بزدار ہی نکلے

مائنس ون کا جو پہاڑ کھودا جارہا تھا، آخر میں بزدار ہی نکلے، چاہے محض خبر میں نکلے یا سچ میں وزارت اعلیٰ سے نکلے

مائنس ون کا جو پہاڑ کھودا جارہا تھا، آخر میں بزدار ہی نکلے، چاہے محض خبر میں نکلے یا سچ میں وزارت اعلیٰ سے نکلے۔ (فوٹو: فائل)

بجٹ سیشن کے اِردگرد کھدائی شروع ہوئی: حکومت کا گریس پیریڈ یعنی دو سال ختم ہونے کو ہے۔ کارکردگی نام کی نہیں۔ عوام نالاں ہیں اور حکومتی مشینری غیر فعال ہے۔ معیشت منفی۔ مطلب ملک ہی مائنس میں چل رہا ہے۔ کافی ہل جل ہوئی، حتیٰ کہ ہل چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ اوپر سے چوہدری برادران اپنا 'ٹریکٹر' لے کر آگئے۔ بس پھر تو مائنس ون، مائنس ون کا ٹیپ ریکارڈر آن ہوگیا۔ درد کا حل: دو گولی۔ بس وزیراعظم نے اسمبلی میں دو 'انٹریاں' ماریں اور اس حد تک آرام آگیا کہ بات پھر وہی 'ہفتہ وار۔ تبدیلی بزدار' پر آکر ٹھہر گئی۔

کہا جارہا ہے کہ اس بار وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کی بات پارٹی کے بہت اندر سے کی جارہی ہے، جس کی اسلام آباد سے بھی حوصلہ افزائی ہے۔ اسی لیے ستاروں کے مطابق 'یہ ہفتہ بھاری رہے گا'۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ بزدار نے بھی 'میسنے پن' میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر اندر سے ارکان جمع ہورہے ہیں، تو وہ باہر والے ارکان سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ نون لیگی (باغی) کے سربراہ ڈاہا کا دعویٰ ہے کہ یہ ارکان دکھانے کو تو پانچ ہیں، لیکن اصل میں کھانے کو پانچ ضرب پانچ ہیں۔

'قرعہ فال' کے وقت عمران کے فینز عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی پر دادو تحسین کے ڈونگرے تو برسا ہی رہے تھے، ساتھ ہی تجزیہ کاروں کی اکثریت بھی واہ واہ کر رہی تھی کہ 'اس کے گاؤں میں اب تک بجلی نہیں آئی ہے'۔ بغیر بجلی کے اس بار خالص 'خادم اعلیٰ' بن سکتا ہے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ چھ ماہ بعد قلعی کھل گئی کہ نری 'پھوک' ہے۔ کارکردگی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تو اب سیاسی ماہرین کے پاس صرف 'لٹھ بزداری' بچ گئی ہے۔

اس بار تو عمران خان نے مائنس ون کے پس منظر میں اپنے پنجاب ارکان اسمبلی کی خود حوصلہ افزائی کی کہ درجن آدھ درجن ملاقاتیں کیں، شکایتوں کے انبار سنے، ان کو تسلی دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈپٹی وزرائے اعلیٰ کی جو لمبی لسٹ ہے وہ پھر سے بننا سنورنا شروع ہوگئی۔

''نیب شدہ'' علیم خان دوبارہ سینئر وزیر بننے کے بعد خاموش شدہ ہیں۔ شاید ان کو احساس ہوا ہو کہ یہاں خاموش رہنے والوں کی لاٹری نکل آتی ہے۔ ساتھ میں لاہور ہی کے اسلم اقبال ہیں۔ دونوں کی کوالٹی لاہوری ہونے کے ساتھ ''رننگ بیٹوین دی وکٹ'' ہے۔ یعنی وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں دونوں دوڑ دھوپ کرسکتے ہیں۔ موجودہ 'انضمام' والا حال نہیں ہوگا کہ چوکے چھکے صرف تونسہ تک محدود اور باقی پنجاب میں 'رن آئوٹ'۔


ساتھ ہی اس فہرست میں خسرو بختیار کے ہونہار بھائی مخدوم ہاشم جوان بخت اور اک اک عدد لغاری اور بخاری بھی۔ کون بخاری؟ کوئی یاور بخاری ہیں، کزن آف دی فرینڈ۔ محمودالرشید حیرت انگیز طور پر آؤٹ ہیں، لیکن تبدیلی کی صورت میں فیاض الحسن چوہان بھی ڈارک بلکہ 'بہت ہی زیادہ ڈارک' ہارس ہوسکتے ہیں۔ ایک تو پنجاب میں سرپرائز ویسے بھی اچھا لگتا ہے، دوسرا وہ صحیح معنوں میں فیس آف ٹائیگرز ہیں اور مرکز اور پنجاب میں جو غیر متوازنی پائی جاتی ہے وہ بھی دور ہوجائے گی۔ ادھر بھی بڑھکیں۔ اُدھر بھی۔

بہرحال مائنس ون کا جو پہاڑ کھودا جارہا تھا، وہ کمال ہوشیاری سے سدا کے موضوع کی طرف مڑ گیا ہے۔ ساتھ ہی مائنس ون میں دی جانے والی گولیوں کے ساتھ وفاقی حکومت کےلیے مون سون کی ٹھنڈی ہوائیں بھی کچھ چلنے لگی ہیں۔ کورونا کے حوالے سے اسد عمر کی کمانڈ کی بھی تعریف ہے، جو کمانڈ تو 'اعلیٰ سطح' کی کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک وزیراعظم کے انڈر کمانڈ ہی لگتے ہیں۔ معیشت کی ڈوبتی کشتی میں ریکارڈ ترسیلات ہوا کا جھونکا ہے۔ کورونا کا بحالی ریٹ بھی تسلی بخش ہے۔ بس شیخ صاحب کی خیر منا لیں۔ انھوں نے کورونا کے شروع میں بھی حسب معمول شیخی ماری تھی۔ کہیں اس بار شیخی گلے نہ پڑ جائے۔

عمران خان کے علاوہ کوئی اور اوپر بٹھا بھی دیا جائے تو کیا ہوجائے گا؟ ابھی سوا ستیاناس ہے تو موجودہ انتظام کے تحت چوں چوں کے مربے میں ستیاناس تو رہنا ہے۔ پھر 'سوا' کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ اپنا 'کلو' کیوں خراب کرے۔ اس لیے عمران خان کے حوالے سے فی الحال ستے خیراں کی رپورٹ ہے۔ یعنی کم سے کم اگلے سال مارچ سینیٹ الیکشن تک۔

جہاں تک وزارت اعلیٰ پنجاب کی بات ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی میں عمران خان کی سرپرستی اور ضد، وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی حیرت انگیز چالاکیوں کے علاوہ چوہدری صاحبان بہت بڑا فیکٹر ہیں کہ اپنی دال نہ گلنے کی صورت میں ان کو جمالی اور بزدار جیسے ہی بھاتے ہیں اور کسی 'تیز' وزیراعلیٰ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ موجودہ نمبر گیم میں تو ان کے دس ارکان سو کے برابر ہیں۔ لیکن 'جیپ' آگے لگ جائے تو ان کا ٹریکٹر سو والا ہو یا ہزار والا، جیپ کے پیچھے ہی جاتا ہے۔

بزدار تو ویسے بھی بقول وزیراعظم پلس ہیں، بلکہ 'سرپلس' ہیں۔ اس لیے ان کی تبدیلی واقعی ہو بھی جائے تو کسی مائنس کے زمرے میں نہیں آتی۔ تبدیلی یا نہ تبدیلی کوئی بھونچال والی حیثیت نہیں رکھتی۔ مائنس ون کا جو پہاڑ کھودا جارہا تھا، آخر میں بزدار ہی نکلے، چاہے محض خبر میں نکلے یا سچ میں وزارت اعلیٰ سے نکلے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story