این ایف سی ایوارڈ اور حکومتی کارکردگی

قومی مالیاتی ایوارڈ ملک کا صدر لاگو کرتا ہے لیکن اس کی تیاری کے لیے قومی مالیاتی کمیشن قائم کیا جاتا ہے



قومی مالیاتی ایوارڈ ملک کا صدر لاگو کرتا ہے لیکن اس کی تیاری کے لیے قومی مالیاتی کمیشن قائم کیا جاتا ہے، جس میں وفاقی وزیر خزانہ سربراہ اور تمام صوبوں کے وزرائے خزانہ اور صدر کے مقرر کردہ نمائندے شامل ہوتے ہیں ۔ اس ایوارڈ کا آغاز 1951 میں ہوا ۔ جس کے تحت وفاق اور صوبوں کے مابین رقوم کی تقسیم کی جاتی ہے ۔

1951سے 1974تک جو بھی مالیاتی ایوارڈ آئے ، اُن میں وفاق سے صوبوں کی جانب منتقل ہونے والی رقوم میں صوبوں کے حصے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور صوبوں سے ہونے والی ٹیکس وصولیوں کا بڑا حصہ صوبوں کو ملتا رہا مگر 1990کے بعد حکمت عملی تبدیل کی گئی اور مجموعی قابل تقسیم پول میں نئے ٹیکس شامل کیے گئے ، پھر اُن میں وفاق کا حصہ بھی صوبوں سے زیادہ رکھا گیا ۔

1997میں آنیوالے چھٹے مالیاتی ایوارڈ کو تونواز شریف حکومت نے اپنی عددی اکثریت کے بَل پر ماضی کے مقابلے میں یکسر ہی تبدیل کردیا ۔ اس میں تمام ٹیکسز ، آئل و گیس سرچارج سمیت سیلز ٹیکس کی وصولی کا 50%اور کراچی کی بندرگاہوں سے ہونے والی آمدن سمیت تمام رقوم مجموعی قابل تقسیم پول میں شامل کردی گئیں ۔ جس کے باعث 1961، 1964، 1970کے ایوارڈ کے مقابلے میں اس ایوارڈ میں صوبوں کی ٹیکس وصولی کی شرح کم ہوگئی ، نتیجتاً 91%وصولیاں وفاق کے پاس چلی گئیں اور صوبوں کے پاس صرف 6فیصد جب کہ بلدیاتی اداروں کے پاس وصولیوں کا صرف 3فیصد رہ گیا ۔ یوں قومی آمدن میں صوبوں کا حصہ بالکل کم کردیا گیا ۔ دوسری جانب وفاق سے رقوم کا معمولی حصہ بڑھا کر صوبوں کو راضی رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ پھر آصف زرداری کے دور ِ صدارت میں اُن کی مفاہمتی جادو کی چھڑی سے طویل عرصے بعد ملک میں ایک متفقہ 7واں این ایف سی ایوارڈ لاگو کیا گیا ۔ جب کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے سے متعلق آئینی اصلاح بھی کی گئی ۔

اُس کے بعد آنیوالے 8ویں ، 9ویں اور اب دسویں ایوارڈ پر ہمیشہ ریسلنگ کا ماحول برپا ہوتا رہا ہے ۔ جس کے دوران نہ تو کسی بات پر اتفاق ہوپاتا ہے اور نہ ہی کوئی مثبت پیش قدمی ۔ بالآخر حتمی طور پر یا تو سابقہ ایوارڈ کو جاری رکھا جاتا ہے یا پھر بلاقومی اتفاق کے حکومت آئینی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے من پسند عوامل پر مشتمل ایوارڈ کا اعلان کردیتی ہے اورتازہ پی ٹی آئی کی جانب سے 10ویںقومی مالیاتی ایوارڈ کی منظوری کے دوران یہی سب کچھ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ 3ماہ قبل 9ویں این ایف سی ایوارڈ کی میعاد ختم ہوگئی لیکن اُس وقت تک دسویں این ایف سی ایوارڈ کو جاری کرنے کے لیے قائم کمیشن کوئی بھی اتفاق رائے پیدا نہ کرسکی اور بلا کوئی نتیجہ دیے ختم ہوگئی ۔ جس کا باعث کئی سیاسی وجوہات ہونے کے ساتھ ساتھ کئی انتظامی وجوہات اور کمیشن کی تشکیل پر اعتراضات بھی تھے ۔

دسویں مالیاتی ایوارڈ کے لیے بنائی گئی کمیشن اتفاق رائے میں ناکام رہی تو اس میں حکومت کی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل نظر آیا ۔ اتفاق رائے کے لیے تمام فریقین و اسٹیک ہولڈرزسے بہتر روابط اور ایوارڈ کی شقوں پر مشاورت اور پارلیمانی و سیاسی لابنگ لازمی امر ہوتا ہے ، جس میں موجودہ وفاقی حکومت اول روز سے ناکام رہی ہے ۔ پھر کمیشن کی تشکیل پر بھی کئی طرح کے اعتراضات سامنے آئے ، کچھ تو انتہائی سنجیدہ آئینی اعتراضات اُٹھائے گئے اور اُن کی بنیاد پر کمیشن کی تشکیل کو عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا ۔ صدر نے 12مئی 2020کو دسویں مالیاتی کمیشن تشکیل دی ، جس میں بلوچستان سے جاوید جبار کی بطور تقرری عمل میں لائی گئی ، جس کی تقرری اور 10ویں این ایف سی ایوارڈ کی ٹرمز آف ریفرنس کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔پھر سینیٹ کی مالیاتی اُمور سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے صوبوں کے حصہ میں 11فیصد کٹوتی کی مخالفت پر مبنی سفارشات جمع کرائیں ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی این ایف سی معاملے پر غیر سنجیدگی کے تاثرات دیتے ہوئے اُسے تنبیہ بھی کی تھی ۔ جب کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے بھی وزیر اعظم کو خط لکھ کر کمیشن کی تشکیل اور ٹی او آرز پر سنجیدہ آئینی اعتراضات اُٹھائے اور اُسے غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا ۔ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کمیشن کا اعلان آئینی طور پر صدر کا اختیار ہے جو تمام صوبوں کے گورنرز کی سفارش پر بھیجے گئے ناموں میں سے کمیشن کا رکن مقرر کرتا ہے ، جب کہ گورنر بھی متعلقہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ سے مشاورت کے بعد نام فائنل کرنے کا پابند ہے ۔ گورنر کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی دوسرے شخص کو رکن مقرر کرے ۔ آئین کی آرٹیکل 160 دن میں ارکان کی تشکیل سے متعلق واضح طور پر تحریر ہے کہ ایسے کسی شخص کی تقرری کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ آئین کی آرٹیکل 16(1) کے تحت پانچ سال کے بعد این ایف سی تشکیل دیا جاتا ہے ، اس میں وفاق اور صوبوں کے وزراء کی قانونی حیثیت ہوتی ہے ، ہر صوبہ ایک غیر حکومتی رکن بھی نامزد کرسکتا ہے ۔

کمیشن میں وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیاتی اُمور حفیظ شیخ کی موجودگی اور سیکریٹری خزانہ کی بطور شرکت کو بلوچستان ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جاری کردہ ٹرمز آف ریفرنس کو بھی کالعدم قرار دے دیا ۔ آئین کے آرٹیکل 160 کو ملحوظ خاطر رکھے جانے پر بھی اعتراضات کیے۔ آرٹیکل 160کے تحت صوبوں کے حصے کو گذشتہ ایوارڈ سے کم نہیں کیا جاسکتا لیکن حکومت نے یہ سب کام کیے ۔

پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک ملک میں تضادات پیدا کرنے کی فیکٹری ثابت ہوئی ہے ۔ کورونا صورتحال ، لاک ڈاؤن کرنے یا نہ کرنے ، مہنگائی کی شرح میں اضافے ، پیٹرول ، آٹا ، چینی بحران اور اُن پر بیانات وغیرہ اور نجی پاور پلانٹس اسکینڈل سے سمندر میں تیل ذخائر کی موجودگی کے اعلانات اور پھر انکار سے لے کر سندھ میں گورنر راج لاگو کرنے اور آئین کی مختلف شقیں نافذ کرکے کراچی کو براہ راست ٹیک اوور کرنے وغیرہ جیسے متضاد بیانات نے ملک میں ہمیشہ بے یقینی کی صورتحال برپا کیے رکھی ہے ۔

پھر آج تک خود کوئی قابل ذکر آئینی و ملکی اُمور سے متعلق قانونسازی نہ کرپانیوالی پی ٹی آئی آئین میں متفقہ طور پر کی گئی 18ویں ترمیم اور ساتویں این سی ایوارڈ کو تبدیل کرنے سے متعلق ہمیشہ Aggresive موڈ میں نظر آتی ہے ۔ حالانکہ یہ دونوں اس وقت آئین کا حصہ ہیں، پھر بھی حکومت اس وقت کئی غیر قانونی کاموں کی موجودگی سے نظریں چراکر انھی 2اُمور پر بضد نظر آرہی ہے ۔ جس کے لیے وہ کمیشن کی غیر آئینی تشکیل سے ایوارڈ میں غیر قانونی طور پر صوبوں کے حصے میں کمی اور رقوم میں غیرقانونی کٹوتی جیسے اقدامات سے بھی گریز کرتی نظر نہیں آرہی ۔ مالیاتی ایوارڈ کی مد میںسندھ ، پنجاب اور کے پی کے کی رقوم سے بے پناہ کٹوتیاں دیکھنے میں آئیں ۔ جب کہ صوبوں کے لیے وفاقی بجٹ میں خصوصی گرانٹ کی مد میں بھی دوہری پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ ایک طرف کے پی کے کو 56ارب روپے اضافی دیے گئے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں سب سے زیادہ آمدنی دینے والے صوبہ سندھ کے محض 19ارب روپے منظور کیے گئے ہیں ۔

پی ٹی آئی حکومت این ایف سی ایوارڈ کو پی پی پی کی صوبائی حکومت کا ایشو سمجھ کر اُس میں لازمی تبدیلی کی خواہاں ہے ۔ جب کہ دیکھا جائے تو یہ کسی جماعت یا ادارے کا ایشو نہیں ہے ۔ یہ براہ راست عوام کی ترقی سے وابستہ اُمور ہیں جن کی بدولت برائے نام ہی سہی صوبوں کو کچھ تووسائل پر اختیارات اور تھوڑا بہت جائز مالی حصہ ملنے کی امید پیدا ہوئی ہے ، لیکن تبدیلی سرکار کی جانب سے اس میں زبردستی کٹوتی سندھ کے عوام میں اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے کہ سندھ کے مسائل اور امراض کا سیاسی علاج کرنا وفاقی حکومت کے ایجنڈہ میں شامل ہی نہیں ہے ۔

صوبائی خودمختاری اور معاشی استحکام یوں تو تمام صوبوں کے لیے اہم ایشو رہا ہے مگر سندھ کے لیے یہ ایک حساس اور جذباتیت سے وابستہ مسئلہ رہا ہے ۔ قیام ِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں بھی سندھ واحد صوبہ تھا جہاں ''سندھ کی بمبئی سے علیحدگی '' کے نام پر صوبائی خودمختاری کی تحریک اپنے عروج پر رہی ۔ بالآخر سندھ نے سیاسی ، معاشی اور انتظامی طور پر مکمل صوبائی خودمختاری حاصل کرلی ، اور دراصل یہی تحریک ، تحریک ِ پاکستان کا سبب بنی ۔ پھر دیکھا جائے تو ملک میں مضبوط وفاق کے فلسفے پر مبنی 73سال سے جاری پالیسی کے اب تک کوئی مثبت نتائج نہیں نکلے ہیں ۔ ایسے میں'' مضبوط صوبے ہی وفاق کی مضبوطی کی علامت '' والی Theoryکو بروئے کار لانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ شاید امریکا ، یو اے ای اوردنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی یہ فارمولا کامیاب رہے اور ملک حقیقی معنوں میں ایک مضبوط و مستحکم ریاست بن کر دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت بحال کرسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔