ہٹ دھرمی کی انتہا
کراچی کے عوام تو لوڈ شیڈنگ سے ایک زمانے سے تنگ چلے آرہے ہیں۔
کراچی کے عوام تو لوڈ شیڈنگ سے ایک زمانے سے تنگ چلے آرہے ہیں۔ خیر سے اب حکومت کو بھی اس کی خبر ہوگئی ہے اور اس نے بھی کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اس احتجاج میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر اورگورنر سندھ عمران اسماعیل بھی شامل تھے۔
اسد عمر نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام کے ساتھ اپنا رویہ نہ بدلا اور لوڈ شیڈنگ کو ختم نہ کیا تو اسے حکومتی تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔ کے الیکٹرک حکومتی اشتراک سے ہی کام کر رہی ہے حکومت اس کے لائسنس کو کسی بھی وقت کینسل کرسکتی ہے۔
افسوس کہ کراچی کے عوام گزشتہ پندرہ سال سے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل رہے ہیں مگر کسی حکومت نے انھیں اس عذاب سے نکالنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا موجودہ حکومت نے متعلقہ ادارے کے خلاف جذبہ تو دکھایا ہے مگر اسے عوام دکھاوا ہی قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت کراچی سخت گرمی کی لپیٹ میں ہے ساتھ ہی کورونا کی بیماری عروج پر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کے الیکٹرک کو منافع کمانے کے سوا کسی کی تکلیف کا کوئی احساس نہیں ہے۔ کے الیکٹرک کی یہ ہٹ دھرمی دیکھیے کہ وہ اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی وزرا اور ارکان اسمبلی کے مشترکہ احتجاج کو بھی نظرانداز کر رہی ہے حالانکہ اسد عمر نے کے الیکٹرک کے کہنے پر ہی عوام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اب لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی مگر اس نے تو حکومتی اہم وزیر کے وعدے کو بھی ہوا میں اڑا دیا اور اپنی ہٹ دھرمی کو جاری رکھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ تو بے حس ہے ہی مگر حکومت اس کے آگے کتنی بے بس ہے۔ دراصل یہ ادارہ حکومتی مہربانیوں سے ہی شیر بنا ہوا ہے اور اپنی من مانی کر رہا ہے۔
اس وقت کے الیکٹرک کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کی وجہ ایل این جی اور گیس کی کمی قرار دی جا رہی ہے مگر وزارت توانائی نے کے الیکٹرک کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے اس کا کہنا ہے کہ گیارہ جولائی کو گورنر ہاؤس کراچی میں وفاقی وزیر اسد عمر اور گورنر سندھ عمران اسماعیل و دیگر حکومتی شخصیات کے سامنے کے الیکٹرک کے سربراہ نے خود تسلیم کیا تھا کہ انھیں اب 190 کے بجائے 290 ایم ایم سی این ڈی گیس مل رہی ہے اور اس کے حصول کی وجہ سے اضافی بجلی کی پیداوار کی بھی تصدیق کرائی تھی۔
اسی میٹنگ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا تھا کہ انھیں ملکی پیداوار کا 80 فیصد فرنس آئل پٹرولیم ڈویژن کے تعاون سے مل رہا ہے۔ کے الیکٹرک کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان کا سسٹم 650 میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ ان کا سسٹم کمزور ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کے الیکٹرک نے حکومت سے معاہدے کے مطابق اپنے سسٹم کو اپ گریڈ نہیں کیا اور حکومت کی بھی یہ کمزوری رہی کہ اس نے عوامی مشکلات کے باوجود بھی اسے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ اس سے حکومت کی اس ادارے کے ساتھ ملی بھگت بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ پھر اب جب کہ کئی سالوں سے اس ادارے کے خلاف عوام محو احتجاج ہیں کسی حکومت نے اس کے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیا اور اس کا لائسنس منسوخ نہیں کیا؟
گزشتہ حکومتوں کے دور میں جو ہو گیا سو ہو گیا مگر موجودہ حکومت ملک سے کرپشن، بدانتظامی اور ناانصافی کو ختم کرنے کے وعدے کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے۔ تبدیلی سرکار کے دور میں تو کے الیکٹرک کی زیادتیوں کے خلاف اب تک ضرور ایکشن لیا جانا چاہیے تھا۔ کے الیکٹرک کے خلاف اس وقت عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیاں بھی محو احتجاج ہیں۔ جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے خلاف سب سے بڑھ چڑھ کر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی بھی اس سلسلے میں احتجاج اور پریس کانفرنسیں منعقد کرچکی ہے۔ گزشتہ اتوار کو منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک شارٹ فال کے نام پر قوم سے جھوٹ بول رہی ہے کراچی میں کل 3300 میگاواٹ بجلی کی طلب ہے جب کہ کراچی کے لیے 4000میگاواٹ سے زیادہ بجلی دستیاب ہے، کے الیکٹرک کو حبکو 2920 میگاواٹ، پورٹ قاسم کول پاور 1320 میگاواٹ، تھرکول 660 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہے ہیں جوکہ کراچی کی ضرورت سے زیادہ ہے مگر اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کو معمول بنانا سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے۔
دراصل جب سے کراچی میں بجلی کی نجکاری ہوئی ہے عوام مشکل میں گھر گئے ہیں۔ آج سے پندرہ سال پہلے 2005 میں پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے بجلی کے نظام کو نجکاری کے ذریعے کے الیکٹرک کے حوالے کیا گیا تھا تاہم اس وقت بھی عوام اور کئی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے نجکاری کی مخالفت کی گئی تھی مگر پرویز مشرف نے اپنے اتحادی ایم کیو ایم سے مل کر اس کی نجکاری کو ممکن بنایا تھا جس کی سزا آج عوام بھگت رہے ہیں۔
کراچی کے عوام کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کرے اور ایک کے بجائے کئی کمپنیوں کو یہ کام سونپا جائے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے کیے گئے بجلی کی قیمتوں میں تین روپے اضافے کو فوراً واپس لیا جائے اس کے گزشتہ سالوں کے حسابات کا فارنزک آڈٹ کرایا جائے اور اوور بلنگ کے پیسے عوام کو دلائے جائیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ LNG کی درآمد میں تاخیر کی وجہ سے کراچی کے عوام کو لوڈ شیڈنگ کا عذاب سہنا پڑ رہا ہے اور اس کے براہ راست ذمے دار عمران خان ہیں۔
ان کی حکومت جہاں دیگر معاملات میں سست روی اور الجھاؤ کا شکار ہے وہاں بجلی کا شعبہ بھی تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہے فرنس آئل کی قلت سے صرف بجلی کا شعبہ ہی متاثر نہیں ہوا ہے ملک میں کئی ریفائنریاں بھی بند ہوگئی ہیں۔ کراچی کے عوام کے الیکٹرک کے خلاف جگہ جگہ ریلیاں نکال رہے ہیں اور دھرنے دے رہے ہیں مگر کے الیکٹرک بڑی ڈھٹائی سے لوڈ شیڈنگ میں مگن ہے اور بجلی کے ریٹ بھی بڑھاتی چلی جا رہی ہے اس کے گھروں پر لگے میٹر بھی تیزی سے دوڑ رہے ہیں۔ اس ہٹ دھرمی کا اب کیا جواب ہے؟
حال ہی میں مصطفیٰ کمال نے اپنی پارٹی کے ورکرز کے اجلاس میں انھیں کے الیکٹرک کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے خاموش رہنے اور برداشت کرنے کا وقت گزر چکا اب زور آزمائی کا وقت آگیا ہے کے الیکٹرک چاہے تو عوام کے غیض و غضب کو اپنے رویے میں تبدیلی لا کر ٹھنڈا کرسکتی ہے۔