بلوچستان میں صحافت کا سرخیل خان عبدالصمد خان اچکزئی

انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے خان عبدالصمد خان اچکزئی کو بلوچستان کا گاندھی بھی کہا جاتا تھا


عبدالصمد خان اچکزئی نے 1938 میں کوئٹہ سے ہفتہ وار ’’استقلال‘‘ اخبار جاری کیا۔ (تصویر بشکریہ بلاگر)

ISLAMABAD: 31 مئی 1935 کو رات تین بجے کوئٹہ میں تباہ کن زلزلہ آیا، ہزاروں کی آبادی والا شہر منٹوں میں کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ 30مئی تک جس شہر کو لٹل پیرس کہا جاتا تھا، وہ اب مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اس زلزلے میں چالیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ جو باقی ماندہ لوگ بچ گئے ان میں اکثریت نے کراچی، پنجاب اور ہندوستان کے دیگرعلاقوں کی طرف نقل مکانی کی۔ ان لوگوں نے دیگر علاقوں میں انگریزوں کے خلاف چلنے والی تحریک قریب سے دیکھی۔ وہاں کے حالات دیکھے تو ان میں بھی آزادی کا جذبہ اٹھا۔ جب یہ وہاں سے واپس کوئٹہ آئے تو اپنے ساتھ سیاسی شعور بھی لائے۔ ان کی سوچ بدل گئی تھی اور اس طرح انہیں پہلی بار صحافت و سیاست میں داخل ہونے کا موقع میسر آیا۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان میں اس سے پہلے صحافت نے کوئی خاص جگہ نہیں بنائی تھی۔ جو اخبار شائع ہوتے تھے ان میں سماجی و سیاسی حوالے سے کچھ نہیں چھپتا تھا۔ ان اخبارات میں انگریزوں کی سرگرمیوں اور ان کے حوالے سے خبریں شائع ہوتی تھیں اور اخبارات بھی انگریز حکومت کی جانب سے جاری ہوتے تھے۔ بلوچستان میں پریس ایکٹ تک نافذ نہیں ہوا تھا۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے خان عبدالصمد خان اچکزئی نے کوئٹہ سے اخبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ عبدالصمد خان اچکزئی آزادی پسند قبیلے اچکزئی کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے پر دادا کمانڈر برخودار خان اچکزئی 1761 کی پانی پت کی جنگ میں احمد شاہ ابدالی کے سپہ سالار کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ عبدالصمد خان اچکزئی کے دادا اور نانا نے بھی کئی اہم جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ خود عبدالصمد خان اچکزئی نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے کےلیے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ان کو انگریز حکومت کی جانب سے روک دیا گیا تھا۔

عبدالصمد خان اچکزئی نے 1938 میں کوئٹہ سے ہفتہ وار ''استقلال'' اخبار جاری کیا۔ اخبار جاری کرنے سے قبل انہیں پریس ایکٹ کے نفاذ کےلیے جدوجہد کرنا پڑی اور آخرکار اس میں کامیابی ملی۔ صوبے میں پریس ایکٹ کا نفاذ ان کی جدوجہد کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ ہفتہ وار '' استقلال'' اردو میں شائع ہوتا تھا۔ اخبار کےلیے اردو کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ اس وقت پشتونوں اور بلوچوں نے مل کر انگریز حکومت کے خلاف محاذ بنایا تھا۔ یوں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاسی تحریکوں کی وجہ سے ہی صوبے میں اردو زبان نے بھی ترقی کی۔

اس زمانے میں کوئٹہ میں بہت کم پرنٹنگ پریس تھے اس لیے عبدالصمد خان اچکزئی کو اپنا پرنٹنگ پریس لگانا پڑا۔ عبدالصمد خان اچکزئی نے پرنٹنگ پریس اپنے دوست یوسف عزیز مگسی کے (جو 1935 کے قیامت خیز زلزلے میں شہید ہوئے تھے) نام سے منسوب کیا اور یہ صوبے کی تاریخ کا سب سے پہلا الیکٹرک پریس تھا۔ عزیز الیکٹرک پرنٹنگ پریس پر دس ہزار روپے کی لاگت آئی۔

پرنٹنگ پریس کےلیے 7500 ہزار روپے دوستوں اور عام عوام نے چندہ دے کر جمع کیے، جن میں سے دو ہزار روپے خان آف قلات میر احمد یارخان نے دیئے۔ باقی روپے عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی جائیداد گروی رکھ کر دیئے۔ اس طرح صوبے کی تاریخ کا پہلا الیکٹرک پرنٹنگ پریس کوئٹہ کے مشہورعلاقے پرنس روڈ پر لگایا گیا۔

عبدالصمد خان اچکزئی صحافت کے علاوہ سیاسی تحریک بھی چلا رہے تھے اس لیے اخبار کےلیے ایڈیٹر باہر سے بلانا پڑا۔ اخبار کے علاوہ خان عبدالصمد خان اچکزئی یونائٹیڈ پریس آف انڈیا کےلیے بھی کوئٹہ سے خبریں بھیجتے تھے۔ ہفتہ وار ''استقلال'' انجمن وطن کا ترجمان اور قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کا ترجمان اخبار تھا۔ انگریز حکومت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اخبار کو اشتہارات بھی نہیں ملتے تھے۔ کچھ عرصے بعد عبدالصمد خان اچکزئی اور ایک ہندو اخبار نویس مسٹرکے ٹی جھنگیانی نے کراچی جا کر اشتہارات کےلیے بھاگ دوڑ شروع کی اورانہیں کامیابی مل گئی۔ ''استقلال'' انجمن وطن اور کانگریس کا حمایت یافتہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ کی خبروں کو بھی نمایاں کوریج دیتا تھا۔ اخبار کو کئی بار پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

1939 میں خان عبدالصمد خان اچکزئی نے کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑوتحریک'' کی بھرپور حمایت کی اور اخبار میں تحریک کی حمایت میں لکھتے رہے جس پر ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور جرگے کے ذریعے تین سال کی سزا سنائی گئی اور اخبار کے ایڈیٹر کو شہر بدر کردیا گیا۔ استقلال اخبار ملک کی آزادی سے پہلے، اور بعد میں بھی، شدید مشکلات کا شکار رہا اور ایک بار تین ہزارروپے کی ضمانت بھی ضبط ہوئی۔ آخرکار 1950 میں یہ اخبار ہمیشہ کےلیے بند ہوگیا۔

عبدالصمد خان اچکزئی 1938 میں جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے خان عبدالصمد خان اچکزئی کو بلوچستان کا گاندھی بھی کہا جاتا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں