لاپتہ افراد پیش کرنے کیلیے 7 روز کی مہلتوزیراعظم یقینی بنائیں آئندہ جبری گمشدگی نہ ہو سپریم کورٹ

35افراد فوج کےپاس ہیں،وزارت دفاع کاپہلےانکار،پھر7لوگ پیش کرنا اعتراف جرم ہے،وزیراعظم و دیگر بازیابی یقینی بنائیں،عدالت


کسی ایجنسی کو گرفتاریوں کا اختیار نہیں، حکومت معاملہ آگے بڑھائے تو کئی پردہ نشینوں کے نام سامنے آئینگے، چیف جسٹس، آئی جی ایف سی کے اسپتال میں داخلے کا ریکارڈ طلب۔ فوٹو: فائل

KARACHI: سپریم کورٹ نے ملا کنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے 35لاپتہ افراد کی ذمے داری فوج پر عائد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف سی اور رینجرز کو کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں۔

عدالت نے وزیرِاعظم، گورنرخیبر پختونخوا اور وزیرِاعلیٰ کو 35 لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دیدی اور وزیراعظم کو ہدایت کی کہ وہ یقینی بنائیں اب کوئی جبری گمشدگی نہ ہو۔ جو ادارے یا سیکیورٹی اہلکار ان افراد کو زیر حراست رکھنے یا اغوا کرنے میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے منگل کو کیس کی سماعت کی، وزارت دفاع پھر لاپتہ افراد پیش نہیں کر سکی، ایڈیشنل سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی مسائل پیدا ہوں گے، مرنے والے2افراد کے لواحقین پیش کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عین سماعت کے دوران وزیردفاع کو وزیراعظم کا فون آیا تھا، لوگ کنڑ گئے اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ، بات ثابت ہوچکی ہے کہ35 افراد کو مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے فوج اٹھا کر لے گئی۔ فیصلہ کرنے کے بجائے اب کوئی راستہ نہیں بچا۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے وزیر دفاع کو فوری طلب کرتے ہوئے کہا کہ آسمان گرے یا زمین پھٹے، عدالتی حکم پر عملدرآمد کرناہوگا، لگتا ہے کہ آپ کی کوئی بات نہیں مانتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق قانون پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں پیش کر دیا جائیگا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے وزیراعظم سمیت پوری حکومت کو کیس کا اچھی طرح علم ہے، یہ اچھی خبر ہے مگر 35لاپتہ افراد کہاں ہیں؟ وزیر دفاع کی کوئی بات نہیں سن رہا تو ہم کسی اور اعلیٰ شخصیت کو بلا سکتے ہیں، ہم حکم جاری کریں گے اور ایگزیکٹو اتھارٹی کو کہیں گے کہ اس پر عمل کرے۔

عدالت نے قائم مقام سیکریٹری دفاع کی وضاحت سننے سے انکارکر دیا،چیف جسٹس نے کہاکہ وزیر دفاع نے وعدہ کیا تھا 10 دسمبر کو معاملہ حل ہو جائے گا، ہمیں نام بتائیں آپ کو ان افراد کے بارے میں کون بتا رہا ہے؟ پہلے دن سے آپ کی ضد ہے کہ لوگ نہیں لانے اور آپ اس پر آج تک قائم ہیں۔ وزیر دفاع نے خوشخبری سنانے کا کہہ کر سماعت ملتوی کرائی مگر کوئی اطلاع نہیں دی۔ چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے کہا کہ آپ ہمارے حکم پر عملدرآمد نہیں کر رہے۔آپ کے خلاف بھی حکم جاری کرنا پڑیگا، عدالت نے فیصلہ تحریر کراتے ہوئے قرار دیا کہ نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر معاملے کو خفیہ رکھا جا رہا ہے، ایڈیشنل سیکریٹری دفاع کو خود معلومات تک رسائی نہیں، وہ ہدایات لیکر عدالت کو آگاہ کرتے ہیں، اس سارے معاملے کا علم ان لوگوں کو ہے جن سے وہ رابطہ کرتے ہیں، چاہے انکا تعلق فوج سے ہے یا وزارت دفاع سے، ایڈیشنل سیکریٹری دفاع نے تعاون نہیں کیا، جب ان سے ان لوگوں کے نام پوچھے گئے جن سے وہ رابطے میں تھے تو انھوں نے انکار کیا۔

یہ طے ہے کہ لاپتہ افراد فوج کی تحویل میں ہیں، دسمبر 2012میں پشاور ہائی کورٹ کو تحریری طور پر بتایا گیا کہ یاسین شاہ سمیت 35افراد فوج کے اہلکار امان اللہ بیگ ملاکنڈ حراستی مرکز سے لے کر گئے، وزارت دفاع نے پہلے انکار کیا اور پھر اسکے باوجود 7لوگ پیش کیے، بادی النظر میں یہ اعتراف جرم ہے اور ثبوت ہے کہ لوگ فوج کے پاس ہیں، فوج کی اتھارٹی کو ان افراد کا علم ہے، اگر وفاقی اور صوبائی حکومت قانون کے مطابق اس معاملے کو آگے بڑھائیں تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئیں گے جن کے حکم پر یہ لوگ حراست میں لیے گئے اور پھر منتقل ہوئے۔ لوگوں کو اٹھانے ،گرفتار کرنے اور منتقل کرنے کا اختیار فوج کے پاس کہاں سے آیا؟ بادی النظر میں یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان افراد کی حراست غیر قانونی تھی۔جب 7 افراد جسٹس امیرہانی مسلم کے سامنے پیش کیے گئے اس وقت بھی اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا، محکمہ دفاع کے اہلکاروں کے اس بیان پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتاکہ 8 لوگ کنڑ گئے ہوئے ہیں۔

عدالتی حکم عدولیوں کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا گیا اور سخت حکم جاری نہیں کیا گیا تاکہ کوئی غلط تاثر نہ جائے، اس کیس کی اہمیت اس وقت واضح ہوئی جب سماعت کے دوران خود وزیر اعظم نے وزیر دفاع سے رابطہ کیا اور وزیر دفاع نے اچھی خبر کی یقین دہانی کرائی، وزیر اعظم کا خود اس معاملے میں شریک ہونا کوئی معمولی بات نہیں، وزیر دفاع کے بیان کے بعد توقع تھی کہ کوئی مثبت پیشرفت ہو جائے گی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ جب وزیراعظم کی براہ راست شرکت کے باوجود معاملے کا حل نہ نکل آئے تو پھر آئین کے تحت حل موجود ہے، آ رٹیکل 90 کے تحت عدالت کے حکم کا اتباع لازم ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ شورش کی صورت میں قبائلی علاقوں کے علاوہ ملک کے کسی اور علاقے میں سیکیورٹی اداروں کو مخصوص اختیار دینے کا قانون موجود نہیں، حکومت اس ضمن میں فوری قانون سازی کرے اور یہ یقینی بنائے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔ عدالت نے اپنے دائرہ اختیار کے متعلق اٹارنی جنرل کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ خیبر پختونخوا کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو جائزے کا اختیار حاصل ہے۔

جبری گمشدگیاں آئین کی شق10 کیخلاف اور تعزیرات پاکستان، اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت جرم ہیں، تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور مستقبل کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں کا احساس کرے ورنہ عدالت حکومت کی عدم دلچسپی کا جائزہ لینے کی مجاز ہوگی۔ عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور گورنر خیبرپختونخوا کو باقی ماندہ لاپتہ افراد بازیاب کرانے اور وہ تمام افسران جنہوں نے زیر حراست افراد کو منتقل کرنے کا حکم دیا اور جنھوں نے عدالت کے حکم کے باوجود ان لاپتہ افراد کو پیش نہیں کیا ان کے خلاف قانون کے مطابق فوری کارروائی کا حکم دیا ہے اور7روز کے اندر عملدرآمد رپورٹ رجسٹرارکے پا س جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم، گورنرخیبر پختونخوا اور وزیرِاعلیٰ کو 35 لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دیدی، عدالت نے 35 لاپتہ افراد کو حراست میں رکھنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ان افراد کی حراست خفیہ تھی،جو ادارے یا سیکیورٹی اہلکار ان افراد کو زیرِ حراست رکھنے یا اغوا کرنے میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

عدالت نے وزیراعظم کو ہدایت کی کہ وہ مستقبل میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی ادارے کی جانب سے افراد کو جبر ی طور پر حراست میں نہ رکھا جائے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کے موقف کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے جنگ زدہ علاقوں میں فوج کو فوجداری مقدمات کی سماعت کرنے کا اختیار ہے۔ این این آئی کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ وزیر اعظم ملک کے انتظامی سربراہ ہیں،ان کی دلچسپی کے باوجود لاپتہ افراد کا معاملہ حل کیوں نہیں ہو رہا،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تحقیقات کرتیں تو قیدیوں کو حراستی مرکز سے لے جانے والے فوج افسران کو لایا جا سکتا تھا۔ وزیراعظم کا دلچسپی لینا معاملے کے حل کی امید پیدا کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان سے لاپتہ افراد کے کیس میں قائم مقام آئی جی ایف سی کے پیش نہ ہونے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آج (بدھ کو) پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے قرار دیاکہ بلوچستان کے لاپتہ افراد اور آئی جی ایف سی کے خلاف مزید کارروائی اس وقت ہوگی جب ایف سی کا کمانڈنگ افسر خود پیش ہوگا، 3رکنی بینچ نے حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ آئی جی کی بیماری کے متعلق اسپتال کا تمام ریکارڈ پیش کریں جبکہ قائم مقام آئی جی ایف سی کا نوٹیفکیشن بھی لایا جائے، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ آئی جی4 روز سے غیر حاضر ہیں، انھوں نے چھٹی کی تحریری درخواست نہیں دی، صرف زبانی آگاہ کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایک ڈسپلن فورس کی یہ حالت ہے تو پھر باقی جگہوں پر کیا کچھ ہو رہا ہوگا، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ لگتا ہے وہ قانون سے بالاتر ہے، اسی کو ریاست کے اندر ریاست کہا جاتا ہے۔ عدالت کے حکم کو نہ ماننے کا وطیرہ بنالیا گیا ہے، لگتا ہے یہ کسی کی انا کا مسئلہ ہے۔ ریاست کا ایک ملازم اگر ریاست کا قانون نہ مانے اور ٹیکس کے پیسے سے مراعات بھی لے تو پھر مسائل تو ختم نہیں ہوسکتے ۔کیا حکومت بے بس ہوچکی ہے جو قانون کا اطلاق نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج وزیر دفاع کو تو آنا چاہیے تھا، لوگ سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں، انھوں نے خود 10 دسمبر تک مسئلہ حل کرانے کی یقین دہانی کرئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا بریگیڈیئر خالد سلیم کو قائم مقام چارج دیا گیا ہے تاہم کوئی نوٹیفکیشن نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایک شخص غیر حاضر ہے تو اس کے خلاف کارروائی حکومت کی ذمے داری ہے، کسی پر اغوا کا الزام ہے تو حکومت اسکو گرفتار کرے لیکن عدالت کو مذاق بنایا گیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا یہ مذاق آئین کے ساتھ ہے کیونکہ عدالت آئین کے تابع ہے۔عدالت نے آئی جی ایف سی کی غیر حاضری پر وزارت داخلہ کا پالیسی بیان طلب کرتے ہوئے سماعت آج (بدھ) کے لیے ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات ، سی این جی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اورلوڈشیڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو بجلی پر دی گئی سبسڈی واپس نہ لینے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کیا تھا جو منگل کو سنایا گیا۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سبسڈی ختم نہیںکی جا سکتی،آئین کے آرٹیکل 38کے تحت لوگوں کی فلاح حکومت کی ذمے داری ہے، لوڈ شیڈنگ کا معاملہ مخلصانہ کوششوں سے حل ہو سکتا ہے، مجاز اتھارٹی لوگوںکی مشکلات ختم کرے اور بلاتعطل بجلی فراہم کی جائے، اگر لوڈ شیڈنگ ناگزیر ہے تو یکساں لوڈشیڈنگ کی جائے، مجازاتھارٹی بجلی کا ضیاع روکنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرے، اس مقصدکیلیے سمارٹ میٹر متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ فیصلے میں بل نہ دینے والوںکیخلاف قانون کے تحت کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت سبسڈی واپس نہ لے، بیشک یہ صارفین کا حق نہیں تاہم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوںکی فلاح کا سوچے اور مستقبل میں موجودہ سبسڈی میں اضافہ بھی کیا جائے کیونکہ عام صارف بجلی کی اتنی زیادہ قیمت ادا نہیںکر سکتا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ کے مطابق مقررکی جائیں، نیپرا اور پیپکو ہائیڈل بجلی کو ترجیح دے، تھرمل بجلی کی پیداوار میں گیس اورکوئلے کو ترجیح دی جائے،کھاد فیکٹریوںکوگیس کی فراہمی جاری رکھی جائے تاہم حکومت شرط عائدکرے کہ یہ فیکٹریاں صارفین کوکھاد رعایتی نرخوں پر دیں۔ کیپٹو پاور پلانٹس کو رعایتی نرخوں پر گیس فراہم نہ کی جائے کیونکہ وہ نیپرا قیمتوںکے مطابق صارفین کو سستی بجلی فراہم نہیںکر رہے ۔عدالت نے کہاکہ سی این جی پر اضافی9 فیصد سیلز ٹیکس قانون کے منافی ہے، متعدد سی این جی سٹیشنز کے لائسنس بظاہر غیر قانونی طریقے سے جاری کیے گئے۔ نیب اسکا جائزہ لے، عدالت نے فیصلے میں سیلز ٹیکس ایکٹ 1990کے سیکشن 3(8)جو فنانس ایکٹ2013کے ذریعے شامل کیا گیا کوآئین اور قانون کیخلاف قرار دیدیا ہے اورکہا ہے کہ سی این جی پر اضافی ٹیکس غیر قانونی ہے۔ اوگرا 16 سے17 فیصد ٹیکس وصول کرے اور9 فیصد اضافی وصول کی جانے والی رقم 3 ماہ میں ایف بی آر میں جمع کرائے۔عدالت نے قرار دیا کہ سی این جی اسٹیشنزکے لائسنس کا معاملہ اوگرا عملدرآمد کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔ نیپرا قانون کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا، نیپرا آئندہ صارف اور اسٹیک ہولڈرزکو سن کر قیمتوںکا تعین کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔