قرضوں کا جادو اور حکومتیں
مہنگائی سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اور جو متاثر ہوتا ہے وہ فطری طور پر حکومت سے ناراض رہتا ہے۔
حکومت کی نااہلی کا مطلب وہ کام جو حکومت کر سکتی ہے وہ بھی نہ کرنا ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی بہت ساری کمزوریوں اور نا اہلیوں کے باوجود حکومت کی حمایت کرنا قلم کاروں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت کا بھی یہی مسئلہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت سر سے پاؤں تک مسائل میں گھری ہوئی ہے، جو زیادہ تر ورثے میں ملے ہوئے ہیں لیکن بعض اہم مسائل اسی دورکی پیداوار ہیں۔
مثلاً آٹا، گندم، چینی وغیرہ کی غیرمعمولی مہنگائی۔ آٹے اور چینی کو لے لیں، ان اشیا کے تاجر بے جواز مہنگائی میں عوام کو دھکیل رہے ہیں اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ اس خود ساختہ مہنگائی کو منصفانہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے۔
حکومت کے پاس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے پرائس کنٹرول کمیشن کے نام سے ہزاروں افراد پر مشتمل ایک بڑا سیٹ اپ موجود ہے، اگرچہ حکومت سختی سے اس سیٹ اپ کے ذریعے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیٹ اپ سر سے لے کر پیر تک کرپٹ ہے، جس کا علم حکومت کو ہے لیکن نہ جانے کیوں ہر حکومت اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مہنگائی سے ہر آدمی پریشان ہے اور اس سے ہر قیمت پر نجات چاہتا ہے۔ حکومت تاجر برادری کو غیر معمولی مراعات دے رہی ہے جس کے جواب میں تاجر برادری عوام کی کھال اتارنے میں مصروف ہے۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ تاجروں کی ناک میں نکیل نہیں ڈالی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاجر برادری بہت منظم اور طاقتور ہے لیکن حکومت کی طاقت کے سامنے کوئی برادری عوامی مفادات کے خلاف سر نہیں اٹھا سکتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت نے تاجر برادری کو عوام کو لوٹنے کا کھلا لائسنس دے دیا ہے۔
مہنگائی سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اور جو متاثر ہوتا ہے وہ فطری طور پر حکومت سے ناراض رہتا ہے۔ مہنگائی اپوزیشن کے لیے ایک نعمت ہے اس مسئلے پر اپوزیشن عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن اپوزیشن کی ''کارکردگی'' نے عوام کو اپوزیشن سے اس قدر بدظن کر دیا ہے کہ وہ اس کی کال پر سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ سچ ہے کہ عوام سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں لیکن اس وجہ سے یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام کے رویے سے حکومت اپنی ذمے داری سے دستبردار ہو جائے۔ حکومت نئے پاکستان کی رٹ لگائے ہوئے ہے عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سر سے گزر جانے والی مہنگائی کا نئے پاکستان سے کوئی تعلق بنتا ہے؟
اصل مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ حکومت نے عوامی مسائل کے حل کے لیے کسی قسم کی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا اگر کہیں اس حوالے سے کچھ کیا بھی گیا تو وہ ادھورا کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے سرکاری اداروں میں کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ جو بہت مشکل کام ہے غالباً مہنگائی کسی حکومت کے قابو میں نہیں آسکی یہی وہ المیہ ہے جو حکومت کے سامنے بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی کے پروگراموں میں عالمی مالیاتی ادارے بہت مدد کرتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے دنیا کے ملکوں خصوصاً پسماندہ ملکوں کو اربوں روپے دیتے ہیں عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ عالمی مالیاتی اداروں کی امداد ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ''بھاری امداد'' بھاری سودی قرض ہوتا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ عالمی مالیاتی ادارے عوام دشمن شرائط کے ساتھ بھاری سود والا قرض دیتے ہیں یہ جو اشیائے صرف پٹرول گیس وغیرہ کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کیا جاتا ہے یہ عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر کیا جاتا ہے۔ حکومت بھی ان اداروں کی اربوں بلکہ کھربوں روپوں کی مقروض ہے ان قرضوں پر سود ہی اربوں ڈالر جاتا ہے، حکومت نے بھاری قرض حاصل کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
حکومت مختلف ترقیاتی کام کر رہی ہے یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن ان کاموں یا پراجیکٹس پر خرچ کی جانے والی بھاری رقوم عموماً مالیاتی اداروں کی سودی رقوم ہوتی ہیں۔ پٹرول، گیس سمیت کھانے پینے کی مختلف چیزوں کی قیمتوں میں بھاری اضافہ انھی عالمی مالیاتی اداروں کی عنایت ہے۔ ہماری سابقہ حکومتوں نے عوام کی جو ''خدمت'' کی ہے وہ انھی عالمی مالیاتی اداروں کی دین ہے جس کا سود ہی اربوں ڈالر بن جاتا ہے۔ عوام کو خبر تک نہیں ہوتی کہ ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اپنے سر پر ہزاروں ڈالرکا بوجھ اٹھائے ہوتا ہے۔ یہ ہے عالمی مالیاتی اداروں کی حاکمانہ امداد جس سے حکومتیں بندھی ہوتی ہیں۔
سابقہ حکومتوں نے بھی عوام کو جس ترقی سے روشناس کرایا وہ بھی انھی عالمی مالیاتی اداروں کی مرہون منت ہے۔ حکومت عوام کی جو مدد کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر لاک ڈاؤن کے دوران دیہاڑی دار مزدوروں کو جو فی خاندان بارہ ہزار روپے کی امداد دی گئی جو اربوں نہیں کھربوں میں آتی ہے یہ بھی کسی نہ کسی حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں کی مہربانی ہی ہے۔
حکومت نے جو ترقیاتی کام کیے ہیں اور سابقہ حکومتوں نے مہنگائی کو جو روک رکھا ہے وہ بھی عالمی مالیاتی اداروں کی مہربانی کا ہی نتیجہ ہے اور اسی قسم کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ سابق حکومتوں نے عمران حکومت کے لیے اربوں ڈالرکا ایسا قرض چھوڑا اور خود عمران حکومت نے جو اربوں ڈالر کا قرض حاصل کیا وہ ہمارے مستقبل کے سرکا ایسا بوجھ ہے جس میں آئے دن اضافہ تو ہو رہا ہے کمی نہیں ہو رہی ہے۔
آج پاکستانی عوام اربوں ڈالر کے جن قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں ان میں بڑا ہاتھ سابق حکومتوں کا ہے۔ آئی ایم ایف دنیا کا بڑا عالمی مالیاتی ادارہ ہے یہ ادارہ نہ صرف بھاری سود لیتا ہے بلکہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی شرط لگاتا ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں اتنی گر گئیں کہ تیل بیچنے والے ادارے تیل خریدنے والوں کو ٹپ دینے لگے، لیکن افسوس یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ جتنا ہونا تھا اتنا نہ ہوا عوام کو پانچ تا دس فیصد پر ٹرخا دیا گیا۔