وزیر اعظم کا سسٹم میں خرابیوں پر شکوہ

ارباب اختیار کو نظام کی خرابیوں کا شکوہ کرنے کے بجائے انھیں درست کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی تب ہی مسائل حل ہونگے۔


Editorial July 20, 2020
ارباب اختیار کو نظام کی خرابیوں کا شکوہ کرنے کے بجائے انھیں درست کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی تب ہی مسائل حل ہونگے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان ہفتے کو لاہور تشریف لائے جہاں انھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سمیت ارکان اسمبلی کے وفد سے ملاقاتیں کیں، ان کے مسائل سنے اور انھیں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی، اس کے علاوہ انھوں نے شیخوپورہ میں قائداعظم بزنس پارک کا سنگ بنیاد بھی رکھا' اس طرح ان کا یہ دن بہت مصروف گزرا۔

وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کے دوران ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے، وزیراعظم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں بے خوف ہو کر اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور عوامی ریلیف کے لیے ان کے کیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا، وزیراعظم نے ریور راوی فرنٹ اتھارٹی کے قیام اور پنجاب میں جاری ترقیاتی منصوبوں سمیت صوبائی حکومت کی کارکردگی کو بھی سراہا۔

وزیراعظم نے قائداعظم بزنس پارک کے سنگ بنیاد کے موقعے پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ شکوہ کیا کہ پچھلے تین چار ماہ سے انھیں اندازہ ہوا ہے کہ ملکی سسٹم ایسا ہے کہ کسی کو آسانی سے کام نہیں کرنے دیتا، نظام کی خرابی کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے ناکام ہوتے ہیں، سسٹم ایسا ہے کہ سلوڈاؤن کرو اورپیسے بناؤ،اگرپیسہ ہے توسارے کام ہوجاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ بزنس مین کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے، عام آدمی کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں،ہاؤسنگ منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں ختم کی ہیں، کنسٹرکشن انڈسٹری پر بہت محنت کی، ہاؤسنگ منصوبے کے ہرمرحلے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی ہے لیکن غریبوں کے لیے50لاکھ گھر بناکر دکھائیں گے،چینی کمپنیاں بھی اس میں پیسہ لگانا چاہتی ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی چپقلش' ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے رسہ کشی کوئی نئی بات نہیں لیکن موجودہ حکومت میں اس روایت کو مزید تقویت ملی ہے، جب بھی اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے تو حزب اقتدار کے ارکان اور وزراء کی جانب سے حکومتی کارکردگی اور عوامی فلاح کے لیے اقدامات اور پالیسیاں پیش کرنے کے بجائے اپوزیشن پر زور دار تنقید کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس پر اپوزیشن ارکان بھی حکومت کی خوب خبر لیتے ہیں اور اس طرح یہ اجلاس ملکی نظام میں موجود خرابیاں دور کرنے ، ملکی ترقی کے لیے پالیسیاں تشکیل دینے اور عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے الزامات در الزامات کی گونج میں اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے بالخصوص پنجاب حکومت کی کارکردگی مسلسل تنقید کی زد میں آ رہی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ پنجاب حکومت عوام کو کچھ ڈیلیور نہیں کر سکی بدستور جاری و ساری ہے۔ اپوزیشن اور پی ٹی آئی کے اندر پنجاب میں تبدیلی کے لیے متحرک گروہ کے سیاسی حربوں کے توڑ کے لیے وزیراعظم عمران خان کو بار بار انھیں یہ واضح پیغام دینا پڑتا ہے کہ وہ پنجاب حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور وزارت اعلیٰ پر عثمان بزدار ہی براجمان رہیں گے۔

وزیراعظم کا ویژن ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی تشکیل ہے، انھوں نے اپنے اس ویژن کی راہ میں آنے والی سسٹم کی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ ترقیاتی منصوبے نظام کی خرابی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو رہے' وزیراعظم کا یہ شکوہ بجا ہے لیکن دوسری جانب یہ سوال بھی اپنی جگہ اثر رکھتا ہے کہ اس وقت مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت تمام تر اختیارات کے ساتھ موجود ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اس کی حکومت ہے، صدر بھی اس کا اپنا منتخب کردہ ہے اس سب کے باوجود نظام کی خرابیوں کا اپنی جگہ موجود رہنا اور ان کے حل کے لیے کوئی پالیسی تشکیل نہ دینا، اس کا الزام پی ٹی آئی حکومت ہی پر عائد ہوتا ہے۔

اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کے خلاف محاذ آرائی کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے اگر نظام کی خرابیوں کو حل کرنے پر توجہ دی جائے تو اس سے ملکی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی اور وزیراعظم کو بھی یہ شکوہ نہیں کرنا پڑے گا کہ نظام کی خرابی کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اراکین اسمبلی سے ملاقات کے دوران انھیں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع کرنے کی ہدایت کی۔

بلدیاتی ادارے جمہوریت کی پہلی اینٹ ہیں، ان اداروں کے استحکام سے گراس روٹ لیول پر عوام کے مسائل حل ہوتے اور ان کا حکومت پر اعتماد بڑھتا ہے، گراس روٹ لیول پر جتنے ترقیاتی کام ہوں گے حکومت کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم نے پنجاب کے مسائل جاننے کے لیے جس طرح وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ارکان اسمبلی سے ملاقات کی اسی طرح انھیں دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ارکان اسمبلی سے بھی ملاقات کر کے وہاں کے مسائل جاننے اور ان کے حل کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔

ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آنے کی خبریں خوش آیند ہیں، یقیناً اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کے باوجود عوام کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ احتیاط کا دامن تھامے رہیں، کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی اور لاپرواہی انھیں موت کے قریب کرسکتی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں بہت سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے، وہی بڑھتی ہوئی بے روزگاری جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، چند ماہ کے دوران جرائم کی شرح میں تیس سے چالیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ، جب راہزنی یا موٹرسائیکل چھیننے سمیت دیگر جرائم کی وارداتیں رپورٹ نہ ہوتی ہوں،گھروں میں چوری اور تالے توڑکر دکانوں کا صفایا کیا جارہا ہے۔ گھروں کے باہر نصب پانی کی موٹریں چوری کرکے بلیک مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہے۔ ایک جانب جرائم کی مختلف وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب جعل ساز گروہ بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو سدھارنا حکومت کا فرض ہے، پولیس کو جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے اپنی تمام ترکوششیں بروئے کار لانا ہوگی کیونکہ عوام عدم تحفظ کا شکار ہورہے ہیں، جو کہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔

ایک جانب حکومت کورونا وائرس سے نبرد آزما ہے تو دوسری جانب منافع خور مافیا نے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے عوام کو لوٹنے کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ ملک بھر میں آٹے کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے اور محکمہ خوراک کی جانب سے قائم کیے گئے آٹا پوائنٹس بھی تقریباً ختم ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے شہری مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔

آٹا ڈیلرزکے مطابق قیمت میں مزید اضافہ کے امکانات ہیں ، آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافہ کے بعد نانبائیوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کردیا ہے، روٹی مزید مہنگائی ہورہی ہے، جب کہ انتظامیہ کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں چینی بھی 90روپے فی کلو سے تجاوز کرگئی، جب کہ بوری کی قیمت 4250روپے تک پہنچ گئی ہے۔

چینی کی قیمت میں ایک ہفتے کے دوران 10روپے فی کلو تک کااضافہ ہو گیا۔ چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ سے اس کاروبار سے وابستہ تاجروں نے پرانے اسٹاک کو بھی نئے نرخوں پر فروخت کرنا شروع کردیا ہے اور اسٹاک کی جانے والی چینی کے نئے نرخوں پر فروخت سے کروڑوں روپے کا منافع کما لیا ہے۔ چینی کی بوری 3900روپے سے 4200روپے تک پہنچ گئی۔ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے چینی کی قیمت میں 4 مہینے کے دوران 25روپے فی کلو کااضافہ ہوا ہے چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ کے باعث تاجروں نے بڑی مقدار میں چینی کی خریداری شروع کردی ہے۔

وفاقی حکومت نے فارما کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں 7 سے 10 فیصد اضافے کی اجازت دے دی ہے۔ جب کہ گزشتہ برس کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق بنیادی ادویات کی قیمتوں میں 5.14 فیصد جب کہ دیگر تمام ادویات کی قیمتوں میں 7.34 فیصد اضافے کی اجازت دی گئی تھی۔ درحقیقت ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ عوام کی مشکلات کو مزید بڑھائے گا، اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اضافے کو واپس لیا جانا چاہیے،کیونکہ ادویات کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔ مہنگائی پر قابوپانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام کو تھوڑا سا ریلیف مل سکے۔

کراچی میں بارش کے بعد صورتحال کافی خراب ہے، شہر کے بعض علاقوں میں بجلی کی بحالی میں اٹھارہ گھنٹے لگ گئے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں، ندی ،نالوں کی بروقت صفائی نہ ہونے کے باعث بارش کا پانی سڑکوں پر جمع ہوا، گھنٹوں گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنسی رہیں، کھارادر میں قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش ایک بار پھر نہ صرف برساتی پانی کی نذر ہوگئی بلکہ ساتھ ہی سیوریج کا پانی بھی شامل ہونے سے علاقہ تعفن زدہ ہوگیا ہے۔

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت کی عدم توجہی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ کراچی کا معاشی پہیہ رکے گا تو پورے ملک کا نظام جام ہوجائے گا، ارباب اختیار کو نظام کی خرابیوں کا شکوہ کرنے کے بجائے انھیں درست کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی تب ہی مسائل حل ہونگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں