ایسے رویوں کے حامل والدین و اساتذہ کو کاؤنسلنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔کبھی بھی دو لوگوں یا صورتحال کا موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔
ڈپریشن علاج سے ٹھیک ہو جاتا ہے مگر اس کے لیے مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دواؤں کو بیچ میں چھوڑدینے سے خطرناک نتائج ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ادویات مریض کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں لہذا ایسے مریضوں کی نظرداری اشد ضروری ہے۔
اکثر ڈپریشن کے مریض کسی عزیز کی موت کے صدمے کو برداشت نہیں کر پاتے اور میجر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، کیوںکہ بہت سے لوگ دکھ کا اظہار نہیں کرتے اور خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ خاموشی بہادری نہیں بلکہ ذہنی صحت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اظہار وہ موثر ہتھیار ہے، جو انسان کو ذہنی بیماری جیسے خطرناک دشمن سے لڑنے کے لیے تحرک عطا کرتا ہے، لیکن ہمارا یہ سماج فقط مطلب کی بات سننے کا عادی رہا ہے۔ ہر شخص اپنے نظریات اور پسند و ناپسند کے مطابق چیزوں کو اپناتا یا مسترد کرتا ہے۔ یہ ذہنی آمریت کئی نسلوں سے فطری رویے چھین لیتی ہے۔ سماج کے لیے چہرے پر کئی چہروں کا نقاب ڈالے ہوئے فرد انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ نرگسی رویے، خود ثنائی، جبری رویے، شہرت و منصب کی لالچ اور اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ کام کرنے کی بھوک و غیرمنطقی رویے مہلک زہر کی طرح ثابت ہوتے ہیں۔
ڈپریشن سے تین رویے لڑ سکتے ہیں جس میں تخلیقی سرگرمیاں، جسمانی مشق اور اظہار کی صلاحیت ہے۔ آپ اگر اظہار نہیں کر سکتے تو ڈائری کو اپنا رازدار بنا لیجیے۔ لکھنے کی مشق کے کئی فوائد ہیں، جس سے یکسوئی قائم ہوتی ہے۔ لکھنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ تحریر بعد میں ضائع کر دی جائے۔ یہ وہ دور ہے جب اچھے سامع نہیں ملتے۔ رازداری الگ نہیں رکھی جاتی ایسی صورتحال میں لکھنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ جسمانی مشقوں میں پیدل چلنا اور دوڑنا مفید ہیں۔
فلاحی رویے ذہنی بیماری کی شدت کو کم کر دیتے ہیں کیونکہ فرد ذات کی الجھن سے باہر نکل کر دوسروں کے لیے سوچنے لگتا ہے۔ ترقی یافتہ قوموں نے یہ رویے اسی لیے اپنا رکھے ہیں کہ لوگ خود رحمی کا شکار ہونے سے بچ سکیں اور معاشرے میں بہتری آ سکے۔
موجودہ حالات میں، لاک ڈاؤن کے دوران، کافی اموات ڈپریشن کی وجہ سے بھی ہوئی ہیں۔ کافی لوگوں نے اپنا خیال کرنا چھوڑ دیا، وہ لوگ جو دل، ذیابیطس یا کسی اور مہلک بیماری کا شکار تھے۔ ان کی حالت مزید بگڑ گئی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ آجکل ڈپریشن و دیگر ذہنی عارضے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں نیند کی کمی اور فطری ماحول سے دوری بھی شامل ہے۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ سماجی رہنماؤں کی اپنی زندگی دکھ و تکالیف سے بھرپور مدد ملتی ہے۔ دکھ جھیلنے والا ہی کسی اور کی تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے۔
ہر سال آٹھ لاکھ افراد رویوں کی آلودگی کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں۔ یہ گراف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ذہنی عارضے میں مبتلا لوگوں کو اخلاقی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حساس لوگ ہیں جو دوسروں کے لیے محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں اور انھوں نے زندگی کی بدصورتیوں میں اپنے خوبصورت احساس سے توازن برقرار رکھا ہے۔ یہ موت کے بجائے زندگی کے اہل ہیں۔ ان کی قدر کیجیے، انھیں پہچانئے۔
انسان کی شخصیت کی تعمیر میں موروثیت، پرورش اور ماحول کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے، جو موروثی اثرات کے تحت آگے چل کر شدت اختیار کر لیتی ہے۔ خاص طور ہر حمل کے دوران ماں کی کیفیات بچے کے ذہن و جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں، ماں کو اگر اسی دوران پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہے تو اس کی شدت بھی بچے کی ذہنی نشونما کو متاثر کر سکتی ہے۔ ماں کو پہلے سے کوئی ذہنی عارضہ لاحق ہے تو حمل کے دوران فطری طور پر ہر عورت کو لاحق ہونے والا ڈپریشن شدت اختیارکر لیتا ہے۔
ہر عورت، حمل کے دوران پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے گزرتی ہے۔ یہ ڈلیوری کے بعد ہونے والی نفسیاتی کیفیت ہے، جو چار سے چھ ہفتے تک قائم رہتی ہے۔ اس عرصے سے طوالت کر جائے تو ماں کی ذہنی صحت کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ جس کا بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں، ماں کسی دوسرے ذہنی عارضے میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ بچے میں یہ کیفیات موروثی طور پر منتقل ہو جاتی ہیں۔
آگے چل کر جب ایسے نوجوان خودکشی کر لیتے ہیں تو اکثر مائیں کہتی ہیں کہ معلوم نہیں، کیوں اس نے یہ قدم اٹھا لیا حالانکہ ہم نے تو اس کے لیے سارے سکھ مہیا کر رکھے تھے۔ سکھ، والدین کی توجہ اور سمجھ کا نعم البدل نہیں ہو سکتے! بچپن کے تجربات، ڈپریشن کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ اساتذہ و ہم جولیوں کے رویے بھی بچے کی ذہنی صحت کا تعین کرتے ہیں، چونکہ ہمارا سماج رزلٹ اورینٹیڈ سماج ہے۔ وہ اوسط درجے پر ٹکے ہوئے بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ پوزیشن لینے کا کریز بھی بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت کو تباہ کر دیتا ہے۔ والدین و اساتذہ نفسیات سے واقف نہیں ہوتے لہذا وہ بجائے معاملہ سنبھالنے کے اسے مزید الجھا دیتے ہیں۔
یہ ایک ایسا سماج ہے، جو بچے کی عزت نفس سے جڑے ہوئے مسائل نہیں سمجھتا۔ یہ توقیر ذات کی پامالی کس طرح بچوں اور نوجوانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مثلا یہ کہنا کہ ''دیکھو بھائی پوزیشن لے رہا ہے اور تم فیل ہو گئے'' بہن بھائی ، کزنز یا دوستوں سے موازنہ کرنا سراسر غلط رویہ ہے۔ ہر انسان کی سمجھ و صلاحیت اور کام کی رفتار الگ ہوتی ہے۔ اس کی ذہنی استطاعت اور جسمانی صحت مختلف ہوتی ہے لہذا اسے دوسرے کی کارکردگی کے معیار پر پرکھنا انتہائی غلط ہے۔ ایسے رویوں کے حامل والدین و اساتذہ کو کاؤنسلنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔کبھی بھی دو لوگوں یا صورتحال کا موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔
ڈپریشن علاج سے ٹھیک ہو جاتا ہے مگر اس کے لیے مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دواؤں کو بیچ میں چھوڑدینے سے خطرناک نتائج ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ادویات مریض کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں لہذا ایسے مریضوں کی نظرداری اشد ضروری ہے۔
اکثر ڈپریشن کے مریض کسی عزیز کی موت کے صدمے کو برداشت نہیں کر پاتے اور میجر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، کیوںکہ بہت سے لوگ دکھ کا اظہار نہیں کرتے اور خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ خاموشی بہادری نہیں بلکہ ذہنی صحت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اظہار وہ موثر ہتھیار ہے، جو انسان کو ذہنی بیماری جیسے خطرناک دشمن سے لڑنے کے لیے تحرک عطا کرتا ہے، لیکن ہمارا یہ سماج فقط مطلب کی بات سننے کا عادی رہا ہے۔ ہر شخص اپنے نظریات اور پسند و ناپسند کے مطابق چیزوں کو اپناتا یا مسترد کرتا ہے۔ یہ ذہنی آمریت کئی نسلوں سے فطری رویے چھین لیتی ہے۔ سماج کے لیے چہرے پر کئی چہروں کا نقاب ڈالے ہوئے فرد انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ نرگسی رویے، خود ثنائی، جبری رویے، شہرت و منصب کی لالچ اور اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ کام کرنے کی بھوک و غیرمنطقی رویے مہلک زہر کی طرح ثابت ہوتے ہیں۔
ڈپریشن سے تین رویے لڑ سکتے ہیں جس میں تخلیقی سرگرمیاں، جسمانی مشق اور اظہار کی صلاحیت ہے۔ آپ اگر اظہار نہیں کر سکتے تو ڈائری کو اپنا رازدار بنا لیجیے۔ لکھنے کی مشق کے کئی فوائد ہیں، جس سے یکسوئی قائم ہوتی ہے۔ لکھنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ تحریر بعد میں ضائع کر دی جائے۔ یہ وہ دور ہے جب اچھے سامع نہیں ملتے۔ رازداری الگ نہیں رکھی جاتی ایسی صورتحال میں لکھنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ جسمانی مشقوں میں پیدل چلنا اور دوڑنا مفید ہیں۔
فلاحی رویے ذہنی بیماری کی شدت کو کم کر دیتے ہیں کیونکہ فرد ذات کی الجھن سے باہر نکل کر دوسروں کے لیے سوچنے لگتا ہے۔ ترقی یافتہ قوموں نے یہ رویے اسی لیے اپنا رکھے ہیں کہ لوگ خود رحمی کا شکار ہونے سے بچ سکیں اور معاشرے میں بہتری آ سکے۔
موجودہ حالات میں، لاک ڈاؤن کے دوران، کافی اموات ڈپریشن کی وجہ سے بھی ہوئی ہیں۔ کافی لوگوں نے اپنا خیال کرنا چھوڑ دیا، وہ لوگ جو دل، ذیابیطس یا کسی اور مہلک بیماری کا شکار تھے۔ ان کی حالت مزید بگڑ گئی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ آجکل ڈپریشن و دیگر ذہنی عارضے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں نیند کی کمی اور فطری ماحول سے دوری بھی شامل ہے۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ سماجی رہنماؤں کی اپنی زندگی دکھ و تکالیف سے بھرپور مدد ملتی ہے۔ دکھ جھیلنے والا ہی کسی اور کی تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے۔