پروفیسر ڈاکٹر مغیث اک چراغ اور بجھا
ڈاکٹر مغیث کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں: معلم، محقق، منتظم، مدبر اور ابلاغ کار؛ مگر وہ ہر شعبے کے امام تھے
استاد محترم ڈاکٹر مغیث کی رحلت کی خبر سنی تو پنجاب یونیورسٹی میں کئی برس قبل ان کے ساتھ بیتے لمحوں کی فلم نگاہوں کے سامنے گھوم گئی۔ 1996 میں ایم اے ابلاغیات کی ہماری کلاس اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ ہماری فیکلٹی علم و دانش کے ستاروں کی ایک کہکشاں تھی۔ ڈاکٹر مسکین حجازی، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر اے آر خالد، ڈاکٹر مغیث، عبدالمجید ملک، جی ایم نقاش اور ڈاکٹر احسن اختر ناز جیسے بڑے نام ہمارے اساتذہ تھے جو کئی کئی کتابوں کے مصنف اور اپنے اپنے شعبوں میں ملک گیر شہرت اور ساکھ کے حامل تھے۔ میرے علم کے مطابق کسی فیکلٹی میں اتنے معتبر اساتذہ بیک وقت شاید ہی کبھی اکٹھے ہوئے ہوں۔
ڈاکٹر مغیث ہمیں کمیونی کیشن پڑھاتے تھے اور مجھ سمیت ہمارے بیشتر کلاس فیلوز جس ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے، وہ اس ہاسٹل کے وارڈن بھی تھے۔ سو ہمیں ان کی شخصیت، ڈسپلن اور میرٹ کی پابندی کا قریبی مشاہدہ کرنے کے کئی مواقع میسر آئے۔ بطور وارڈن وہ ایک سخت گیر منتظم مشہور تھے مگر اپنے شاگردوں سے بے تکلفی، دوستی اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی کرتے تھے۔ ہاسٹل کینٹین میں رات گئے سجاد پراچہ، نعیم گل، مرزا جان وغیرہ جیسے سینئر طلبہ کے ساتھ جمی محفلوں، دعوتوں اور ملاقاتوں کا تذکرہ ان محفلوں میں شریک طلبا کو اشکبار کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر مغیث کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں: معلم، محقق، منتظم، مدبر اور ابلاغ کار۔ مگر وہ ہر شعبے کے امام تھے۔ وہ ابلاغیات کے بہت بڑے استاد ہی نہیں بہت شاندار ابلاغ کار اور مقرر بھی تھے جس کی دھاک اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی بٹھا چکے تھے۔ ان کی دل موہ لینے والی گفتگو کا مشاہدہ کلاس روم سے لے کر کئی قومی اور عالمی کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں کیا جہاں وہ بہت پر مغز اور مدلل گفتگو کرتے جو سامعین اور ناظرین کے دلوں پر نقش ہوجاتی۔ ہاسٹل اور اسپورٹس ویک کی تقریبات میں بعض اوقات مختصر مگر دلچسپ تقریر کرکے میلا لوٹ لیتے۔
ایک بار یونیورسٹی کے کسی فنکشن میں بہت سارے مقررین کے بعد جب ان کی باری آئی تو آتے ہی کہا کہ وہ آج دو تقریریں کریں گے۔ شرکا جو کئی مقررین کو بھگتا چکے تھے اور بھوک سے بے حال تھے، ان کا ماتھا ٹھنکا کہ اب تو اور بھی مارے گئے۔ اگلے ہی لمحے انھوں نے صرف دو جملے بولے: ''آپ کا شکریہ، آپ کا بے حد شکریہ!'' اتنا کہا اور واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ پنڈال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔ یہ ہے ان اداؤں کی ایک جھلک جن کے طفیل ڈاکٹر مغیث نے اپنے طلبہ اور چاہنے والوں کے دلوں پر کئی دہائیوں تک راج کیا۔
بطور استاد، ریسرچر اور منتظم وہ رجحان ساز تھے۔ ہمارے عہد طالب علمی میں یونیورسٹیاں تدریس کے جدید تصورات اور ذرائع سے ناآشنا تھیں۔ ایسے میں پورے ڈیپارٹمنٹ میں ڈاکٹر مغیث وہ واحد استاد تھے جن کا لیکچر پروجیکٹر پر ہوتا تھا۔ پورا لیکچر شستہ انگلش زبان میں ہوتا تھا۔ اسی دوران ہمارا ایک خود ساختہ شاعر اور دست شناس دوست کلیم اشرف بہت ہی مشکل اردو میں سوال کرتا تو محظوظ ہوتے۔ مسکراہٹ بھرے چہرے سے کبھی کبھی جھاڑ بھی پلا دیتے۔
پاکستانی یونیورسٹیوں میں کئی دہائیوں تک ہسٹاریکل ریسرچ کا رواج رہا۔ ڈاکٹر مغیث وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایم فل کے پہلے گروپ کے ساتھ ایمپیریکل ریسرچ کو یونیورسٹی میں متعارف کرایا۔ انہوں نے ڈاکٹر شفیق جالندھری کے ساتھ مل کر یونیسکو کے تعاون سے ملک کے پہلے تعلیمی ریڈیو اسٹیشن کی بنیاد رکھی جو اس وقت پورے ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ تھا۔
اسّی کی دہائی میں افغانستان میں روسی یلغاراور اس میں پاکستانی کردار کے بعد عالمی اور علاقائی سطح پر زبردست سیاسی، نظریاتی اور دانشورانہ کشمکش شروع ہو گئی تھی۔ مغربی پریس میں پاکستان دشمن پروپیگنڈا جوبن پر تھا اور مغرب میں اسلاموفوبیا نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ افغان جنگ کی کوریج کرنے والے صحافی اور ڈاکٹر مغیث کے رفیق دیرینہ، مجاہد منصوری کے مطابق ڈاکٹر مغیث پاکستانی دانشوروں کے اس گروپ کا حصہ تھے جس نے انسٹی ٹیوٹ آف افغان افیئرز جیسے اداروں کی بنیاد رکھی؛ اور پاکستان اور ملک دشمن پروپیگنڈے کے آگے نظریاتی حصار قائم کیا۔
اسی دوران وہ پی ایچ ڈی کرنے امریکا چلے گئے جہاں اپنی تعلیم کے دوران کارپوریٹ میڈیا پر سامراجی غلبے کے سب سے بڑے ناقد نوم چومسکی کے خیالات سے استفادے کا براہ ہ راست موقع ملا۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد انھیں امریکا میں ملازمت کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے ملک کو مقدم جانا اور پاکستان میں اپنی سابقہ ملازمت پر واپس آگئے۔
2005 کے زلزلے کے فوری بعد اپنے رضا کار طلبہ اور احباب کے ساتھ مظفر آباد پہنچے اور ''زندگی اک بار پھر مسکرائے گی'' کے نام سے ایک ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جس کی عالمی سطح پر پذیرائی کی گئی۔
2006 میں برطانیہ میں اسکالرشپ پر مزید تعلیم کےلیے جب میرا انتخاب ہوا اور میں مظفر آباد سے بطور خاص ڈاکٹر مغیث سے ملنے لاہور گیا تو ڈیپارٹمنٹ کے رنگ روپ بدل چکے تھے۔ آڈیٹوریم، میڈیا پروڈکشن ہاؤس اور کئی نئے شعبوں کے اجرا اور توسیع کے ساتھ انسٹی آف کمیونی کیشن کی شاندار عمارت، جو ڈاکٹر مغیث کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ وہ خوب سے خوب تر کے متلاشی رہے اور میڈیا ایجوکیشن کو جدید راہوں پر گامزن کرنے والے عملی معمار بنے۔ میں جب ان کے دفتر میں داخل ہوا تو ان کے سابق طلبہ نصراللہ ملک وغیرہ اور نوجوان صحافیوں کے ساتھ بھرپور محفل جما رکھی تھی۔ ملاقات پر جب میں نے برطانیہ کےلیے اپنی سلیکشن کا بتایا تو اٹھ کر دوبارہ گلے لگایا اور کاندھے پر تھپکی دی۔ اپنے شاگرد کی علمی کامیابی پر انہیں کتنی مسرت ہوئی ہوگی، اس وقت شاید میں اس کا اندازہ نہ کر پایا۔
بعد ازاں انگلینڈ آنے اور تعلیم کی تکمیل کے بعد میری اپنی ملازمت تعلیم و تدریس ہی میں ہوگئی۔ دس سال کے عرصے میں اپنے ان گنت طالب علموں کی علمی و عملی کامیابیوں پر مسرتوں اور فخر کا کیف جب خود محسوس کیا تو ڈاکٹر مغیث جیسے فاضل اساتذہ پر رشک آیا جو نصف صدی سے زائد عرصے تک ہزاروں تشنگان کو علم کے موتیوں سے فیض یاب کرکے ابدی مسرتوں سے لبریز ہوتے رہے۔
علم، اسلام اور پاکستان کے ساتھ ان کی محبت لازوال تھی۔
انسان دوستی کے جذبوں سے مزین ان کی شخصیت کے کئی مخفی گوشے کے شاہد وہ طالب علم ہیں جن کی مالی سرپرستی وہ کرتے رہے۔ ہمارے دوست ساجد امین، ڈاکٹر مغیث کی طرف سے مستحق طالب علموں کی عملی سرپرستی کے کئی واقعات سے واقف ہیں۔ بقول ساجد امین، ڈاکٹر مغیث سفید پوش گھرانوں کے طالب علموں کی مالی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے اور انتخاب میں جانچ پڑتال کا کڑا معیار بھی رکھتے تھے تاکہ اصلی مستحقین تک ہی ان کا حق پہنچے۔ وہ صحافتی اخلاقیات کے مبلغ ہی نہیں پیشہ ورانہ دیانت کا اک اجلا عملی کردار بھی تھے۔ وہ زندگی بھر علمی اور فکری انجمنوں کی جان اور دانش گاہوں کی پہچان رہے۔ کئی عالمی تحقیقی اداروں کے رُکن تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ کو نئے آہنگ عطا کرنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نئے امکانات کی تلاش اور اپنی قوم کےلیے کچھ کر گزرنے کی تڑپ نے انہیں مسلسل متحرک رکھا۔
بہت ساری بیماریوں کا جواں دلی سے مقابلہ کیا اور چار پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں میڈیا اسٹڈیز کے ادارے قائم کیے جو اُن کے کامیاب منتظم ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی زندگی میں علم دوستی ہی ان کا سب سے بڑا حوالہ تھا اور مرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جس عظیم مادر علمی میں انہوں نے چالیس برس سے زائد عرصے تک علم و دانش کے موتی بکھیرے، اسی جامعہ کے قبرستان کے ایک گوشے میں سپردِ خاک ہو گئے جہاں پہلے سے پروفیسر وارث میر، ڈاکٹر مسکین حجازی اور ڈاکٹر احسن ناز محوِ آرام ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈاکٹر مغیث ہمیں کمیونی کیشن پڑھاتے تھے اور مجھ سمیت ہمارے بیشتر کلاس فیلوز جس ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے، وہ اس ہاسٹل کے وارڈن بھی تھے۔ سو ہمیں ان کی شخصیت، ڈسپلن اور میرٹ کی پابندی کا قریبی مشاہدہ کرنے کے کئی مواقع میسر آئے۔ بطور وارڈن وہ ایک سخت گیر منتظم مشہور تھے مگر اپنے شاگردوں سے بے تکلفی، دوستی اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی کرتے تھے۔ ہاسٹل کینٹین میں رات گئے سجاد پراچہ، نعیم گل، مرزا جان وغیرہ جیسے سینئر طلبہ کے ساتھ جمی محفلوں، دعوتوں اور ملاقاتوں کا تذکرہ ان محفلوں میں شریک طلبا کو اشکبار کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر مغیث کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں: معلم، محقق، منتظم، مدبر اور ابلاغ کار۔ مگر وہ ہر شعبے کے امام تھے۔ وہ ابلاغیات کے بہت بڑے استاد ہی نہیں بہت شاندار ابلاغ کار اور مقرر بھی تھے جس کی دھاک اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی بٹھا چکے تھے۔ ان کی دل موہ لینے والی گفتگو کا مشاہدہ کلاس روم سے لے کر کئی قومی اور عالمی کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں کیا جہاں وہ بہت پر مغز اور مدلل گفتگو کرتے جو سامعین اور ناظرین کے دلوں پر نقش ہوجاتی۔ ہاسٹل اور اسپورٹس ویک کی تقریبات میں بعض اوقات مختصر مگر دلچسپ تقریر کرکے میلا لوٹ لیتے۔
ایک بار یونیورسٹی کے کسی فنکشن میں بہت سارے مقررین کے بعد جب ان کی باری آئی تو آتے ہی کہا کہ وہ آج دو تقریریں کریں گے۔ شرکا جو کئی مقررین کو بھگتا چکے تھے اور بھوک سے بے حال تھے، ان کا ماتھا ٹھنکا کہ اب تو اور بھی مارے گئے۔ اگلے ہی لمحے انھوں نے صرف دو جملے بولے: ''آپ کا شکریہ، آپ کا بے حد شکریہ!'' اتنا کہا اور واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ پنڈال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔ یہ ہے ان اداؤں کی ایک جھلک جن کے طفیل ڈاکٹر مغیث نے اپنے طلبہ اور چاہنے والوں کے دلوں پر کئی دہائیوں تک راج کیا۔
بطور استاد، ریسرچر اور منتظم وہ رجحان ساز تھے۔ ہمارے عہد طالب علمی میں یونیورسٹیاں تدریس کے جدید تصورات اور ذرائع سے ناآشنا تھیں۔ ایسے میں پورے ڈیپارٹمنٹ میں ڈاکٹر مغیث وہ واحد استاد تھے جن کا لیکچر پروجیکٹر پر ہوتا تھا۔ پورا لیکچر شستہ انگلش زبان میں ہوتا تھا۔ اسی دوران ہمارا ایک خود ساختہ شاعر اور دست شناس دوست کلیم اشرف بہت ہی مشکل اردو میں سوال کرتا تو محظوظ ہوتے۔ مسکراہٹ بھرے چہرے سے کبھی کبھی جھاڑ بھی پلا دیتے۔
پاکستانی یونیورسٹیوں میں کئی دہائیوں تک ہسٹاریکل ریسرچ کا رواج رہا۔ ڈاکٹر مغیث وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایم فل کے پہلے گروپ کے ساتھ ایمپیریکل ریسرچ کو یونیورسٹی میں متعارف کرایا۔ انہوں نے ڈاکٹر شفیق جالندھری کے ساتھ مل کر یونیسکو کے تعاون سے ملک کے پہلے تعلیمی ریڈیو اسٹیشن کی بنیاد رکھی جو اس وقت پورے ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ تھا۔
اسّی کی دہائی میں افغانستان میں روسی یلغاراور اس میں پاکستانی کردار کے بعد عالمی اور علاقائی سطح پر زبردست سیاسی، نظریاتی اور دانشورانہ کشمکش شروع ہو گئی تھی۔ مغربی پریس میں پاکستان دشمن پروپیگنڈا جوبن پر تھا اور مغرب میں اسلاموفوبیا نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ افغان جنگ کی کوریج کرنے والے صحافی اور ڈاکٹر مغیث کے رفیق دیرینہ، مجاہد منصوری کے مطابق ڈاکٹر مغیث پاکستانی دانشوروں کے اس گروپ کا حصہ تھے جس نے انسٹی ٹیوٹ آف افغان افیئرز جیسے اداروں کی بنیاد رکھی؛ اور پاکستان اور ملک دشمن پروپیگنڈے کے آگے نظریاتی حصار قائم کیا۔
اسی دوران وہ پی ایچ ڈی کرنے امریکا چلے گئے جہاں اپنی تعلیم کے دوران کارپوریٹ میڈیا پر سامراجی غلبے کے سب سے بڑے ناقد نوم چومسکی کے خیالات سے استفادے کا براہ ہ راست موقع ملا۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد انھیں امریکا میں ملازمت کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے ملک کو مقدم جانا اور پاکستان میں اپنی سابقہ ملازمت پر واپس آگئے۔
2005 کے زلزلے کے فوری بعد اپنے رضا کار طلبہ اور احباب کے ساتھ مظفر آباد پہنچے اور ''زندگی اک بار پھر مسکرائے گی'' کے نام سے ایک ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جس کی عالمی سطح پر پذیرائی کی گئی۔
2006 میں برطانیہ میں اسکالرشپ پر مزید تعلیم کےلیے جب میرا انتخاب ہوا اور میں مظفر آباد سے بطور خاص ڈاکٹر مغیث سے ملنے لاہور گیا تو ڈیپارٹمنٹ کے رنگ روپ بدل چکے تھے۔ آڈیٹوریم، میڈیا پروڈکشن ہاؤس اور کئی نئے شعبوں کے اجرا اور توسیع کے ساتھ انسٹی آف کمیونی کیشن کی شاندار عمارت، جو ڈاکٹر مغیث کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ وہ خوب سے خوب تر کے متلاشی رہے اور میڈیا ایجوکیشن کو جدید راہوں پر گامزن کرنے والے عملی معمار بنے۔ میں جب ان کے دفتر میں داخل ہوا تو ان کے سابق طلبہ نصراللہ ملک وغیرہ اور نوجوان صحافیوں کے ساتھ بھرپور محفل جما رکھی تھی۔ ملاقات پر جب میں نے برطانیہ کےلیے اپنی سلیکشن کا بتایا تو اٹھ کر دوبارہ گلے لگایا اور کاندھے پر تھپکی دی۔ اپنے شاگرد کی علمی کامیابی پر انہیں کتنی مسرت ہوئی ہوگی، اس وقت شاید میں اس کا اندازہ نہ کر پایا۔
بعد ازاں انگلینڈ آنے اور تعلیم کی تکمیل کے بعد میری اپنی ملازمت تعلیم و تدریس ہی میں ہوگئی۔ دس سال کے عرصے میں اپنے ان گنت طالب علموں کی علمی و عملی کامیابیوں پر مسرتوں اور فخر کا کیف جب خود محسوس کیا تو ڈاکٹر مغیث جیسے فاضل اساتذہ پر رشک آیا جو نصف صدی سے زائد عرصے تک ہزاروں تشنگان کو علم کے موتیوں سے فیض یاب کرکے ابدی مسرتوں سے لبریز ہوتے رہے۔
علم، اسلام اور پاکستان کے ساتھ ان کی محبت لازوال تھی۔
انسان دوستی کے جذبوں سے مزین ان کی شخصیت کے کئی مخفی گوشے کے شاہد وہ طالب علم ہیں جن کی مالی سرپرستی وہ کرتے رہے۔ ہمارے دوست ساجد امین، ڈاکٹر مغیث کی طرف سے مستحق طالب علموں کی عملی سرپرستی کے کئی واقعات سے واقف ہیں۔ بقول ساجد امین، ڈاکٹر مغیث سفید پوش گھرانوں کے طالب علموں کی مالی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے اور انتخاب میں جانچ پڑتال کا کڑا معیار بھی رکھتے تھے تاکہ اصلی مستحقین تک ہی ان کا حق پہنچے۔ وہ صحافتی اخلاقیات کے مبلغ ہی نہیں پیشہ ورانہ دیانت کا اک اجلا عملی کردار بھی تھے۔ وہ زندگی بھر علمی اور فکری انجمنوں کی جان اور دانش گاہوں کی پہچان رہے۔ کئی عالمی تحقیقی اداروں کے رُکن تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ کو نئے آہنگ عطا کرنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نئے امکانات کی تلاش اور اپنی قوم کےلیے کچھ کر گزرنے کی تڑپ نے انہیں مسلسل متحرک رکھا۔
بہت ساری بیماریوں کا جواں دلی سے مقابلہ کیا اور چار پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں میڈیا اسٹڈیز کے ادارے قائم کیے جو اُن کے کامیاب منتظم ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی زندگی میں علم دوستی ہی ان کا سب سے بڑا حوالہ تھا اور مرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جس عظیم مادر علمی میں انہوں نے چالیس برس سے زائد عرصے تک علم و دانش کے موتی بکھیرے، اسی جامعہ کے قبرستان کے ایک گوشے میں سپردِ خاک ہو گئے جہاں پہلے سے پروفیسر وارث میر، ڈاکٹر مسکین حجازی اور ڈاکٹر احسن ناز محوِ آرام ہیں۔
یہ تو سوچا بھی نہ تھا وہ مرجائے گا
چاند قبر کے سینے میں اتر جائے گا
(ایوب خاور)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔