ذرا اسلام آباد
تین چارمہینےایک چاردیواری میں محبوس رہ کراندازہ ہوا کہ نیلسن منڈیلا نے27 برس ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں کس طریقےسےگزارے
کتابوں میں پڑھا اور بزرگوں سے سنا تو تھا کہ قیدِ تنہائی میں انسانی دماغ کے ساتھ ساتھ انسانی جسم بھی ناقابلِ بیان اذیتوں سے گزرتا ہے مگر اِ س کورونا نے کم وبیش ہر انسان کو اس کیفیت سے کسی نہ کسی حد تک روشناس کرا دیا ہے کہ لاک ڈاؤنز کے نام تو دنیا کے مختلف علاقوں میں بدلتے رہے ہیں مگر اس کا مزہ ہر کسی نے چکھ لیا ہے، تین چار مہینے ایک ہی چار دیواری میں محبوس رہ کر اندازہ ہوا کہ نیلسن منڈیلا نے 27 برس ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں کس طریقے سے گزارے ہوں گے۔
سائنس کی کسی کتاب میں پڑھا تھاکہ جب انسان اپنے جسم کے کسی حصے سے کام لینا بند کر دیتا ہے تو وہ بھی غیر فعال ہو جاتا ہے یا پھر اس کی نقل و حرکت میں واضح کمی آ جاتی ہے اور یہ متاثرہ حصے اپنے معمول پر آنے کے لیے بہت وقت لیتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ اس کر ونائی نظر بندی میں دیکھنے کو ملا کہ مسلسل بیٹھے یا لیٹے رہنے اور بہت کم چلنے کے باعث ہماری ٹانگیں بھی تیز اور زیادہ چلنے میں دِقت محسوس کرنے لگتی ہیں۔
میرے ساتھ اضافی مسئلہ یہ ہو ا کہ اس دوران میں دوبار علاحدہ علاحدہ میری دونوں ٹانگوں اور پاؤں پر چوٹیں لگیں جو اگرچہ بہت زیادہ خطرناک نوعیت کی نہیں تھیں مگر اُن کی وجہ سے تقریباً ایک ماہ میری نقل و حرکت میرے بیڈ روم اور اس سے چند قدم دور واقع لابی تک محدود ہو گئی اور اُس کے بعد سے اب تک مجھے تیز تو کیا عام رفتار سے چلنے میں بھی دِقت ہو رہی ہے جس کا زیادہ اثر گزشتہ تین چار دن میں دیکھنے میں آیا کہ لاہور سے اسلام آباد تک تو ایک ہی سیٹ پر بیٹھے رہنے کی وجہ سے خیریت رہی مگر بیٹی روشین کے گھر میں داخلے کی تین چار سیڑھیاں ایک پہاڑی کی شکل اختیار کر گئیں چونکہ پہلے کبھی ایسے ہوا نہیں تھا اس لیے یہ تجربہ اور بھی زیادہ ناخوشگوار لگا اور اگلے دو دن ہر جگہ سیڑھیوں کے رُوبرو ایسی ہی کیفیت سے گزرنا پڑا اگر چہ آہستہ آہستہ اس کیفیت میں مسلسل کمی آ رہی ہے مگر یہ احساس مسلسل دماغ کو گھیرے ہوئے ہے کہ جو لوگ نیلسن منڈیلا کی طرح زیادہ عرصہ جیلوں میں اور بالخصوص قیدِ تنہائی میں رہے ہیں اُن پر کیا گزرتی ہو گی۔ اسلام آباد جانے کا پروگرام تو بہت دنوں سے بن رہا تھا مگر بوجوہ اُس کو عملی شکل نہ دی جا سکی ۔
خدا خدا کر کے 15 جولائی کی صبح کی روانگی طے ہوئی تو درمیان میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے بورڈ آف گورنرز کا افتتاحی اجلاس آ پڑا جس کا وقت دوپہر دو سے پانچ بجے تک تھا اور جس میں مجھے زوم پر تصویری شرکت کرنا تھی کہ چیئرپرسن عزیزہ فوزیہ سعید روزانہ اس وعدے کی یاد دہانی بھی کروا رہی تھیں۔ برخوردار علی ذیشان ہفتے کی صبح اپنے کسی کام کی وجہ سے لاہور واپس آنا چاہ رہا تھا چنانچہ یہی طے پایا کہ پی این سی اے کا اجلاس ختم ہوتے ہی چل پڑیں اور ڈیڑھ دن وہاں رُک کر جمعے کی شام واپس آ جائیں ۔
بھلا ہو برادرم شفقت محمود وزیر تعلیم کا جو اس میٹنگ کے صدر بھی تھے کہ اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے انھوں نے اجلاس پانچ کی بجائے ساڑھے تین ہی ختم کر دیا اور یوں ہم ذرا جلدی گھر سے نکل سکے۔ اتفاق سے ہماری روانگی کے وقت اس قدر شدید بارش شروع ہو گئی کہ چاروں طرف جل تھل ہو گیا گاڑی سے باہر کے مناظر اگرچہ اس طوفانی بارش کی وجہ سے ٹھیک سے نظر نہیں آ رہے تھے مگر اس کے باوجود برسوں کی دیکھی ہوئی عمارتیں اور جگہیں نئی نئی سی لگ رہی تھیں کہ درمیان میں تقریباً ساڑھے تین ماہ کا وقفہ حائل تھا۔
ویڈیو کانفرنس کال کی وجہ سے سلام دعا تو تقریباً تمام شرکاء سے ہو گئی مگر فوزیہ سعید اور برادرم سہیل محمود سیکریٹری وزارتِ خارجہ سے براہ راست ملاقات کا پروگرام بھی فائنل ہو گیا۔ سہیل محمود ایک بہت عمدہ سفارت کار ہونے کے ساتھ شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ سے بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اتفاق ایسا ہوا کہ میں 2015ء میں ریختہ کے جشنِ اُردو کے سلسلے میں دہلی گیا تو سہیل محمود وہاں چارج لینے کے لیے ابھی پہنچے نہیں تھے اور گزشتہ برس جب نجیب فاضل ایوارڈ لینے کے سلسلے میں ترکی جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ اب وہاں اُن کی جگہ سائرس قاضی بطور سفیر آ گئے ہیں یعنی بالمشافہ ملاقات دونوں بار نہ ہو سکی خیال تھا کہ ساڑھے چار بجے اُن کے ساتھ آدھا گھنٹہ گزار کے قریب ہی واقع پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے دفتر میں آدھ گھنٹہ فوزیہ سعید صاحبہ سے ملاقات رہے گی اور وہاں سے چھ بجے تک واپس پہنچ کر میں اور میرے اہلِ خانہ انور مسعود کی طرف جائیں گے مگر ہُوا یوں کہ برادرم سہیل محمود سے گفتگو کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا انسانی معاشروں میں علم و ادب کے کردار اور اُن کی اہمیت پر شروع ہونے والی بات جب وطنِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال تک آئی تو اس سے متعلقہ اداروں کے عروج اور زوال کے تیز اور ہلکے رنگ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے مگر یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ وزارتِ خارجہ کی حد تک حالات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کا ارادہ رکھتے ہیں وہاں مانچسٹر میں ہمارے صاحبِ کتاب اور صاحبِ مطالعہ سفارت کار ظہور احمد صاحب سے بھی مختصر ملاقات رہی اور واپسی پر جمیل نقش مرحوم کی ایک پینٹنگ کے سامنے تصویر بنواتے وقت برادرعزیز مستنصر حسین تارڑ کے صاحبزادے سمیر سے بھی ملے جو ماشاء اللہ فارن سروس میں بہت عمدگی سے کامیابی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔
فوزیہ سعید نے کوئی چھ ماہ قبل ایک دو سالہ کنٹریکٹ کے تحت پی این سی اے کا انتظام سنبھالا ہے جس خوب صورتی اور کامیابی سے انھوں نے ''لوک ورثہ'' کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ہے بہت یقین ہے کہ وہ اس ادارے کو بھی جو گزشتہ کئی برسوں سے اگر غیر فعال نہیں تو بے حد کم فعال ضرور رہا ہے دوبارہ زندہ کر سکیں گی۔ زُوم والی میٹنگ کے دوران دو ایک ایسے کیسز بھی سامنے آئے جو گزشتہ کئی برسوں سے بلاوجہ کسی نتیجے یا فیصلے سے محروم چلے آ رہے تھے۔ فوزیہ سعید ایک بہت متحرک اور خود آگے بڑھ کر کام کرنے والی خاتون ہیں اس کورونا کی ہمہ گیر ویرانی کے باوجود انھوں نے مختلف پروگراموں کا آن لائن ایک میلہ سا لگا رکھا ہے جو اس بات کا ثبوت کہ حالات بہتر اور نارمل ہونے پر وہ اس ادارے کو بہت آگے لے جائیں گی۔
جمعہ کے روز اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ یوسف خشک صاحب سے بھی ملاقات طے تھی مگر ستارے اس پر راضی نہیں تھے سو اسے کسی آیندہ وقت پر ملتوی کرنا واپسی پر جہلم میں بک کارنر والے برادران امر اور گگن شاہد کے گھر پر بہت پرتکلف اور اُس سے بھی زیادہ محبت بھری چائے سے مستفید ہوئے یہ سارا گھر ہی مہمان نوازی کو عبادت سمجھتا ہے چنانچہ ہر بار یہاں رکنا ایک خوشگوار تاثر کا حامل ہوتا ہے رات دس بجے اپنے گھر کے گیٹ پر ہارن دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اب اس رضا کارانہ نظر بندی کو ختم نہ سہی مگر کم ضرور کرنا پڑے گا کہ دنیا اور زندگی بہت خوبصورت ہیں۔
سائنس کی کسی کتاب میں پڑھا تھاکہ جب انسان اپنے جسم کے کسی حصے سے کام لینا بند کر دیتا ہے تو وہ بھی غیر فعال ہو جاتا ہے یا پھر اس کی نقل و حرکت میں واضح کمی آ جاتی ہے اور یہ متاثرہ حصے اپنے معمول پر آنے کے لیے بہت وقت لیتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ اس کر ونائی نظر بندی میں دیکھنے کو ملا کہ مسلسل بیٹھے یا لیٹے رہنے اور بہت کم چلنے کے باعث ہماری ٹانگیں بھی تیز اور زیادہ چلنے میں دِقت محسوس کرنے لگتی ہیں۔
میرے ساتھ اضافی مسئلہ یہ ہو ا کہ اس دوران میں دوبار علاحدہ علاحدہ میری دونوں ٹانگوں اور پاؤں پر چوٹیں لگیں جو اگرچہ بہت زیادہ خطرناک نوعیت کی نہیں تھیں مگر اُن کی وجہ سے تقریباً ایک ماہ میری نقل و حرکت میرے بیڈ روم اور اس سے چند قدم دور واقع لابی تک محدود ہو گئی اور اُس کے بعد سے اب تک مجھے تیز تو کیا عام رفتار سے چلنے میں بھی دِقت ہو رہی ہے جس کا زیادہ اثر گزشتہ تین چار دن میں دیکھنے میں آیا کہ لاہور سے اسلام آباد تک تو ایک ہی سیٹ پر بیٹھے رہنے کی وجہ سے خیریت رہی مگر بیٹی روشین کے گھر میں داخلے کی تین چار سیڑھیاں ایک پہاڑی کی شکل اختیار کر گئیں چونکہ پہلے کبھی ایسے ہوا نہیں تھا اس لیے یہ تجربہ اور بھی زیادہ ناخوشگوار لگا اور اگلے دو دن ہر جگہ سیڑھیوں کے رُوبرو ایسی ہی کیفیت سے گزرنا پڑا اگر چہ آہستہ آہستہ اس کیفیت میں مسلسل کمی آ رہی ہے مگر یہ احساس مسلسل دماغ کو گھیرے ہوئے ہے کہ جو لوگ نیلسن منڈیلا کی طرح زیادہ عرصہ جیلوں میں اور بالخصوص قیدِ تنہائی میں رہے ہیں اُن پر کیا گزرتی ہو گی۔ اسلام آباد جانے کا پروگرام تو بہت دنوں سے بن رہا تھا مگر بوجوہ اُس کو عملی شکل نہ دی جا سکی ۔
خدا خدا کر کے 15 جولائی کی صبح کی روانگی طے ہوئی تو درمیان میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے بورڈ آف گورنرز کا افتتاحی اجلاس آ پڑا جس کا وقت دوپہر دو سے پانچ بجے تک تھا اور جس میں مجھے زوم پر تصویری شرکت کرنا تھی کہ چیئرپرسن عزیزہ فوزیہ سعید روزانہ اس وعدے کی یاد دہانی بھی کروا رہی تھیں۔ برخوردار علی ذیشان ہفتے کی صبح اپنے کسی کام کی وجہ سے لاہور واپس آنا چاہ رہا تھا چنانچہ یہی طے پایا کہ پی این سی اے کا اجلاس ختم ہوتے ہی چل پڑیں اور ڈیڑھ دن وہاں رُک کر جمعے کی شام واپس آ جائیں ۔
بھلا ہو برادرم شفقت محمود وزیر تعلیم کا جو اس میٹنگ کے صدر بھی تھے کہ اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے انھوں نے اجلاس پانچ کی بجائے ساڑھے تین ہی ختم کر دیا اور یوں ہم ذرا جلدی گھر سے نکل سکے۔ اتفاق سے ہماری روانگی کے وقت اس قدر شدید بارش شروع ہو گئی کہ چاروں طرف جل تھل ہو گیا گاڑی سے باہر کے مناظر اگرچہ اس طوفانی بارش کی وجہ سے ٹھیک سے نظر نہیں آ رہے تھے مگر اس کے باوجود برسوں کی دیکھی ہوئی عمارتیں اور جگہیں نئی نئی سی لگ رہی تھیں کہ درمیان میں تقریباً ساڑھے تین ماہ کا وقفہ حائل تھا۔
ویڈیو کانفرنس کال کی وجہ سے سلام دعا تو تقریباً تمام شرکاء سے ہو گئی مگر فوزیہ سعید اور برادرم سہیل محمود سیکریٹری وزارتِ خارجہ سے براہ راست ملاقات کا پروگرام بھی فائنل ہو گیا۔ سہیل محمود ایک بہت عمدہ سفارت کار ہونے کے ساتھ شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ سے بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اتفاق ایسا ہوا کہ میں 2015ء میں ریختہ کے جشنِ اُردو کے سلسلے میں دہلی گیا تو سہیل محمود وہاں چارج لینے کے لیے ابھی پہنچے نہیں تھے اور گزشتہ برس جب نجیب فاضل ایوارڈ لینے کے سلسلے میں ترکی جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ اب وہاں اُن کی جگہ سائرس قاضی بطور سفیر آ گئے ہیں یعنی بالمشافہ ملاقات دونوں بار نہ ہو سکی خیال تھا کہ ساڑھے چار بجے اُن کے ساتھ آدھا گھنٹہ گزار کے قریب ہی واقع پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے دفتر میں آدھ گھنٹہ فوزیہ سعید صاحبہ سے ملاقات رہے گی اور وہاں سے چھ بجے تک واپس پہنچ کر میں اور میرے اہلِ خانہ انور مسعود کی طرف جائیں گے مگر ہُوا یوں کہ برادرم سہیل محمود سے گفتگو کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا انسانی معاشروں میں علم و ادب کے کردار اور اُن کی اہمیت پر شروع ہونے والی بات جب وطنِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال تک آئی تو اس سے متعلقہ اداروں کے عروج اور زوال کے تیز اور ہلکے رنگ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے مگر یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ وزارتِ خارجہ کی حد تک حالات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کا ارادہ رکھتے ہیں وہاں مانچسٹر میں ہمارے صاحبِ کتاب اور صاحبِ مطالعہ سفارت کار ظہور احمد صاحب سے بھی مختصر ملاقات رہی اور واپسی پر جمیل نقش مرحوم کی ایک پینٹنگ کے سامنے تصویر بنواتے وقت برادرعزیز مستنصر حسین تارڑ کے صاحبزادے سمیر سے بھی ملے جو ماشاء اللہ فارن سروس میں بہت عمدگی سے کامیابی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔
فوزیہ سعید نے کوئی چھ ماہ قبل ایک دو سالہ کنٹریکٹ کے تحت پی این سی اے کا انتظام سنبھالا ہے جس خوب صورتی اور کامیابی سے انھوں نے ''لوک ورثہ'' کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ہے بہت یقین ہے کہ وہ اس ادارے کو بھی جو گزشتہ کئی برسوں سے اگر غیر فعال نہیں تو بے حد کم فعال ضرور رہا ہے دوبارہ زندہ کر سکیں گی۔ زُوم والی میٹنگ کے دوران دو ایک ایسے کیسز بھی سامنے آئے جو گزشتہ کئی برسوں سے بلاوجہ کسی نتیجے یا فیصلے سے محروم چلے آ رہے تھے۔ فوزیہ سعید ایک بہت متحرک اور خود آگے بڑھ کر کام کرنے والی خاتون ہیں اس کورونا کی ہمہ گیر ویرانی کے باوجود انھوں نے مختلف پروگراموں کا آن لائن ایک میلہ سا لگا رکھا ہے جو اس بات کا ثبوت کہ حالات بہتر اور نارمل ہونے پر وہ اس ادارے کو بہت آگے لے جائیں گی۔
جمعہ کے روز اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ یوسف خشک صاحب سے بھی ملاقات طے تھی مگر ستارے اس پر راضی نہیں تھے سو اسے کسی آیندہ وقت پر ملتوی کرنا واپسی پر جہلم میں بک کارنر والے برادران امر اور گگن شاہد کے گھر پر بہت پرتکلف اور اُس سے بھی زیادہ محبت بھری چائے سے مستفید ہوئے یہ سارا گھر ہی مہمان نوازی کو عبادت سمجھتا ہے چنانچہ ہر بار یہاں رکنا ایک خوشگوار تاثر کا حامل ہوتا ہے رات دس بجے اپنے گھر کے گیٹ پر ہارن دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اب اس رضا کارانہ نظر بندی کو ختم نہ سہی مگر کم ضرور کرنا پڑے گا کہ دنیا اور زندگی بہت خوبصورت ہیں۔