41 برسوں سے جل رہے افغانستان سے امن اب بھی دور
افغانستان کو جنگوں اور خانہ جنگیوں سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ نے کوئی کردارادا نہیں کیا
لاہور:
( قسط نمبر23)
دنیا کے وہ تما م ممالک جن کی سرحدیں خشکی سے ملتی ہیں اگر یہ سرحدیں صحرائی یا بالکل غیر آباد علاقوں میں نہ ہوں تو عموماً سرحدوں کے دو نوں جانب کئی کئی کلو میٹر تک ایک ہی قوم نسل کے لوگ آباد ہو تے ہیں۔ یوں اِن کے معاشرتی ،ثقافتی ،تہذیبی، مذہبی معیارات بھی ایک جیسے ہو تے ہیں۔ اگر تاریخی اعتبار سے ایک ملک صدیوں سے دوسر ے ہمسایہ ملک پر غالب رہتا تو اس کے اثرات بھی آئندہ زمانوں تک رہتے ہیں۔ اسی طرح ایسے ملکوں کی سرحدوںکے دونوں جانب موسم اور ماحولیات میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے پھر بعض جگہوں پر تو یوں بھی ہو تا ہے کہ دریا بہتے ہو ئے ایک سے دوسر ے ملک میں جا تے اور پھر واپس بھی ہوتے ہیں جیسے دریا ئے کابل جو پاکستان سے افغانستا ن جا تا ہے اور پھر واپس پاکستان میں داخل ہو کر دریائے سندھ میں مل جا تا ہے۔ پاکستا ن کی سرحد یں افغانستان ، ایران، بھارت اورچین سے ملتی ہیں چین کی سرحد پر ہمالیہ کا بلند پہاڑی سلسلہ ہے اس لیے سرحدکے دونوں جانب ثقافتی ملاپ میں کافی غیر آباد علاقہ حائل ہے۔ ہند وستان کی تقسیم کے وقت چونکہ پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کے دونوں جانب قتل و غارت گری ہو ئی اس لئے ان میں ہمسائیگی کے رشتے کمزور ہیں لیکن ایران اور افغانستان سے عوامی سطحوں پر رشتے ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں۔
افغانستان ، پاکستان اور پھر کسی قدر ایران ، ازبکستان ، ترکمانستان اور تاجکستان پر سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی جارحیت کے اثرات مرتب ہو ئے۔ جہاں تک تعلق ترکمانستان ،ازبکستان اور تاجکستان کا ہے تو جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو یہ ممالک سوویت یونین کی ریاستیں تھیں۔ 1990-92 میں سوویت یونین کے بکھر جانے سے اِن ملکوں کے آزاد اور خود مختار ہو نے کی راہ ہموار ہو ئی ،یوں ان ملکوں پر افغان سوویت جنگ کے مثبت اثرات مرتب ہو ئے۔ البتہ 1992 کے بعد افغانستا ن میں ازبکستان نے بھی مداخلت کی اسی طرح ایران شروع ہی سے افغان سوویت جنگ سے متاثر ہوا مگر ایران نے حکمت عملی سے اپنے معاشرے کو جنگ کے منفی اثرات سے کا فی حد تک محفوظ کیا۔ سوویت یو نین نے افغا نستان میں فوجیں داخل کیں تو پا کستان میں افغان مہاجر ین کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ گئی، تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب مہاجرین نے ایران میںبھی پناہ لی لیکن ایران کی حکومت نے اِن مہاجرین کو اپنے شہروں میں آزادانہ رہائش اختیار کر نے کی اجازت نہیں دی اور کیمپوں تک محدود رکھا ۔
چین میں ماؤزے تنگ کے اشتراکی انقلاب تک انگریزوں نے افیون اوراس سے تیارکردہ منشیات کو یہاں فروغ دیا تھا اور کروڑوں چینی افیون کے عادی تھے،ماوزے تنگ نے انقلاب کے بعد چین میںمنشیات کی پید واراور اس کے استعمال کو انقلابی انداز سے ختم کردیا ۔اُس زمانے میںچین کی آزادی کے بعد اس علاقے میں ایک جانب سوویت یونین اور چین ویت نا م کی جنگ ِآزادی میں ویتنامیوں کی مدد کررہے تھے تو دوسری جانب یہاں نوآبادیاتی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے پہلے برطانیہ نے فرانس کی مدد کی پھر بعد میں امریکہ جنگ میں کود پڑا۔ سی آئی اے نے چین کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کے لیے اور پھر چین اور علاقے کے دوسرے ملکوں میں منشیات کے پھیلاو کے لیے افیون کی پیدا وار او رمنشیات خصوصاً ہیروئن کی تیاری کے لیے سمگلر وں اور بدمعاشوں کی درپردہ بہت مدد کی۔
1950 میں یہاں افیون کی سالانہ پیداوار 600 ٹن سے زیادہ تھی اس کاروبار میں برما میانمار کی فوج اور یہاں کا م کر نے والی آئل اینڈ گیس کی کمپنیاں بھی ملوث رہیں لیکن جب سوویت فوجیں افغانستان میںداخل ہو ئیں تو افیون کی پیداوار اور منشیات خصوصاً ہیروئن کی پیداوار کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز افغانستان بن گیااور اب تک منشیات کی پیداور اور تجارت کے لحاظ سے افغانستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی جارحیت کی وجہ سے افغانستان جنگ، خانہ جنگی ، بد امنی اور لاقانونیت کا شکار ہوا تھا اور پھر یہاں امریکہ ،بر طانیہ اور مغربی اتحاد کے دوسرے ممالک اور سوویت یونین ایک دوسرے کے خلاف تھے اور اس کے درمیان خصوصاً افغانستان اور پا کستان کے کروڑوں عوام تھے جن کے پُر امن اور مستحکم معاشرے میں افیون ،ہیروئن، مار فین اب عام ہو گئی تھی منشیات کاکاروبار کرنے والے انٹر نیشنل اسمگلر یہاں بھی زور پکڑگئے ا س صورتحال میں جدید اور خطر ناک اسلحہ بھی انہی بڑی قوتوں کی وجہ سے عام ہوا اور اس کے پھیلاو میں زیادہ کردار سابق سوویت یونین نے ادا کیا کہ1980 کی دہائی میں پا کستان میں کلاشنکوف کلچر معاشرے میں جڑیں مضبوط کر نے لگا۔
کلاشنکوف صرف دو ہزار روپے میں ملنے لگی۔ اس سے قبل بڑے بڑے قبائلی سرداروں ، نوابوںکے پاس عام رائفلز اور بندوقیں ہوتی تھیں اب قبائل نے اپنی دشمنوں کے لیے یہ جدید اسلحہ خریدنا شروع کیا۔ یہ خریداری میزائل ،دستی بم، بارودی سرنگوں تک جا پہنچی اور پاکستانی معاشرہ بدامنی اور بحران کا شکار ہو نے لگا۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ جتنے قبائلی سردار اور معتبرین 1980 کے بعد سے اب تک غیر طبعی طور پر جاں بحق ہوئے اتنی تعداد میں گذشتہ ڈیڑھ صدی میں ہلاک نہیں ہوئے۔ پھر 1980 میں جب پاک افغان سرحدوں پر افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف مجاہدین لڑ رہے تھے تو اِن سرحدوں کے ساتھ منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ جاری تھی اُس وقت بلوچستان کے ضلع چاغی میں ہیروئین کا عادی پہلا پاکستانی ملا تھا اور 1985 تک پاکستان میں ہیروئین کے عادی افراد کی تعداد 35 لاکھ ہو گئی تھی اور اب بعض اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے اسی طرح لاکھوں افراد کے پاس کلاشنکوف ،کلاکوف اور ایسا ہی جدید اسلحہ مو جود ہے ۔
افغانستان میں سوویت مداخلت اور اس کے بعد سے اب تک امن قائم نہیں ہو سکا جس کا سب سے زیادہ معاشرتی ،سماجی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور یہ نقصان اب تک متواتر جاری ہے۔ جنگوں اور خانہ جنگی میں معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ پاک، افغان معاشرے اس لحاظ سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور اس کے بعد جو صورت عراق، شام ، لیبیا ، یمن اور دیگر ملکوں کے معاشروں کی ہو رہی ہے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس ڈیکلریشن اور چارٹر کے لیے از خود ایک بہت بڑا تاریخی سوال ہے جس کا جواب اقوام متحدہ کے 75 سال پو رے ہو نے پر عالمی انسانیت کی پکار کے باوجود نہیں آرہا۔ 14 اپریل 1988 کو جنیوا معاہدے کے بعد نو ماہ میں سوویت یو نین نے اپنی فو جیں واپس بلوا لیں لیکن یہاں افغا نستان میں مجاہدین کے ساتھ لڑنے والی افغان حکومت جس کو غیر جمہوری انداز میں اور فوجی قوت سے سوویت یونین نے افغان عوام پر مسلط کیا تھا اس کو جنیوا معاہدے میں قانونی حیثیت بھی دی گئی اور اس کو امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی تسلیم کیا اور پھر اُس وقت افغانستان کے مسئلہ کا کوئی حل بھی تجویز نہیں کیا گیا اور اس موقع پر افغانستان میں صدر نجیب اللہ کی حکومت کو بڈگرام کے ایر بیس پر جدید لڑاکا طیاروں کے ساتھ اربوں ڈالر کے ٹینک ، توپیں ، میزائل اور دیگر اسلحہ مفت دے کر سوویت فوجیںافغا نستان سے واپس چلی گئیں۔
افغانستان پر مکمل قبضہ کا تاریخی تصور یہ رہا ہے کہ جس کا قبضہ کابل پر مستحکم ہو جائے اُسی کی حکومت افغا نستان پر تسلیم کی جاتی ہے۔ افغانستان میںبھی آبادی اپنے مخصوص لسانی ، قومی ، نسلی اور فرقہ وارانہ تناسب کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں آباد ہے، اور اسی تنوع کے لحاظ سے افغانستان کی سرحدی قربت سے منسلک ہے ، افغانستان کی سب سے بڑی آبادی 42 % پشتون آبادی ہے جو پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اسی طرح باقی لسانی ، قومی اور فرقے کے اعتبار سے آبادیوں کے گروپ ایران ، ازبکستان ،،ترکمنستان اور تاجکستان کی سرحدوں کے ساتھ آباد ہیں۔
یوں 1979-80 میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں جارحیت کی تو اس کے خلاف پورے ا فغانستان کے تمام علاقوں میں مز احمت شروع ہوئی اور کیونکہ یہ مزاحمت افغانستان کے سرکاری طور پر کیمونسٹ ہونے کے اعلانیہ پر ہوئی تھی اور افغانستان کی99% آبادی مسلمان ہے اس لیے اس مزاحمت کو جہاد قراردیا گیا اور لڑنے والے مجاہد ین کہلا ئے اور1980 میںجب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے23 کے مقابلے میں 116 ملکوں کی اکثریت سے سوویت یونین کے خلاف قرارداد منظور کی تو عملی طور پر پوری دنیا نے افغان عوام کے اس موقف کی تائید کی تھی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مجاہدین کی اس مسلح جد وجہد کو ایک مرکزیت نہیں دی گئی اور نہ صرف یہ کہ گروہی تقسیم رہی بلکہ لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہمسایہ ملکوں نے اپنے گروپوں کو مضبوط بنانے کو ترجیح دی۔ سب سے منفی انداز سوویت یونین اور امریکہ سمیت دیگر بڑی قوتوں نے اپنا یا جس کا واضح ثبوت 1988 کا جنیوا معاہدہ تھا جب افغا نستان سے سوویت یونین کی فوجیں واپس چلیں گئیں تو یہاں غالباً پا کستان ، ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی ریا ستوں میں بھی کسی کو یہ خبر نہیں یا یہ احساس نہیں تھا کہ خود سوویت یونین کے توڑنے اور یہاں سے اشتراکی نظام کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی بھی طے کر لی گئی ہے۔
غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے جنیوا معاہدے میں افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ صدر نجیب اللہ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے معاہد ے کا فریق بنانے پر رضامندی اختیار کی اور یوں افغانستان میں جنگ جاری رہی جو خانہ جنگی بھی کہلائی کہ اس میں صدر نجیب اللہ کی کیمو نسٹ حکومت اور اُسکی مسلح فوج میں بھی افغان تھے اور اُن کے خلاف لڑنے والے بھی مجاہدین بھی افغان تھے۔
صدر ببرک کارمل جو سوویت خفیہ ایجنسی کے جی پی کے خاص تربیت یا فتہ تھے وہ 27 دسمبر1979 کو مشرقی یورپ سے لا کر صدر بنا دیئے گئے تھے اور 4 دسمبر1986 تک 6 سال 332 دن صدر رہے اور جب جنیوا معاہدے سے قبل سوویت یونین نے یہ عندیہ دے دیا کہ وہ افغانستان سے اپنی فو جیں واپس بلا لے گا تو افغانستان کا یہ واحد کیمو نسٹ صدر تھا جس کو سوویت یونین نے زندہ افغانستان سے ماسکو بلوا لیا اور پھر وہ 1996 میں 67 برس کی عمر میں طبعی موت مرے یہ ببرک کارمل تھے جنہوں نے افغانستان میں مجاہدین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے پا کستان میں دہشت گردی کو فراوغ دیا یہاں اسلحہ پہنچایا اور اسی دور سے پاکستان کے شہروں میں بم دھماکے شروع ہوئے بعد میں صدر نجیب اللہ 30 ستمبر 1987 سے16 اپریل1992 تک افغانستان کے صدر رہے۔ واضح رہے کہ 1988 میں جنیو ا معاہدے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی جانب سے افغان مجاہدین کو اسلحہ کی سپلائی بند کر دی گئی تھی، اُوجڑی کیمپ آتشزدگی کے سبب تباہ ہو گیا تھا اور کابل کی فتح کے لیے لڑائی جاری تھی اس دوران مجاہدین کے گروپوں کو سعودی عرب ، ایران ، پاکستان اور ازبکستان کی جانب سے اپنے سیاسی اور اسٹرٹیجکل مفادا ت کے تحفظ کے لیے امداد جاری رہی۔
1991 میں سوویت یونین صدر گور با چوف کی اصلا حات گلاسنس اور پرسٹرائیکا کے تحت اشتراکیت بھی ترک کرنے لگا اور اپنی نو آبادیات کو بھی سیاسی طور پر آزاد کرنے کا عمل شروع کر دیا ۔ مشرقی یورپ میں وارسا گروپ کے اشتراکی ملکوں میں بھی تخت الٹ گئے تو صدر نجیب کی امداد بند ہو گئی۔ واضح رہے کہ سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد اگرچہ پورے افغانستان میں مجاہدین نے روسیوں اور افغانستان کی کیمو نسٹ حامی فوج کو بہت نقصان پہنچایا مگر کابل تقریباً محفوظ رہا تھا اب مجاہدین اور کیمونسٹوں کے گروپوں کے درمیان کابل پر قبضے پر جنگ شدت اختیار کر گئی تھی۔
احمد شاہ مسعود کابل کا محاصرہ کئے تھے ، برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار ،صبغت اللہ مجددی ، رشید دوستم سب ہی 1992 میں کابل پر قبضے کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔ 18 مارچ 1992 کو صدر نجیب اللہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ عبوری حکومت کے قیام کے لیے وہ مستعٰفی ہو جا تے ہیں مگر اب کیمونسٹوں میں گروپ بن گئے اور حکومت پر اُن کا کنٹرول نہیں رہا ، اس دوران صدر نجیب اللہ نے کابل سے فرار ہو نے کی بھی کو شش کی مگر رشید دوستم کی فورس کا کابل کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر قبضہ تھا جنہوں نے صدر نجیب کو فرار ہونے سے روک دیا بعد میں صدر نجیب اللہ نے کابل میں اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ لی۔ اپریل1992 میں پشاور معاہدہ میں مجاہدین گروپوں میں طے پا یا کہ اسلامی ریاستِ افغانستان کی حکومت کے لیے ایک سپریم کونسل بنائی جا ئے گی اور دو ماہ عبوری مدت کے لیے صبغت اللہ مجددی صدر ہوں گے۔
گلبدین حکمت یار کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی گئی جس پر اِن کی حزب اسلامی نے انکار کیا اور کابل میں داخل ہو نے کا اعلان کیا اس کے بعد 1992 میںبرہان الدین ربانی کی قیادت میں افغانستان کی اسلامی حکومت 1996 تک قائم رہی لیکن مجاہدین کے گروپ آپس میںاتحاد بھی کرتے رہے اور ایک ووسرے کے خلا ف لڑتے بھی رہے اور اس دوران یوںتو کئی گروپ اس خانہ جنگی میں شامل رہے۔
علاقائی سطح پر حزب ِ وحدت کو ایران کی حمایت رہی جب کہ جنبش ِ ملی اور اس کے لیڈر جنرل رشید دوستم کی پشت پناہی ازبکستان نے کی اور حزب ِاسلامی گلبدین حکمت یار کی مدد پا کستان نے کی مگر 1994 سے پاکستان نے گلبدین حکمت یار کی امداد بند کر دی اور یوں افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف حکمت یار نے لڑائی بند کردی۔ اسی زمانے سے طالبان کی قوت ابھری جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کی پشت پر پاکستان تھا اور پھر 1996 سے 27 دسمبر1997 تک طالبان بشمول کابل افغانستان کے 80% رقبے پر قابض ہو گئے جب کہ احمد شاہ مسعود ، ربانی متحدہ محاذ رشید دوستم کا 20% رقبے پر قبضہ رہا۔ 1996 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد صدر نجیب اللہ کو سر عام پھانسی دے دی گئی۔
27 ستمبر1996 سے 13 نومبر2001 تک افغانستان کے 80% رقبے پر طالبان کا قبضہ رہا۔ دارالحکومت کابل میں امارات اسلامی افغانستان سپریم کو نسل کے سربراہ ملا عمر تھے۔ وہ13 اپریل 1994 سے طالبان کے سربراہ بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کی خانہ جنگی میں شریک تما م مجاہدین گروپوں کو پسپاکرکے 80% رقبے پر قابض ہو گئے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف جہاد میں افغانیوں کے ساتھ سعودی عرب کے بھی مسلمان شریک ہوئے تھے جن میں سب سے اہم اُسامہ بن لادن تھے جو کروڑوں ڈالرکا ذاتی سر مایہ لے کر افغانستان آئے تھے اور سوویت یونین کے خلاف عملی جہاد میں شریک ہوئے اور مجاہدین کے ہمراہ سوویت فوج کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑتے رہے، یہاں تک کہ ایک لڑئی میں انہوں نے روسی فوجی افسر سے دست بدست لڑکر جو کلاشنکوف چھینی تھی وہ مرتے دم تک اُن کے پاس رہی۔ 1988 کے بعد جب افغانستان میں مجاہدین کے گروپ آپس میں اقتدار کی خاطر لڑنے لگے تو وہ مایوس ہو کر واپس سعودی عرب آگئے تھے۔
1991 میں عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا اور پھر امریکہ نے اسی بہانے عراق پر بھر پور حملہ کر دیا اس موقع پر سعودی عرب نے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے امریکی فوجی امداد پر انحصار کیا اور سعودی عرب میں امریکی فوجی آئے۔ یہ صورتحال اسلامی ممالک میں عوامی سطح پراچھی نظروں سے نہیں دیکھی گئی اور اسامہ بن لادن نے بھی سعودی عرب کے اِن اقدامات پر تنقید کی جس کے سبب اسامہ بن لادن کو سعودی عرب چھوڑنا پڑا اور وہ سوڈان چلے گئے، اب وہ امریکہ کے خلاف تھے اورسوڈان میں قیام کے دوران القاعدہ کی طرف سے نیروبی اور تنزانیہ میں امریکیوں کو نشانہ بنایا گیا تو اُن پر سوڈانی حکومت کا دباؤ بڑھ گیا اور اسامہ بن لادن کو سوڈان بھی چھوڑنا پڑا۔ 1996 میں کابل فتح ہو گیا تھا اور اسی زمانے میں بذریعہ طیارہ اسامہ بن لادن دوبارہ افغانستان آگئے۔ 12 اکتوبر1999 کو پاکستان کے آرمی چیف کے طیارے کو سری لنکا سے واپسی پر پاکستان اُترنے سے روکنے پر فوجی قیادت نے وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتار کر لیا اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ پہلے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر ہو ئے۔
افغانستان میں 1996 میں جب طالبان کی حکومت قائم ہو ئی تو تھوڑے عرصے بعد اس حکومت کو سعودی عرب اور پا کستا ن نے تسلیم کر لیا اور ایسا معلوم ہوا کہ اسے امریکہ بھی تسلیم کر لے گا مگر بعد میں صورت بدلنے لگی اور جب خصوصاً اُسامہ بن لادن افغانستان آگئے تو امریکہ نے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کردیا پھر یہ کہا کہ طالبان اُسامہ کو ملک بدر کر دیں مگر طالبان نے انکار کردیا جس پر 1997 میں بل کلنٹن کے حکم پر بحیرہ عرب سے جلال آباد کے قریب طورا بورا میں اُسامہ کے مرکز پر کروز میزائل داغے گئے۔ 1990-91 کے بعد سے پا کستان اور مریکہ میں قریبی تعلقات کا دور ختم ہو گیا تھا۔ صدر رونالڈ ریگن کے دور ِاقتدار میں پاکستان امریکہ کے تعلقات بہت دوستانہ رہے لیکن اُن کی صدرات کے آخری برسوں میں امریکہ کا واضح جھکاؤ بھارت کی جانب ہو نے لگا۔ بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی پر سوویت یونین کے صدر گو رباچوف نے واضح کر دیا تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں واپس بلا رہے ہیں۔
راجیو گا ندھی نے 20 اکتوبر 1987 کو امریکہ کا سرکاری دورہ کیا اور مشترکہ اعلانیہ میں صدر رونالڈ ریگن نے بھارت کے ساتھ بہت سے شعبوں میں تعاون کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ پا کستان اور بھارت میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی روک تھام کے بارے میں بھی بات کی جس پر راجیو نے کہا کہ بھارت اس کی تائید کرتا ہے اور بھارت کے پاس ایٹمی ہتھیا ر نہیں ہیں۔ راجیو گاندھی 2 دسمبر 1989 میں وزارت عظمٰی سے فارغ ہوئے اور 21 مئی 1991 کو انہیں خود کش بم حملے میں قتل کر دیا گیا۔ اُن کے بعد 1989 سے وشونت پرتاب سنگھ، چندرا شیکر، نرسیماراؤ، اٹل بہاری واجپائی، دیو گوواڈا، اندرکمار گجرال اور پھر دوبارہ اٹل بہاری واجپائی 1998 میں بھارت کے وزیر اعظم بنے تومئی1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر دئیے جن پر پاکستان نے کچھ دن انتظار کیا اور28 مئی1998 کو پاکستان نے بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے حساب برابر کر دیا۔
اس واقعہ کے دو سال تین ماہ اور چودہ دن بعد 11 ستمبر2001 کو غیر معمولی واقعہ رونما ہوا۔ دہشت گردوں نے چار مسافر بردار جہازوں کو اغوا کیا ، دو جہاز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دئے گئے، ایک جہاز نے واشنگٹن میں پینٹاگان کو نشانہ بنا یا جبکہ چوتھا اپنے ہدف کو نشانہ بنانے سے پہلے ہی مار گرایا گیا۔ امریکہ نے اس کا الزام القاعدہ اور اُسامہ بن لادن پر عائد کرتے ہو ئے طالبان حکومت سے اُسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔ جواب میں اُسامہ نے اِن حملوں سے لاتعلقی ظاہر کی۔ واضح رہے کہ اس سے دو روز قبل 9 ستمبر2001 کو احمد شاہ مسعود خود کُش حملے میں جاں بحق ہو چکے تھے اور طالبان اور القاعدہ نے اُس سے بھی لاتعلقی ظاہر کی تھی۔
امریکہ نے اپنے دفاع کے حق کی بنیاد پر دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کرتے ہو ئے افغانستان کے خلاف کاروائی شرع کر دی۔ صدر جارج بش نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ہاٹ لائن پر بات کی اور پرویز مشرف نے امریکہ کو تعاون فراہم کرنے کا یقین دلا دیا۔ امریکہ اور نیٹو افواج نے جدید ہتھیاروں کے ساتھ افغانستان کو بدترین بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس زمانے میں 2007 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت رہی جس میں صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف رہے ، اس دوران آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی رہے، اس دور میں پا کستان شدید نوعیت کی دہشت گرد کاروائیوں کا شکار رہا اور بھارت کا رویہ انتہائی جارحانہ ہو گیا۔ 5 جون 2013 سے 28 جولائی 2017 تک میاں نواز شریف اور اس کے بعد جون 2018 تک شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہوئے اور پھر تحریک انصاف کے عمران خان وزیر اعظم ہوئے۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد 2 مئی 2011 کو پاکستان میں غیر معمولی واقعہ پیش آیا ۔ امریکہ نے چار ہیلی کا پٹروں کی مدد سے حملہ کرکے ابیٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو شہید کر نے کا دعویٰ کیا۔ حملے کے چھ گھنٹوں کے اندر اُس کی لاش طیارے کے ذریعے سمندر میں کسی نامعلوم مقام پر پھینکنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ پاکستان پر اس لحا ظ سے امریکہ کا دباؤ مزید بڑھ گیا، صدر اوبامہ کی صدارت کی دوسری مدت میں ہی طے پایا کہ افغانستا ن سے امریکی فوجوں کو مرحلہ وار واپس بلوا یا جا ئے۔ 2002 میں افغانستان میں امریکی فوج 10000 تھی جو 2011 میں ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی پھر بتدریج کم ہوئی ۔
2015 سے2019 کے درمیان افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بیس ہزار سے دس ہزار کے درمیان رہی اور ساتھ ہی طالبان سے امن مذاکرت شروع کرنے کی بات ہوئی۔ اِن مراحل میں قطر میں طالبان کے نمانندوں سے بھی رابطے ہوئے تو ساتھ ہی مری میں امریکی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو ا ہی تھا کہ 29 جولائی2015 میں افغان مخبرات نے خبر دی کہ ملا عمر کا تو کراچی میں انتقال ہو چکا ہے، بعد میں اس کی تصدیق ہوئی کہ ملا عمر کا انتقال 23 اپریل 2013 میں ہو چکا تھا۔
بھارت میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے نریندرا مودی پہلے26 مئی 2014 کو منتخب ہوئے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2017 میں امریکہ کے صدر ہوئے۔ مودی 30 مئی2019 میں دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور اُس وقت سے بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر چین کے مقابلے کے لیے تیار ہوتا نظرآیا اور بھارت کی یہ کو شش رہی کہ طالبان سے امریکی مذاکرات کامیاب نہ ہوں۔ اسی دوران اگست 2019 کو مودی حکومت نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت کی ضمانت پراہم کرنے والی شقوں 370 اور 35A کو ختم کر دیا۔ اگرچہ اس کا افغان طالبان امریکہ مذاکرات سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن بھارت نے بھی افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کو یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر امریکہ طالبان مذکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو تجارتی، اقتصادی اور سیاسی طور پر بھارت کو اس کا نقصان پہنچے گا۔
دوسری جانب امریکی فوجوں کو اب افغانستان میں 19 واں سال ہے جو کسی ملک میں جنگ کی بنیاد پر امریکی فوج کے قیام کی سب سے بڑی مدت ہے۔ اس دوران بی بی سی28 فروری2020 کے مطابق 2002 سے2019 تک تقریباً 750 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات افغانستان میں ہو چکے ہیں جب کہ کل اخراجات کا 16% یعنی 137 ارب ڈالر 18 برسوں میں افغانستان کی تعمیر و ا ستحکام پر خرچ کئے گے۔
اِن میں سے85 ارب ڈالر افغانستان کے دفاع پر خصوصاً افغان نیشنل آرمی اور پولیس کو مضبو ط کرنے کے لیے خرچ کئے گئے۔ منشیات جو افغانستان سمیت پاکستا ن، ایران ، سنٹر ل ایشیا کے ممالک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اس کے خاتمے کے لیے امریکہ افغانستان میں یومیہ 15 لاکھ ڈالر خرچ کرتا رہا ہے اور 2002 سے اب تک یہ رقم 9 ارب ڈالر ہے جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق 2017 میں افغانستان میں افیون کے زیر کاشت رقبے میں ریکارڈ اضافہ ہوا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اربوں ڈالر کی رقم امریکیوں کی غفلت کی وجہ سے فراڈ اور بے قائدگیوں کی نذر ہو گئی۔ افغانستان میں 2002 سے 2019 تک 2300 امریکی فوجی ہلاک اور20660 زخمی ہوئے جب کہ گیارہ ہزار سویلین مارے گئے۔
حکومت کے مطابق 2014 سے2019 تک افغانستان میں45000 افغان فوجی جاںبحق ہوئے اور 2009 سے 2015 تک 35 ہزار سویلین جاںبحق ہوئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں امن مذاکرات کے دوران دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ وہ اگر چاہیں تو ایک کروڑ افراد ہلاک کر کے امن قائم کر دیں لیکن حالیہ مذاکرات سے ایک بار پھر اُمید ہو رہی ہے کہ41 سال سے جنگوں اور خانہ جنگیوں میں جلنے والے ملک کو امن کی اشد ضرورت ہے اور اب افغانستا ن سے خطے کے بہت سے ممالک کا امن اور ترقی وابستہ ہے، لیکن دوسری جانب اس بار2019 میں امریکہ کا دفاعی بجٹ تاریخ کابڑا دفاعی بجٹ ہے جس کا حجم 685 ارب ڈالر ہے جو دنیا کی باقی ٹاپ ٹین فوجی قوتوں کے 2019 کے مجموعی بجٹ 655 ارب ڈالر سے 30 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ افغانستان 41 برسوں سے جنگوں اور خانہ جنگیوں سے گزر رہا ہے اور بڑی قوتیں اعلانیہ یہ کہتی رہی ہیں کہ وہ یہاں اپنے مفادات کا تحفظ کریں گی، پراکسی جنگ میں مہرے افغانستان سے یا ہمسائے ملکوں سے چلائے جاتے ہیں، اور اقوام متحدہ کا حقیقی منصف کا کردار سکیو رٹی کونسل میں پانچ ویٹو پاوز کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے ۔ (جاری ہے)
( قسط نمبر23)
دنیا کے وہ تما م ممالک جن کی سرحدیں خشکی سے ملتی ہیں اگر یہ سرحدیں صحرائی یا بالکل غیر آباد علاقوں میں نہ ہوں تو عموماً سرحدوں کے دو نوں جانب کئی کئی کلو میٹر تک ایک ہی قوم نسل کے لوگ آباد ہو تے ہیں۔ یوں اِن کے معاشرتی ،ثقافتی ،تہذیبی، مذہبی معیارات بھی ایک جیسے ہو تے ہیں۔ اگر تاریخی اعتبار سے ایک ملک صدیوں سے دوسر ے ہمسایہ ملک پر غالب رہتا تو اس کے اثرات بھی آئندہ زمانوں تک رہتے ہیں۔ اسی طرح ایسے ملکوں کی سرحدوںکے دونوں جانب موسم اور ماحولیات میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے پھر بعض جگہوں پر تو یوں بھی ہو تا ہے کہ دریا بہتے ہو ئے ایک سے دوسر ے ملک میں جا تے اور پھر واپس بھی ہوتے ہیں جیسے دریا ئے کابل جو پاکستان سے افغانستا ن جا تا ہے اور پھر واپس پاکستان میں داخل ہو کر دریائے سندھ میں مل جا تا ہے۔ پاکستا ن کی سرحد یں افغانستان ، ایران، بھارت اورچین سے ملتی ہیں چین کی سرحد پر ہمالیہ کا بلند پہاڑی سلسلہ ہے اس لیے سرحدکے دونوں جانب ثقافتی ملاپ میں کافی غیر آباد علاقہ حائل ہے۔ ہند وستان کی تقسیم کے وقت چونکہ پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کے دونوں جانب قتل و غارت گری ہو ئی اس لئے ان میں ہمسائیگی کے رشتے کمزور ہیں لیکن ایران اور افغانستان سے عوامی سطحوں پر رشتے ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں۔
افغانستان ، پاکستان اور پھر کسی قدر ایران ، ازبکستان ، ترکمانستان اور تاجکستان پر سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی جارحیت کے اثرات مرتب ہو ئے۔ جہاں تک تعلق ترکمانستان ،ازبکستان اور تاجکستان کا ہے تو جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو یہ ممالک سوویت یونین کی ریاستیں تھیں۔ 1990-92 میں سوویت یونین کے بکھر جانے سے اِن ملکوں کے آزاد اور خود مختار ہو نے کی راہ ہموار ہو ئی ،یوں ان ملکوں پر افغان سوویت جنگ کے مثبت اثرات مرتب ہو ئے۔ البتہ 1992 کے بعد افغانستا ن میں ازبکستان نے بھی مداخلت کی اسی طرح ایران شروع ہی سے افغان سوویت جنگ سے متاثر ہوا مگر ایران نے حکمت عملی سے اپنے معاشرے کو جنگ کے منفی اثرات سے کا فی حد تک محفوظ کیا۔ سوویت یو نین نے افغا نستان میں فوجیں داخل کیں تو پا کستان میں افغان مہاجر ین کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ گئی، تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب مہاجرین نے ایران میںبھی پناہ لی لیکن ایران کی حکومت نے اِن مہاجرین کو اپنے شہروں میں آزادانہ رہائش اختیار کر نے کی اجازت نہیں دی اور کیمپوں تک محدود رکھا ۔
چین میں ماؤزے تنگ کے اشتراکی انقلاب تک انگریزوں نے افیون اوراس سے تیارکردہ منشیات کو یہاں فروغ دیا تھا اور کروڑوں چینی افیون کے عادی تھے،ماوزے تنگ نے انقلاب کے بعد چین میںمنشیات کی پید واراور اس کے استعمال کو انقلابی انداز سے ختم کردیا ۔اُس زمانے میںچین کی آزادی کے بعد اس علاقے میں ایک جانب سوویت یونین اور چین ویت نا م کی جنگ ِآزادی میں ویتنامیوں کی مدد کررہے تھے تو دوسری جانب یہاں نوآبادیاتی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے پہلے برطانیہ نے فرانس کی مدد کی پھر بعد میں امریکہ جنگ میں کود پڑا۔ سی آئی اے نے چین کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کے لیے اور پھر چین اور علاقے کے دوسرے ملکوں میں منشیات کے پھیلاو کے لیے افیون کی پیدا وار او رمنشیات خصوصاً ہیروئن کی تیاری کے لیے سمگلر وں اور بدمعاشوں کی درپردہ بہت مدد کی۔
1950 میں یہاں افیون کی سالانہ پیداوار 600 ٹن سے زیادہ تھی اس کاروبار میں برما میانمار کی فوج اور یہاں کا م کر نے والی آئل اینڈ گیس کی کمپنیاں بھی ملوث رہیں لیکن جب سوویت فوجیں افغانستان میںداخل ہو ئیں تو افیون کی پیداوار اور منشیات خصوصاً ہیروئن کی پیداوار کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز افغانستان بن گیااور اب تک منشیات کی پیداور اور تجارت کے لحاظ سے افغانستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی جارحیت کی وجہ سے افغانستان جنگ، خانہ جنگی ، بد امنی اور لاقانونیت کا شکار ہوا تھا اور پھر یہاں امریکہ ،بر طانیہ اور مغربی اتحاد کے دوسرے ممالک اور سوویت یونین ایک دوسرے کے خلاف تھے اور اس کے درمیان خصوصاً افغانستان اور پا کستان کے کروڑوں عوام تھے جن کے پُر امن اور مستحکم معاشرے میں افیون ،ہیروئن، مار فین اب عام ہو گئی تھی منشیات کاکاروبار کرنے والے انٹر نیشنل اسمگلر یہاں بھی زور پکڑگئے ا س صورتحال میں جدید اور خطر ناک اسلحہ بھی انہی بڑی قوتوں کی وجہ سے عام ہوا اور اس کے پھیلاو میں زیادہ کردار سابق سوویت یونین نے ادا کیا کہ1980 کی دہائی میں پا کستان میں کلاشنکوف کلچر معاشرے میں جڑیں مضبوط کر نے لگا۔
کلاشنکوف صرف دو ہزار روپے میں ملنے لگی۔ اس سے قبل بڑے بڑے قبائلی سرداروں ، نوابوںکے پاس عام رائفلز اور بندوقیں ہوتی تھیں اب قبائل نے اپنی دشمنوں کے لیے یہ جدید اسلحہ خریدنا شروع کیا۔ یہ خریداری میزائل ،دستی بم، بارودی سرنگوں تک جا پہنچی اور پاکستانی معاشرہ بدامنی اور بحران کا شکار ہو نے لگا۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ جتنے قبائلی سردار اور معتبرین 1980 کے بعد سے اب تک غیر طبعی طور پر جاں بحق ہوئے اتنی تعداد میں گذشتہ ڈیڑھ صدی میں ہلاک نہیں ہوئے۔ پھر 1980 میں جب پاک افغان سرحدوں پر افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف مجاہدین لڑ رہے تھے تو اِن سرحدوں کے ساتھ منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ جاری تھی اُس وقت بلوچستان کے ضلع چاغی میں ہیروئین کا عادی پہلا پاکستانی ملا تھا اور 1985 تک پاکستان میں ہیروئین کے عادی افراد کی تعداد 35 لاکھ ہو گئی تھی اور اب بعض اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے اسی طرح لاکھوں افراد کے پاس کلاشنکوف ،کلاکوف اور ایسا ہی جدید اسلحہ مو جود ہے ۔
افغانستان میں سوویت مداخلت اور اس کے بعد سے اب تک امن قائم نہیں ہو سکا جس کا سب سے زیادہ معاشرتی ،سماجی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور یہ نقصان اب تک متواتر جاری ہے۔ جنگوں اور خانہ جنگی میں معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ پاک، افغان معاشرے اس لحاظ سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور اس کے بعد جو صورت عراق، شام ، لیبیا ، یمن اور دیگر ملکوں کے معاشروں کی ہو رہی ہے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس ڈیکلریشن اور چارٹر کے لیے از خود ایک بہت بڑا تاریخی سوال ہے جس کا جواب اقوام متحدہ کے 75 سال پو رے ہو نے پر عالمی انسانیت کی پکار کے باوجود نہیں آرہا۔ 14 اپریل 1988 کو جنیوا معاہدے کے بعد نو ماہ میں سوویت یو نین نے اپنی فو جیں واپس بلوا لیں لیکن یہاں افغا نستان میں مجاہدین کے ساتھ لڑنے والی افغان حکومت جس کو غیر جمہوری انداز میں اور فوجی قوت سے سوویت یونین نے افغان عوام پر مسلط کیا تھا اس کو جنیوا معاہدے میں قانونی حیثیت بھی دی گئی اور اس کو امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی تسلیم کیا اور پھر اُس وقت افغانستان کے مسئلہ کا کوئی حل بھی تجویز نہیں کیا گیا اور اس موقع پر افغانستان میں صدر نجیب اللہ کی حکومت کو بڈگرام کے ایر بیس پر جدید لڑاکا طیاروں کے ساتھ اربوں ڈالر کے ٹینک ، توپیں ، میزائل اور دیگر اسلحہ مفت دے کر سوویت فوجیںافغا نستان سے واپس چلی گئیں۔
افغانستان پر مکمل قبضہ کا تاریخی تصور یہ رہا ہے کہ جس کا قبضہ کابل پر مستحکم ہو جائے اُسی کی حکومت افغا نستان پر تسلیم کی جاتی ہے۔ افغانستان میںبھی آبادی اپنے مخصوص لسانی ، قومی ، نسلی اور فرقہ وارانہ تناسب کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں آباد ہے، اور اسی تنوع کے لحاظ سے افغانستان کی سرحدی قربت سے منسلک ہے ، افغانستان کی سب سے بڑی آبادی 42 % پشتون آبادی ہے جو پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اسی طرح باقی لسانی ، قومی اور فرقے کے اعتبار سے آبادیوں کے گروپ ایران ، ازبکستان ،،ترکمنستان اور تاجکستان کی سرحدوں کے ساتھ آباد ہیں۔
یوں 1979-80 میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں جارحیت کی تو اس کے خلاف پورے ا فغانستان کے تمام علاقوں میں مز احمت شروع ہوئی اور کیونکہ یہ مزاحمت افغانستان کے سرکاری طور پر کیمونسٹ ہونے کے اعلانیہ پر ہوئی تھی اور افغانستان کی99% آبادی مسلمان ہے اس لیے اس مزاحمت کو جہاد قراردیا گیا اور لڑنے والے مجاہد ین کہلا ئے اور1980 میںجب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے23 کے مقابلے میں 116 ملکوں کی اکثریت سے سوویت یونین کے خلاف قرارداد منظور کی تو عملی طور پر پوری دنیا نے افغان عوام کے اس موقف کی تائید کی تھی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مجاہدین کی اس مسلح جد وجہد کو ایک مرکزیت نہیں دی گئی اور نہ صرف یہ کہ گروہی تقسیم رہی بلکہ لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہمسایہ ملکوں نے اپنے گروپوں کو مضبوط بنانے کو ترجیح دی۔ سب سے منفی انداز سوویت یونین اور امریکہ سمیت دیگر بڑی قوتوں نے اپنا یا جس کا واضح ثبوت 1988 کا جنیوا معاہدہ تھا جب افغا نستان سے سوویت یونین کی فوجیں واپس چلیں گئیں تو یہاں غالباً پا کستان ، ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی ریا ستوں میں بھی کسی کو یہ خبر نہیں یا یہ احساس نہیں تھا کہ خود سوویت یونین کے توڑنے اور یہاں سے اشتراکی نظام کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی بھی طے کر لی گئی ہے۔
غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے جنیوا معاہدے میں افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ صدر نجیب اللہ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے معاہد ے کا فریق بنانے پر رضامندی اختیار کی اور یوں افغانستان میں جنگ جاری رہی جو خانہ جنگی بھی کہلائی کہ اس میں صدر نجیب اللہ کی کیمو نسٹ حکومت اور اُسکی مسلح فوج میں بھی افغان تھے اور اُن کے خلاف لڑنے والے بھی مجاہدین بھی افغان تھے۔
صدر ببرک کارمل جو سوویت خفیہ ایجنسی کے جی پی کے خاص تربیت یا فتہ تھے وہ 27 دسمبر1979 کو مشرقی یورپ سے لا کر صدر بنا دیئے گئے تھے اور 4 دسمبر1986 تک 6 سال 332 دن صدر رہے اور جب جنیوا معاہدے سے قبل سوویت یونین نے یہ عندیہ دے دیا کہ وہ افغانستان سے اپنی فو جیں واپس بلا لے گا تو افغانستان کا یہ واحد کیمو نسٹ صدر تھا جس کو سوویت یونین نے زندہ افغانستان سے ماسکو بلوا لیا اور پھر وہ 1996 میں 67 برس کی عمر میں طبعی موت مرے یہ ببرک کارمل تھے جنہوں نے افغانستان میں مجاہدین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے پا کستان میں دہشت گردی کو فراوغ دیا یہاں اسلحہ پہنچایا اور اسی دور سے پاکستان کے شہروں میں بم دھماکے شروع ہوئے بعد میں صدر نجیب اللہ 30 ستمبر 1987 سے16 اپریل1992 تک افغانستان کے صدر رہے۔ واضح رہے کہ 1988 میں جنیو ا معاہدے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی جانب سے افغان مجاہدین کو اسلحہ کی سپلائی بند کر دی گئی تھی، اُوجڑی کیمپ آتشزدگی کے سبب تباہ ہو گیا تھا اور کابل کی فتح کے لیے لڑائی جاری تھی اس دوران مجاہدین کے گروپوں کو سعودی عرب ، ایران ، پاکستان اور ازبکستان کی جانب سے اپنے سیاسی اور اسٹرٹیجکل مفادا ت کے تحفظ کے لیے امداد جاری رہی۔
1991 میں سوویت یونین صدر گور با چوف کی اصلا حات گلاسنس اور پرسٹرائیکا کے تحت اشتراکیت بھی ترک کرنے لگا اور اپنی نو آبادیات کو بھی سیاسی طور پر آزاد کرنے کا عمل شروع کر دیا ۔ مشرقی یورپ میں وارسا گروپ کے اشتراکی ملکوں میں بھی تخت الٹ گئے تو صدر نجیب کی امداد بند ہو گئی۔ واضح رہے کہ سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد اگرچہ پورے افغانستان میں مجاہدین نے روسیوں اور افغانستان کی کیمو نسٹ حامی فوج کو بہت نقصان پہنچایا مگر کابل تقریباً محفوظ رہا تھا اب مجاہدین اور کیمونسٹوں کے گروپوں کے درمیان کابل پر قبضے پر جنگ شدت اختیار کر گئی تھی۔
احمد شاہ مسعود کابل کا محاصرہ کئے تھے ، برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار ،صبغت اللہ مجددی ، رشید دوستم سب ہی 1992 میں کابل پر قبضے کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔ 18 مارچ 1992 کو صدر نجیب اللہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ عبوری حکومت کے قیام کے لیے وہ مستعٰفی ہو جا تے ہیں مگر اب کیمونسٹوں میں گروپ بن گئے اور حکومت پر اُن کا کنٹرول نہیں رہا ، اس دوران صدر نجیب اللہ نے کابل سے فرار ہو نے کی بھی کو شش کی مگر رشید دوستم کی فورس کا کابل کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر قبضہ تھا جنہوں نے صدر نجیب کو فرار ہونے سے روک دیا بعد میں صدر نجیب اللہ نے کابل میں اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ لی۔ اپریل1992 میں پشاور معاہدہ میں مجاہدین گروپوں میں طے پا یا کہ اسلامی ریاستِ افغانستان کی حکومت کے لیے ایک سپریم کونسل بنائی جا ئے گی اور دو ماہ عبوری مدت کے لیے صبغت اللہ مجددی صدر ہوں گے۔
گلبدین حکمت یار کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی گئی جس پر اِن کی حزب اسلامی نے انکار کیا اور کابل میں داخل ہو نے کا اعلان کیا اس کے بعد 1992 میںبرہان الدین ربانی کی قیادت میں افغانستان کی اسلامی حکومت 1996 تک قائم رہی لیکن مجاہدین کے گروپ آپس میںاتحاد بھی کرتے رہے اور ایک ووسرے کے خلا ف لڑتے بھی رہے اور اس دوران یوںتو کئی گروپ اس خانہ جنگی میں شامل رہے۔
علاقائی سطح پر حزب ِ وحدت کو ایران کی حمایت رہی جب کہ جنبش ِ ملی اور اس کے لیڈر جنرل رشید دوستم کی پشت پناہی ازبکستان نے کی اور حزب ِاسلامی گلبدین حکمت یار کی مدد پا کستان نے کی مگر 1994 سے پاکستان نے گلبدین حکمت یار کی امداد بند کر دی اور یوں افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف حکمت یار نے لڑائی بند کردی۔ اسی زمانے سے طالبان کی قوت ابھری جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کی پشت پر پاکستان تھا اور پھر 1996 سے 27 دسمبر1997 تک طالبان بشمول کابل افغانستان کے 80% رقبے پر قابض ہو گئے جب کہ احمد شاہ مسعود ، ربانی متحدہ محاذ رشید دوستم کا 20% رقبے پر قبضہ رہا۔ 1996 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد صدر نجیب اللہ کو سر عام پھانسی دے دی گئی۔
27 ستمبر1996 سے 13 نومبر2001 تک افغانستان کے 80% رقبے پر طالبان کا قبضہ رہا۔ دارالحکومت کابل میں امارات اسلامی افغانستان سپریم کو نسل کے سربراہ ملا عمر تھے۔ وہ13 اپریل 1994 سے طالبان کے سربراہ بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کی خانہ جنگی میں شریک تما م مجاہدین گروپوں کو پسپاکرکے 80% رقبے پر قابض ہو گئے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف جہاد میں افغانیوں کے ساتھ سعودی عرب کے بھی مسلمان شریک ہوئے تھے جن میں سب سے اہم اُسامہ بن لادن تھے جو کروڑوں ڈالرکا ذاتی سر مایہ لے کر افغانستان آئے تھے اور سوویت یونین کے خلاف عملی جہاد میں شریک ہوئے اور مجاہدین کے ہمراہ سوویت فوج کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑتے رہے، یہاں تک کہ ایک لڑئی میں انہوں نے روسی فوجی افسر سے دست بدست لڑکر جو کلاشنکوف چھینی تھی وہ مرتے دم تک اُن کے پاس رہی۔ 1988 کے بعد جب افغانستان میں مجاہدین کے گروپ آپس میں اقتدار کی خاطر لڑنے لگے تو وہ مایوس ہو کر واپس سعودی عرب آگئے تھے۔
1991 میں عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا اور پھر امریکہ نے اسی بہانے عراق پر بھر پور حملہ کر دیا اس موقع پر سعودی عرب نے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے امریکی فوجی امداد پر انحصار کیا اور سعودی عرب میں امریکی فوجی آئے۔ یہ صورتحال اسلامی ممالک میں عوامی سطح پراچھی نظروں سے نہیں دیکھی گئی اور اسامہ بن لادن نے بھی سعودی عرب کے اِن اقدامات پر تنقید کی جس کے سبب اسامہ بن لادن کو سعودی عرب چھوڑنا پڑا اور وہ سوڈان چلے گئے، اب وہ امریکہ کے خلاف تھے اورسوڈان میں قیام کے دوران القاعدہ کی طرف سے نیروبی اور تنزانیہ میں امریکیوں کو نشانہ بنایا گیا تو اُن پر سوڈانی حکومت کا دباؤ بڑھ گیا اور اسامہ بن لادن کو سوڈان بھی چھوڑنا پڑا۔ 1996 میں کابل فتح ہو گیا تھا اور اسی زمانے میں بذریعہ طیارہ اسامہ بن لادن دوبارہ افغانستان آگئے۔ 12 اکتوبر1999 کو پاکستان کے آرمی چیف کے طیارے کو سری لنکا سے واپسی پر پاکستان اُترنے سے روکنے پر فوجی قیادت نے وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتار کر لیا اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ پہلے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر ہو ئے۔
افغانستان میں 1996 میں جب طالبان کی حکومت قائم ہو ئی تو تھوڑے عرصے بعد اس حکومت کو سعودی عرب اور پا کستا ن نے تسلیم کر لیا اور ایسا معلوم ہوا کہ اسے امریکہ بھی تسلیم کر لے گا مگر بعد میں صورت بدلنے لگی اور جب خصوصاً اُسامہ بن لادن افغانستان آگئے تو امریکہ نے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کردیا پھر یہ کہا کہ طالبان اُسامہ کو ملک بدر کر دیں مگر طالبان نے انکار کردیا جس پر 1997 میں بل کلنٹن کے حکم پر بحیرہ عرب سے جلال آباد کے قریب طورا بورا میں اُسامہ کے مرکز پر کروز میزائل داغے گئے۔ 1990-91 کے بعد سے پا کستان اور مریکہ میں قریبی تعلقات کا دور ختم ہو گیا تھا۔ صدر رونالڈ ریگن کے دور ِاقتدار میں پاکستان امریکہ کے تعلقات بہت دوستانہ رہے لیکن اُن کی صدرات کے آخری برسوں میں امریکہ کا واضح جھکاؤ بھارت کی جانب ہو نے لگا۔ بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی پر سوویت یونین کے صدر گو رباچوف نے واضح کر دیا تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں واپس بلا رہے ہیں۔
راجیو گا ندھی نے 20 اکتوبر 1987 کو امریکہ کا سرکاری دورہ کیا اور مشترکہ اعلانیہ میں صدر رونالڈ ریگن نے بھارت کے ساتھ بہت سے شعبوں میں تعاون کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ پا کستان اور بھارت میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی روک تھام کے بارے میں بھی بات کی جس پر راجیو نے کہا کہ بھارت اس کی تائید کرتا ہے اور بھارت کے پاس ایٹمی ہتھیا ر نہیں ہیں۔ راجیو گاندھی 2 دسمبر 1989 میں وزارت عظمٰی سے فارغ ہوئے اور 21 مئی 1991 کو انہیں خود کش بم حملے میں قتل کر دیا گیا۔ اُن کے بعد 1989 سے وشونت پرتاب سنگھ، چندرا شیکر، نرسیماراؤ، اٹل بہاری واجپائی، دیو گوواڈا، اندرکمار گجرال اور پھر دوبارہ اٹل بہاری واجپائی 1998 میں بھارت کے وزیر اعظم بنے تومئی1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر دئیے جن پر پاکستان نے کچھ دن انتظار کیا اور28 مئی1998 کو پاکستان نے بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے حساب برابر کر دیا۔
اس واقعہ کے دو سال تین ماہ اور چودہ دن بعد 11 ستمبر2001 کو غیر معمولی واقعہ رونما ہوا۔ دہشت گردوں نے چار مسافر بردار جہازوں کو اغوا کیا ، دو جہاز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دئے گئے، ایک جہاز نے واشنگٹن میں پینٹاگان کو نشانہ بنا یا جبکہ چوتھا اپنے ہدف کو نشانہ بنانے سے پہلے ہی مار گرایا گیا۔ امریکہ نے اس کا الزام القاعدہ اور اُسامہ بن لادن پر عائد کرتے ہو ئے طالبان حکومت سے اُسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔ جواب میں اُسامہ نے اِن حملوں سے لاتعلقی ظاہر کی۔ واضح رہے کہ اس سے دو روز قبل 9 ستمبر2001 کو احمد شاہ مسعود خود کُش حملے میں جاں بحق ہو چکے تھے اور طالبان اور القاعدہ نے اُس سے بھی لاتعلقی ظاہر کی تھی۔
امریکہ نے اپنے دفاع کے حق کی بنیاد پر دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کرتے ہو ئے افغانستان کے خلاف کاروائی شرع کر دی۔ صدر جارج بش نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ہاٹ لائن پر بات کی اور پرویز مشرف نے امریکہ کو تعاون فراہم کرنے کا یقین دلا دیا۔ امریکہ اور نیٹو افواج نے جدید ہتھیاروں کے ساتھ افغانستان کو بدترین بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس زمانے میں 2007 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت رہی جس میں صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف رہے ، اس دوران آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی رہے، اس دور میں پا کستان شدید نوعیت کی دہشت گرد کاروائیوں کا شکار رہا اور بھارت کا رویہ انتہائی جارحانہ ہو گیا۔ 5 جون 2013 سے 28 جولائی 2017 تک میاں نواز شریف اور اس کے بعد جون 2018 تک شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہوئے اور پھر تحریک انصاف کے عمران خان وزیر اعظم ہوئے۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد 2 مئی 2011 کو پاکستان میں غیر معمولی واقعہ پیش آیا ۔ امریکہ نے چار ہیلی کا پٹروں کی مدد سے حملہ کرکے ابیٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو شہید کر نے کا دعویٰ کیا۔ حملے کے چھ گھنٹوں کے اندر اُس کی لاش طیارے کے ذریعے سمندر میں کسی نامعلوم مقام پر پھینکنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ پاکستان پر اس لحا ظ سے امریکہ کا دباؤ مزید بڑھ گیا، صدر اوبامہ کی صدارت کی دوسری مدت میں ہی طے پایا کہ افغانستا ن سے امریکی فوجوں کو مرحلہ وار واپس بلوا یا جا ئے۔ 2002 میں افغانستان میں امریکی فوج 10000 تھی جو 2011 میں ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی پھر بتدریج کم ہوئی ۔
2015 سے2019 کے درمیان افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بیس ہزار سے دس ہزار کے درمیان رہی اور ساتھ ہی طالبان سے امن مذاکرت شروع کرنے کی بات ہوئی۔ اِن مراحل میں قطر میں طالبان کے نمانندوں سے بھی رابطے ہوئے تو ساتھ ہی مری میں امریکی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو ا ہی تھا کہ 29 جولائی2015 میں افغان مخبرات نے خبر دی کہ ملا عمر کا تو کراچی میں انتقال ہو چکا ہے، بعد میں اس کی تصدیق ہوئی کہ ملا عمر کا انتقال 23 اپریل 2013 میں ہو چکا تھا۔
بھارت میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے نریندرا مودی پہلے26 مئی 2014 کو منتخب ہوئے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2017 میں امریکہ کے صدر ہوئے۔ مودی 30 مئی2019 میں دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور اُس وقت سے بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر چین کے مقابلے کے لیے تیار ہوتا نظرآیا اور بھارت کی یہ کو شش رہی کہ طالبان سے امریکی مذاکرات کامیاب نہ ہوں۔ اسی دوران اگست 2019 کو مودی حکومت نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت کی ضمانت پراہم کرنے والی شقوں 370 اور 35A کو ختم کر دیا۔ اگرچہ اس کا افغان طالبان امریکہ مذاکرات سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن بھارت نے بھی افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کو یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر امریکہ طالبان مذکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو تجارتی، اقتصادی اور سیاسی طور پر بھارت کو اس کا نقصان پہنچے گا۔
دوسری جانب امریکی فوجوں کو اب افغانستان میں 19 واں سال ہے جو کسی ملک میں جنگ کی بنیاد پر امریکی فوج کے قیام کی سب سے بڑی مدت ہے۔ اس دوران بی بی سی28 فروری2020 کے مطابق 2002 سے2019 تک تقریباً 750 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات افغانستان میں ہو چکے ہیں جب کہ کل اخراجات کا 16% یعنی 137 ارب ڈالر 18 برسوں میں افغانستان کی تعمیر و ا ستحکام پر خرچ کئے گے۔
اِن میں سے85 ارب ڈالر افغانستان کے دفاع پر خصوصاً افغان نیشنل آرمی اور پولیس کو مضبو ط کرنے کے لیے خرچ کئے گئے۔ منشیات جو افغانستان سمیت پاکستا ن، ایران ، سنٹر ل ایشیا کے ممالک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اس کے خاتمے کے لیے امریکہ افغانستان میں یومیہ 15 لاکھ ڈالر خرچ کرتا رہا ہے اور 2002 سے اب تک یہ رقم 9 ارب ڈالر ہے جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق 2017 میں افغانستان میں افیون کے زیر کاشت رقبے میں ریکارڈ اضافہ ہوا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اربوں ڈالر کی رقم امریکیوں کی غفلت کی وجہ سے فراڈ اور بے قائدگیوں کی نذر ہو گئی۔ افغانستان میں 2002 سے 2019 تک 2300 امریکی فوجی ہلاک اور20660 زخمی ہوئے جب کہ گیارہ ہزار سویلین مارے گئے۔
حکومت کے مطابق 2014 سے2019 تک افغانستان میں45000 افغان فوجی جاںبحق ہوئے اور 2009 سے 2015 تک 35 ہزار سویلین جاںبحق ہوئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں امن مذاکرات کے دوران دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ وہ اگر چاہیں تو ایک کروڑ افراد ہلاک کر کے امن قائم کر دیں لیکن حالیہ مذاکرات سے ایک بار پھر اُمید ہو رہی ہے کہ41 سال سے جنگوں اور خانہ جنگیوں میں جلنے والے ملک کو امن کی اشد ضرورت ہے اور اب افغانستا ن سے خطے کے بہت سے ممالک کا امن اور ترقی وابستہ ہے، لیکن دوسری جانب اس بار2019 میں امریکہ کا دفاعی بجٹ تاریخ کابڑا دفاعی بجٹ ہے جس کا حجم 685 ارب ڈالر ہے جو دنیا کی باقی ٹاپ ٹین فوجی قوتوں کے 2019 کے مجموعی بجٹ 655 ارب ڈالر سے 30 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ افغانستان 41 برسوں سے جنگوں اور خانہ جنگیوں سے گزر رہا ہے اور بڑی قوتیں اعلانیہ یہ کہتی رہی ہیں کہ وہ یہاں اپنے مفادات کا تحفظ کریں گی، پراکسی جنگ میں مہرے افغانستان سے یا ہمسائے ملکوں سے چلائے جاتے ہیں، اور اقوام متحدہ کا حقیقی منصف کا کردار سکیو رٹی کونسل میں پانچ ویٹو پاوز کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے ۔ (جاری ہے)