کراچی کا فیصلہ

کیا ایسا ممکن ہے کہ کراچی اور ملک سے زیادتی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جاسکے؟

کوئی بھی دور حکومت ہو، کراچی اور کراچی والوں کو انصاف نہیں مل سکا۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD:
کمرۂ عدالت میں ہر طرف شور ہی شور سنائی دے رہا تھا۔ ابھی جج صاحب اپنی مخصوص کرسی پر تشریف نہیں لائے تھے، اس لیے ہر شخض اپنی اپنی رائے کے مطابق فیصلہ آنے سے پہلے ہی فیصلہ سنائے جارہا تھا۔ کوئی کہتا کچھ نہیں ہونے والا۔ کوئی کہتا پہلے والے کیسوں کی طرح اس کا حال بھی یہ ہی ہوگا۔ کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھلا کراچی کو پاکستان سے نکال دیں گے تو پیچھے رہ کیا جائے گا۔ اسی طرح کے کئی کمنٹس سنائی دیے۔ میڈیا نمائندگان نے قلم ہاتھ میں پکڑ لیے۔ اور کچھ لمحوں بعد دروازہ کھلا اور معزز جج صاحبان تشریف لائے۔ کمرۂ عدالت میں سب احتراماً کھڑے ہوگئے اور جج صاحبان کے بیٹھنے پر اپنی اپنی سیٹیں سنبھال لیں۔

چند لمحے خاموشی کے بعد گزشتہ سماعت پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنانے کا وقت آچکا تھا۔ جج صاحب نے چند کاغذ الٹ پلٹ کر دیکھے اور پھر ایک نظر کمرۂ عدالت میں موجود لوگوں پر ڈالی اور فیصلہ سنانا شروع کردیا۔ اس کیس میں اگر دیکھا جائے تو تمام ادارے مجرم ہیں۔ مدعی نے جس بنا پر کیس کیا پہلے اسے ایک مرتبہ دہرایا جائے گا، جس کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔

مدعی نے درخواست میں لکھا کہ کراچی کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، لیکن اگر کسی موٹرسائیکل کی بتی نہیں جلتی تو فوراً چالان کردیا جاتا ہے۔ سڑک بنانے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں پر آج تک کوئی کیس نہیں کیا گیا۔ آج تک سندھ حکومت اور سٹی حکومت مرغی کا گوشت اور دودھ کے نرخ پر کنٹرول نہیں کرپائی تو آگے اس سے مزید کیا امیدیں وابستہ رکھی جائیں؟ کیسے وہ اور کراچی کو کنٹرول کرسکتی ہیں۔ یہاں نو پارکنگ سے گاڑی اٹھا کر پھر نو پارکنگ میں ہی کھڑی کرکے جرمانہ کیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیوں کہ یہ کام بھی ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔ پانی کی فراہمی واٹر بورڈ کی ذمے داری ہے، مگر گھروں میں لائن کے ذریعے پانی نہیں آتا۔ ٹینکرز مافیا کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے، ہائیڈرنٹس تک ٹھیکے پر دیے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود واٹر بورڈ ماہانہ بل بھیج دیتا ہے۔ کے الیکٹرک کراچی پر ایک عذاب کی صورت میں مسلط ہے۔ ہر طرف لوڈشیڈنگ ہے، بجلی دستیاب نہیں۔ کے الیکٹرک کے اپنے ہی لوگ چوری میں ملوث ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی بل آرہے ہیں اور ایوریج سے کہیں زیادہ آرہے ہیں۔ اووربلنگ کی شنوائی کےلیے کوئی موثر اور ٹھوس اقدامات نہیں۔ جو بل کمپیوٹر سے نکل گیا وہ ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔

سٹی گورنمنٹ بارش سے قبل شور مچاتی ہے کہ نالے صاف کرنے ہیں، فنڈ دیے جائیں۔ لیکن جو فنڈ ملتے ہیں ان سے بھی نالے صاف نہیں ہوتے اور بارش میں آدھے سے زیادہ کراچی سیوریج کے پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ سندھ حکومت نے سینٹرل علاقوں میں کیے گئے تعمیراتی کام کو ہی ترقی سمجھ لیا ہے، جب کہ دیگر مضافاتی علاقوں کے رہنے والے آج بھی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ انصاف کرنے والے ادارے انصاف کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ عدالت میں ہی سو روپے والا اسٹامپ پیپر دو سو روپے کا بک رہا ہے، مگر پھر بھی اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔ تعلیم کا معیار انتہائی حد تک گرنے کے بعد بھی وزیرتعلیم کا کوئی ایکشن نہ لینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت نے تعلیمی معیار کو ایک سوچے سمجھے مقصد کے تحت گرا رکھا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ہمیشہ ان کی غلامی میں زندگی بسر کریں۔ پرائیوٹ اسکول ہر طبقے کے بس میں نہیں۔

اسپتالوں میں صحت کے اصول پر کاربند رہنے کی تلقین کے بورڈ تو آویزاں ہیں، مگر صحت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ایک سوئپر بھی آپریشن روم میں ڈاکٹرز کے ساتھ کھڑا کام کررہا ہوتا ہے اور باہر گیٹ پر کھڑا چوکیدار پرچی دیکھ کر دوا بتارہا ہوتا ہے۔ ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹرز موبائل فونز پر زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔ وزیرصحت کی توجہ اس پر بھی نہیں کیوں کہ یہاں تمام تر سیاسی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ اگر ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے تو پھر ووٹ بینک ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

پولیس بھی سیاست کی نذر ہوچکی ہے۔ تھانوں میں اپنے من پسند ایس ایچ اوز لگانے کی روایت تو بہت پرانی ہے مگر اب نئے اورجدید طریقوں سے اس پر کام کیا جارہا ہے۔ ایک سب انسپکٹر کو ایس ایچ او کا چارج دے کر اسی تھانے میں موجود ایک انسپکٹر کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ ایسے میں عوام کے جان ومال کی حفاظت کا معیار بھی انتہائی حد تک گرچکا ہے۔ لوگ پولیس کمپلین کرانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ سادہ لباس پولیس اہلکار ہر وقت شکایت کنندہ کو ڈرانے اور دھمکانے جیسے معاملات میں ملوث نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں کرائم کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

یہاں وزیر داخلہ بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس پارٹی کے ہی اتنے کام ہوتے ہیں کہ وہ ان معاملات کی طرف دیکھ ہی نہیں پاتے۔ آئی جی سندھ اور سندھ حکومت کا ہمیشہ سے ٹکراؤ رہا ہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے علاقے سے ووٹ لینے کے بعد ان کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ اسمبلیوں میں جو آواز گونجتی ہے اس سے عوام کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ وزیراعظم ان حرکات پر اپنی کابینہ کے لوگوں کو داد و تحسین دیتے نظر آتے ہیں۔


ملک میں آٹا، چینی مہنگی ہوجائے تو دو چار ماہ بعد نوٹس لیا جاتا ہے اور پھر اس پر ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے۔ جب تک عوام کی جیبوں سے اربوں روپے ناجائز طریقے سے نکال لیے جاتے ہیں۔ جب انکوائری مکمل ہوتی ہے تو اسے محفوظ کرکے تجوری میں بند کردیا جاتا ہے، لیکن قیمتیں اپنی اصل حالت میں نہیں آتیں۔ پٹرول سستا ہوجائے تو عوام کی دسترس سے باہر ہوجاتا ہے، مہنگا ہوجائے تو فوری مل جاتا ہے۔ اس پر بھی انکوائریاں کی جاتی ہیں۔

یہاں نظام مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے۔ ہر ادارہ اپنی اپنی سطح پر بے ایمانی کے نئے ریکارڈ گنیز بک میں درج کرا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس پر آج تک کوئی ایکشن دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ حکومت اور انتظامیہ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے کہ آج عوام ذہنی طور پر بیمار ہوچکے ہیں۔ جس کا سیدھا سیدھا اثر معاشرے کی صحت پر پڑ رہا ہے۔ آج درحقیقت یہی لگ رہا ہے کہ معاشرہ بیمار ہوکر کافی کمزور ہوچکا ہے جو کسی بھی وقت دم توڑ دے گا۔

جج صاحب کہتے کہتے رک گئے۔ پھر پانی کا گلاس اٹھایا اور دو گھونٹ پانی پینے کے بعد کہا۔ اس پورے نظام کو تہس نہس کرنے میں ہم سب کا برابر کا حصہ ہے۔ عدالتیں اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں۔ حکومت نے عدالتوں کو اپنے مفادات کی خاطر حیلے بہانوں سے مختلف نوعیت کے کیسوں میں الجھائے رکھا، جس سے وہ عوامی مقدمات پر خاص توجہ نہیں دے سکیں۔ اس کیس کو دیکھتے ہوئے مدعی کی تمام تر شکایتیں جائز لگتی ہیں، کیوں کہ ہم ملک اور معاشرے کی بہتری کےلیے حکومتی سسٹم کا حصہ ہیں لیکن ہمیں اس طرح استعمال کیا گیا کہ آج تک ہمیں بھی اس کا اندازہ نہیں ہوسکا۔ آئینی حدود میں رہنے کی بات کرنے والے آئینی حدود سے باہر نکلنے پر اسی آئینی حدود کو ہمارے پاس چیلنج کےلیے پیش کرتے رہے اور ہم ان بے جان درخواستوں پر اپنا وقت برباد کرتے رہے۔ لمبی لمبی تاریخیں دے کر کمزور مدعی کو مزید کمزور کرنے میں ہم نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ جو احکامات دیے جاتے ان پر دوبارہ پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ آخر اس کا کیا بنا۔ ہماری ناک کے نیچے ایک سو روپے والا اسٹامپ پیپر دو سو روپے کا بک رہا ہے اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔ ہم حکومت کو گائیڈ نہیں کرسکتے، اس کےلیے اسمبلیاں موجود ہیں۔ قانون سازی وہیں ہوتی ہے ہم صرف ایک اسٹمپ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بھلا کوئی چور اپنے آپ کو پھنسانے کےلیے کوئی ایسا قانون تو نہیں بناسکتا جس سے اس کی آزادی سلب ہوجائے۔ اس لیے اس قانون میں ہر بار ہر حکومت نے ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔

جج صاحب نے کمرہ عدالت میں سب کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور چند لمحے خاموشی کے ساتھ پھر کہنا شروع کیا۔ کراچی میں موجود تمام اداروں کے سربراہ کراچی اور کراچی والوں کے مجرم ہیں۔ فوری طور پر ان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے تمام بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات بھی ضبط کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد میئر کراچی، وزیراعلیٰ سندھ سمت تمام وزرا عوام کا بھلا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ انہوں نے عوام سے جو وعدے کیے وہ پورے نہ کرنے پر انہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم بھی سسٹم کو چلانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی نااہل کیے جاتے ہیں۔ نگران سیٹ اپ اور نئے الیکشن کےلیے الیکشن کمیشن سے مزید ہدایت لی جائیں۔

پھر کچھ دیر خاموشی رہی اور جج صاحب نے کہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں بھی اسی فرسودہ نظام کا ایک بے کار پرزہ ہوں لہٰذا میں خود بھی استعفیٰ دے کر خود کو احتساب کےلیے پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی حبیب جالب کی نظم ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'' بھی سنادی۔

بجلی جانے پر اچانک میری آنکھ کھل گئی اور سوچنے لگا کہ واقعی ایسا کبھی ممکن ہے کہ کراچی اور ملک سے زیادتی کرنے والوں کو اس طرح سزا دی جاسکے؟ لیکن پھر یہ سوچ کر گرمی میں ہی سوگیا کہ جب تک بھٹو زندہ ہے، شیر پنجرے سے باہر ہے اور بلا گراؤنڈ میں موجود ہے اس وقت تک ملک کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ اور نہ ہی کراچی اور کراچی والوں کو انصاف مل سکتا ہے۔ لہٰذا مرغی کا گوشت، دودھ، آٹا، چینی، گھی، تیل مافیا کی مرضی کے نرخ پر خریدیے اور چپ رہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story