انگلینڈ میں بے یارومددگار کرکٹرز

ہم ٹیم کو آسٹریلیا بھیجنے کیلیے تیار ہیں مگر14 روز کا قرنطینہ بہت زیادہ ہے، اس میں کمی کرنا ہوگی


July 20, 2020
اتنی دور سے سفر کر کے پلیئرز وہاں پہنچیں گے پھر اتنے دن تک بند رہنا ان کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ فوٹو : فائل

''ہم ٹیم کو آسٹریلیا بھیجنے کیلیے تیار ہیں مگر14 روز کا قرنطینہ بہت زیادہ ہے، اس میں کمی کرنا ہوگی، اتنی دور سے سفر کر کے پلیئرز وہاں پہنچیں گے پھر اتنے دن تک بند رہنا ان کے لیے مناسب نہیں ہوگا''

چند روز قبل میری نظروں سے بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ سارو گنگولی کا یہ بیان گذرا، میں نے سوچا کہ وہ خود کرکٹر رہے ہیں اس لیے کھلاڑیوں کا اتنا زیادہ خیال ہے، مگر پھر اپنے بورڈ کا سوچا تو افسوس محسوس ہونے لگا کہ اس نے انگلینڈ میں اپنے کرکٹرز کو بے یارومددگار چھوڑا ہوا ہے، چیئرمین احسان مانی اپنی اہلیہ کے ساتھ چھٹیاں منانے ٹیم کی چارٹرڈ فلائٹ پر انگلینڈ گئے، انھیں وہاں ذاتی اچھی رہائشی سہولتیں حاصل ہیں، سی ای او وسیم خان اب تک لاہور میں ہی ہیں، ان کو بھی کھلاڑیوں کی کوئی فکر نہیں۔

یہ درست ہے کہ بیشتر کرکٹرز چھوٹے علاقوں سے ٹیم میں آتے ہیں لیکن انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ سہولتوں کا جلد عادی بن جاتا ہے، پھر جب ایسا نہ ہو تو اس کے مزاج میں چڑچڑا پن آ جاتا جس سے پرفارمنس میں فرق آ سکتا ہے، عموماً ٹیم کے ہر دورے سے قبل پی سی بی کے چند آفیشلز سہولتوں کا جائزہ لینے کے نام پروہاں جاتے ہیں، ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکر خان نے 9ماہ میں اتنے ہی ٹورز پر 73 لاکھ روپے خرچ کیے تھے، اس بار کورونا کا خوف الاؤنسز پر حاوی آ گیا، کوئی بھی آفیشل تاحال انگلینڈ نہیں گیا، انھیں صرف ویڈیو لنک پر ای سی بی پلانز سے آگاہ کردیتا ہے۔

انگلینڈ میں اب تک ٹیم کو ٹو یا تھری اسٹار ہوٹلز میں ٹھہرایا گیا، یہ ایسے بجٹ ہوٹلز ہیں جہاں میرے جیسے عام صحافی انگلینڈ جانے پر کمرے تلاش کرتے ہیں، بعض اوقات تو30،40پاؤنڈ میں بھی تلاش ختم ہوجاتی ہے، پلیئرز کو وہاں ٹی وی پر تفریحی چینلز کی سہولت تک میسر نہیں،باتیں بڑی ہوئیں کہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی سیریز دیکھ کر کھلاڑیوں کو کنڈیشنزسے آگاہی مل جائے گی مگر افسوس وہ یہ میچز دیکھنے سے بھی محروم ہیں، انھیں اس کے لیے نیچے کانفرنس روم میں جانا پڑتا ہے، بائیو سیکیور ماحول کی وجہ سے بھی بہت زیادہ سختی ہے، باہر جا سکتے نہ کوئی ملنے آ سکتا ہے، چند انڈور گیمز ہی فارغ وقت کا سہارا ہیں۔

جب غیرملکی کرکٹرز پاکستان آئیں تو ہم ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، مگر اس کے باوجود یہ طعنے سننے پڑتے ہیں کہ فائیو اسٹار جیل میں قید رکھا گیا، ہمارے کرکٹرز تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے، سب جانتے ہیں کہ سیریز کرکٹ کی محبت میں نہیں بلکہ انگلش بورڈ کو مالی خسارے سے بچانے کے لیے ہو رہی ہے، جہاں انگلینڈ اتناکمائے گا وہیں اگر کرکٹرز کو سہولتیں بھی فراہم کر دیتا تو کیا جاتا،ابھی یہ جواز دیا جا رہا ہے کہ گراؤنڈ سے ملحقہ ہونے کی وجہ سے پلیئرز ان ہوٹلز میں قیام پذیر ہیں۔ میزبان کھلاڑی بھی تواپنی گاڑیوں اور ٹیم کوچ میں سفر کرتے ہیں۔

اگر پاکستان ٹیم کو بھی کسی اچھے ہوٹل میں ٹھہراکر بس میں گراؤنڈ لے آتے تو کیا ہوتا، پی سی بی نے بھی تو لاہور کے ایک ہوٹل میں اپنے کھلاڑیوں کیلیے بائیو سیکیور ماحول بنایا تھا،اب وسیم خان نے بھی یہ مان لیا کہ کھلاڑیوں کی رہائشی و دیگر سہولتیں کمپرومائز ہو رہی ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ پی سی بی برابری کی بنیاد پر بات نہیں کرتا، اب بھی گوروں سے مرعوب ہے، وہ جو کہیں سر جھکا کر مان لیا، کسی پاکستانی صحافی کو سیریز کور کرنے کی اجازت نہیں دی گئی،البتہ 12 مقامی رپورٹرز موجود ہوں گے۔

یہ بھی غلط ہے جسے انگلینڈ جانا ہوتا اپنے اخراجات اور رسک پر چلے جاتا، تمام حفاظتی اقدامات پر عمل کے بعد مقامی رپورٹرز کی طرح اسے بھی اسٹیڈیم میں جانے دیا جاتا، سینئر صحافی قمر احمد نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے، ہر سال پاکستان سے 10،15 صحافی انگلینڈ میچز کی کوریج کیلیے جاتے ہیں، اس بار کوئی نہیں جا سکا، ویسٹ انڈیز نے تو چلیں انگلش بورڈ سے ''قرض'' لے لیاپاکستان کو اس سیریز سے کیا حاصل ہوگا؟ کون اس کا مین بینیفشری ہے؟ کیا کسی نے ٹیم کو بھیج کر اپنے مستقبل کو محفوظ بنایا ہے؟ یہ سب باتیں اگلے الیکشن کے بعد ہی سامنے آئیں گی۔

ہمیں یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ انگلینڈ میں کورونا کا خطرہ پاکستان سے زیادہ ہے، ٹی وی پر کھلاڑیوں کو چوکے، چھکے لگاتے دیکھ کر اچھا توبہت لگے گا لیکن وہ بیچارے بھی انسان ہیں، ان کی بھی فیملیز ہیں، اگر دورہ اتنا محفوظ ہے تو احسان مانی، وسیم خان اور ذاکر خان بھی ٹیم کے ساتھ ہر وقت رہیں، ان ہی ہوٹلز میں قیام کریں، مگر چارٹرڈ فلائٹ کو چھوڑ کر یقیناً ایسا نہیں ہوگا، کاشف بھٹی کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا تھا مگر بورڈ نے 9 دنوں تک کسی کو ہوا نہیں لگنے دی، ملک میں 10متاثرہ کرکٹرز کی فہرست وسیم خان نے ایسے پڑھی تھی جیسے اولمپک گولڈ میڈلسٹ پلیئرز کا اعلان کر رہے ہوں۔

انگلش کرکٹر جوفرا آرچر نے جس طرح بائیو سیکور پروٹوکول توڑا اس سے صاف ظاہر ہے کہ خطرات کھلاڑیوں پر منڈلا رہے ہیں،کسی بھی کرکٹر یا اسٹاف ممبرکی کوئی بھی ایک ایسی غلطی سب کو مشکل میں ڈال سکتی ہے،مجھے پورا یقین ہے کہ ان حالات میں بھارتی کرکٹ بورڈ کبھی اپنی ٹیم کو انگلینڈ نہ بھیجتا اور اگر بھیج دیتا تو ایسے ہوٹلز میں کسی صورت قیام نہ کرنے دیتا، مگر پاکستان نے اس دورے میں بہت کچھ کمپرومائز کیا ہے، جب ہم اپنے کرکٹرز کو خود عزت نہیں دیں گے تو دوسرے ایسا کیوں کریں گے۔

ہمارے بورڈ آفیشلز اور کرکٹرز بھارتی میڈیا کو ہمیشہ دستیاب ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی صحافیوں کو بی سی سی آئی کبھی کوئی انٹرویو نہ کرنے دے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ذہنی طور پر ہم خود کواور اپنے کرکٹرز کو کمتر سمجھتے ہیں،کاش کبھی وہ دن آئے جب دیگر بڑے بورڈز سے بھی برابری کی سطح پر بات ہو اور احساس کمتری کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے مگر افسوس مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں