تبدیلی تو پیچھے رہ گئی
تحریک انصاف تبدیلی کی گاڑی پر سوار ہوئی تھی۔ اب یا حکمراں جماعت کو پیچھے جانا پڑے گا یا تبدیلی کو آگے لانا پڑے گا
گپ شپ بہت لمبی ہوتی جارہی تھی، لیکن چودہویں کے چاند کی مسحور کن روشنی میں چاند کی سفید ٹکیا کے سامنے سے گزرتے مسافر جہاز کی لائٹوں کے منظر نے ہم دونوں دوستوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ ہم چھت پر لیٹے ہوئے تھے اور موجودہ بجلی بحران کی وجہ سے متوسط طبقے کے لوگوں کےلیے رات کو آرام دہ بنانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ چاند کے پرنور عکس پر ٹک ٹکی باندھے میرا دوست کہنے لگا۔
''تم لوگ بجلی کے محکمے میں شکایت کیوں نہیں کرتے کہ وہ تمھارے علاقے کی بجلی کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرے۔ یہ تو تمہارے سینئر سٹیزن ہونے کا حق ہے کہ تم لوگ اپنے مسائل علاقے کے ایم پی اے کے سامنے رکھو۔ کئی سال سے شہر قائد میں اسی طرح ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ کسی بھی عوامی مسئلے کی مقتدر حلقوں میں تب تک سنوائی نہیں ہوتی جب تک کہ عوام پلے کارڈز، بینرز لے کر جلوس نہ نکالیں۔ کچھ دن نہیں گزرتے کہ عوام اپنے مسائل کو حل کروانے کےلیے سڑکوں پر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو عوامی مسائل میں اپنی سیاست چمکانے کا موقع میسر آجاتا ہے اور پھر اس بات پر میڈیا کے ٹاک شوز چلتے ہیں۔ ان ٹاک شوز میں مخالف جماعتوں کے سیاست دانوں کو بٹھایا جاتا ہے اور پھر پورا ٹاک شو اسی اُدھیڑ بن میں گزر جاتا ہے کہ تم نے ماضی میں من مانیاں کیں، تم نے کرپشن کرکے عوام وملک کو لوٹا، ناجائز منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دی، معیشت کو برباد کیا، اداروں میں اقربا پروری کرکے اپنوں کی بھرتیاں کروائیں۔ لہٰذا اب عشروں کا گند ہم کیسے مہینوں میں صاف کردیں؟ ہمیں تو ایسا پاکستان ملا ہے، جس میں ہر ادارہ بیساکھیوں پر چل رہا ہے۔ اس لیے علاج میں کچھ تو وقت لگے گا۔
حکمراں جماعت کے رہنما کہتے ہیں کہ ہمیں ملک کو بچانے کےلیے نئے سرے سے آغاز کرنا پڑ رہا ہے اور ہماری جماعت نے عمران خان کی قیادت میں نئے پاکستان کا ڈھانچہ بنا کر ایک نئی تبدیلی کا آغاز کردیا ہے۔ ہماری پوری ٹیم اس کوشش میں مصروف ہے کہ جلد ازجلد مزید نئے پروجیکٹ شروع کیے جائیں۔ عوام بس بھروسہ رکھے، بہت جلد بہت اچھا ہونے والا ہے۔''
میرا دوست شدت دکھ سے اب اٹھ بیٹھا تھا اور اس نے تکیہ اپنی گود میں رکھتے ہوئے مجھے متوجہ کیا اور بولا ''تبدیلی کا ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ خان صاحب جن غریبوں کے ووٹوں سے الیکشن جیت کر گدی پر متمکن ہوئے تھے اب وہی غریب ان کے جانے کی دعائیں کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک ہونے والے ہزاروں سروے رپورٹوں میں پاکستان تحریک انصاف کی عوامی پسندیدگی کی شرح مایوس کن ہے۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ مزدروں کا درد اور غریبوں کے دکھوں میں ہلکان ہونے والا اقتدار میں آکر اپنے نظریات سے منہ موڑ لے گا۔
اب تم خود کو دیکھو لو! دن بھر تم مزدوری کرتے ہو اور پھر تمہارا کام بھی بہت مشکل، آگ میں جھلسا دینے والا ہے۔ تم نے بتایا کہ تم جس فیکٹری میں کام پر جاتے ہو وہاں گھی کے کنستر اور کوکنگ آئل کے ڈبے بنتے ہیں۔ لازمی بات ہے کہ ان کی مینوفیکچرنگ دھاتی کیمیکل، زہریلی گیس، آگ کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر تم خود بھی کنستر بنانے، ان کی پلیٹوں کو کاٹنے کے کاریگر ہو، تو یہ خطرہ بھی لاحق رہتا ہوگا کہ کہیں وہ چھری سے تیز پلیٹیں مزدوروں کو نقصان نہ پہنچائیں''۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بولا ''مجھے سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومت نے غریب آدمی کی فلاح کےلیے کون سے شعبوں میں سہولت اور ریلیف دیا ہے جس کا فائدہ براہ راست ان غریب مستحقین تک پہنچتا ہو۔ کورونا بحران میں فی خاندان 12 ہزار روپے احساس پروگرام کے ذریعے نقد رقم دے کر عوام سے جس قدر بھونڈا مذاق کیا گیا، اسے تبدیلی کے نام پر سیاہ داغ ہی کہا جائے گا۔ شنید ہے کہ حکومت احساس پروگرام کی مختص کی گئی رقم کو 144 ارب روپے سے بڑھا کر 208 ارب روپے کررہی ہے۔ حکومت کی کارکردگی نجی شعبوں میں صفر ہے۔ وزرا کام نہیں کرنا چاہتے اور تبدیلی سرکار کا کام دھونس دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ پتا نہیں یہ اس حکومت کا سر کہاں اور پیر کہاں ہیں۔''
مجھے لگا کہ اب میرا دوست بہت جذباتی ہوجائے گا، اس لیے میں نے اس سے کہا ''چھوڑو! ان باتوں کو۔ میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک بادشاہ نے گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا تو کمہار سے پوچھا ''میاں! گدھوں کو کس طرح سیدھا رکھتے ہو؟'' کمہار نے جواب دیا ''بادشاہ کا مقام بلند ہو۔ جو گدھا لائن توڑتا ہے، میں اسے سزا دیتا ہوں۔ بس اسی خوف سے یہ سارے گدھے سیدھا چلتے رہتے ہیں۔'' بادشاہ کو بڑی حیرت ہوئی تو اس نے کہا ''کیا تم ملک کا نظام ٹھیک کر سکتے ہو؟'' کمہار نے کہا ''جی حضور یہ بھی کوئی مشکل کام ہے؟'' بادشاہ نے اسے منصب عطا کردیا تو پہلے ہی دن کمہار کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ لایا گیا۔ کمہار نے فیصلہ سنایا ''چور کے ہاتھ کاٹ دو۔'' جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اور کمہار کے کان میں بولا ''جناب! یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔'' کمہار نے دوبارہ حکم دیا ''چور کے ہاتھ کاٹ دو۔'' اس کے بعد خود وزیر نے کمہار کے کان میں سرگوشی کی ''جناب! تھوڑا خیال کریں، یہ اپنا خاص آدمی ہے۔''کمہار بولا ''چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں اور سفارشی کی زبان کاٹ دی جائے۔'' اور کمہار کے صرف ایک فیصلے کے بعد پورے ملک کا نظام بہتر ہوگیا۔ ہمارے ہاں بھی قیادت کو سیدھا کیا جاسکتا ہے۔ بس طریقہ کمہار والا اپنانا ہوگا اور اس کےلیے چوروں کے ہاتھ اور کچھ لوگوں کی زبانیں کاٹنا پڑیں گی۔''
میرے دوست کا موڈ کچھ ٹھیک ہوا تو اس نے کہا ''آپ کی بات بالکل درست ہے، مگر حکمت عملی بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ ایک کپتان جس کی پیٹھ پر ورلڈ کپ ہو، اس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی ماتحت ٹیم کو یہ کہے کہ کام نہ کرنے والوں کو فارغ کردیا جائے گا۔ یہ تو کھلی دھمکی ہے اور آپ کسی کے سر سوٹا لے کر سو نمبر کا پیپر حل نہیں کروا سکتے۔ ہمارے صنعتی شعبوں کی زبوں حالی پر کف افسوس ملنے کو دل کرتا ہے۔ مہنگائی کی روز افزوں بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ تبدیلی کا ایک نعرہ یہ بھی زور و شور سے گونجا تھا کہ ہم مر جائیں گے مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ گزشتہ دو سال میں تبدیلی کے نام پر جو عوام کا تیل نکالا گیا ہے، اس کی نظیر تو سابقہ حکومتوں میں بھی نہیں ملتی۔ کشکول کو حرز جاں سمجھنے اور کہنے والوں نے ریکارڈ دس ہزار ارب ڈالرز کے قرضے لیے۔ ہارٹ منی کی کہانی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کس طرح عالمی سرمایہ کار کمپنیاں آئیں۔ گرتی معیشت کو سہارا دینے کے نام پر ہمارے بینکوں میں 13 فیصد سود پر ڈالر رکھے اور جب دیکھا کہ کورونا بحران میں ملک کی معیشت کا جہاز ہچکولے کھا رہا ہے اور حکومت اب لازمی طور پر عوام و اپوزیشن کے دباؤ میں آکر شرح سود کم کرنے پر مجبور ہوگی تو انہوں نے اپنے ڈالر سود سمیت نکالے، پوٹلی اٹھائی اور چلتی بنیں۔
تحریک انصاف تبدیلی کی گاڑی پر سوار ہوئی تھی۔ اب یا حکمراں جماعت کو پیچھے جانا پڑے گا یا تبدیلی کو آگے لانا پڑے گا۔ اب تک کے پیش آمدہ تجربات سے یہی پتا چلتا ہے حکمراں جماعت بہت آگے آچکی ہے اور تبدیلی اور اس کے نعرے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''تم لوگ بجلی کے محکمے میں شکایت کیوں نہیں کرتے کہ وہ تمھارے علاقے کی بجلی کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرے۔ یہ تو تمہارے سینئر سٹیزن ہونے کا حق ہے کہ تم لوگ اپنے مسائل علاقے کے ایم پی اے کے سامنے رکھو۔ کئی سال سے شہر قائد میں اسی طرح ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ کسی بھی عوامی مسئلے کی مقتدر حلقوں میں تب تک سنوائی نہیں ہوتی جب تک کہ عوام پلے کارڈز، بینرز لے کر جلوس نہ نکالیں۔ کچھ دن نہیں گزرتے کہ عوام اپنے مسائل کو حل کروانے کےلیے سڑکوں پر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو عوامی مسائل میں اپنی سیاست چمکانے کا موقع میسر آجاتا ہے اور پھر اس بات پر میڈیا کے ٹاک شوز چلتے ہیں۔ ان ٹاک شوز میں مخالف جماعتوں کے سیاست دانوں کو بٹھایا جاتا ہے اور پھر پورا ٹاک شو اسی اُدھیڑ بن میں گزر جاتا ہے کہ تم نے ماضی میں من مانیاں کیں، تم نے کرپشن کرکے عوام وملک کو لوٹا، ناجائز منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دی، معیشت کو برباد کیا، اداروں میں اقربا پروری کرکے اپنوں کی بھرتیاں کروائیں۔ لہٰذا اب عشروں کا گند ہم کیسے مہینوں میں صاف کردیں؟ ہمیں تو ایسا پاکستان ملا ہے، جس میں ہر ادارہ بیساکھیوں پر چل رہا ہے۔ اس لیے علاج میں کچھ تو وقت لگے گا۔
حکمراں جماعت کے رہنما کہتے ہیں کہ ہمیں ملک کو بچانے کےلیے نئے سرے سے آغاز کرنا پڑ رہا ہے اور ہماری جماعت نے عمران خان کی قیادت میں نئے پاکستان کا ڈھانچہ بنا کر ایک نئی تبدیلی کا آغاز کردیا ہے۔ ہماری پوری ٹیم اس کوشش میں مصروف ہے کہ جلد ازجلد مزید نئے پروجیکٹ شروع کیے جائیں۔ عوام بس بھروسہ رکھے، بہت جلد بہت اچھا ہونے والا ہے۔''
میرا دوست شدت دکھ سے اب اٹھ بیٹھا تھا اور اس نے تکیہ اپنی گود میں رکھتے ہوئے مجھے متوجہ کیا اور بولا ''تبدیلی کا ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ خان صاحب جن غریبوں کے ووٹوں سے الیکشن جیت کر گدی پر متمکن ہوئے تھے اب وہی غریب ان کے جانے کی دعائیں کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک ہونے والے ہزاروں سروے رپورٹوں میں پاکستان تحریک انصاف کی عوامی پسندیدگی کی شرح مایوس کن ہے۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ مزدروں کا درد اور غریبوں کے دکھوں میں ہلکان ہونے والا اقتدار میں آکر اپنے نظریات سے منہ موڑ لے گا۔
اب تم خود کو دیکھو لو! دن بھر تم مزدوری کرتے ہو اور پھر تمہارا کام بھی بہت مشکل، آگ میں جھلسا دینے والا ہے۔ تم نے بتایا کہ تم جس فیکٹری میں کام پر جاتے ہو وہاں گھی کے کنستر اور کوکنگ آئل کے ڈبے بنتے ہیں۔ لازمی بات ہے کہ ان کی مینوفیکچرنگ دھاتی کیمیکل، زہریلی گیس، آگ کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر تم خود بھی کنستر بنانے، ان کی پلیٹوں کو کاٹنے کے کاریگر ہو، تو یہ خطرہ بھی لاحق رہتا ہوگا کہ کہیں وہ چھری سے تیز پلیٹیں مزدوروں کو نقصان نہ پہنچائیں''۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بولا ''مجھے سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومت نے غریب آدمی کی فلاح کےلیے کون سے شعبوں میں سہولت اور ریلیف دیا ہے جس کا فائدہ براہ راست ان غریب مستحقین تک پہنچتا ہو۔ کورونا بحران میں فی خاندان 12 ہزار روپے احساس پروگرام کے ذریعے نقد رقم دے کر عوام سے جس قدر بھونڈا مذاق کیا گیا، اسے تبدیلی کے نام پر سیاہ داغ ہی کہا جائے گا۔ شنید ہے کہ حکومت احساس پروگرام کی مختص کی گئی رقم کو 144 ارب روپے سے بڑھا کر 208 ارب روپے کررہی ہے۔ حکومت کی کارکردگی نجی شعبوں میں صفر ہے۔ وزرا کام نہیں کرنا چاہتے اور تبدیلی سرکار کا کام دھونس دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ پتا نہیں یہ اس حکومت کا سر کہاں اور پیر کہاں ہیں۔''
مجھے لگا کہ اب میرا دوست بہت جذباتی ہوجائے گا، اس لیے میں نے اس سے کہا ''چھوڑو! ان باتوں کو۔ میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک بادشاہ نے گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا تو کمہار سے پوچھا ''میاں! گدھوں کو کس طرح سیدھا رکھتے ہو؟'' کمہار نے جواب دیا ''بادشاہ کا مقام بلند ہو۔ جو گدھا لائن توڑتا ہے، میں اسے سزا دیتا ہوں۔ بس اسی خوف سے یہ سارے گدھے سیدھا چلتے رہتے ہیں۔'' بادشاہ کو بڑی حیرت ہوئی تو اس نے کہا ''کیا تم ملک کا نظام ٹھیک کر سکتے ہو؟'' کمہار نے کہا ''جی حضور یہ بھی کوئی مشکل کام ہے؟'' بادشاہ نے اسے منصب عطا کردیا تو پہلے ہی دن کمہار کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ لایا گیا۔ کمہار نے فیصلہ سنایا ''چور کے ہاتھ کاٹ دو۔'' جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اور کمہار کے کان میں بولا ''جناب! یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔'' کمہار نے دوبارہ حکم دیا ''چور کے ہاتھ کاٹ دو۔'' اس کے بعد خود وزیر نے کمہار کے کان میں سرگوشی کی ''جناب! تھوڑا خیال کریں، یہ اپنا خاص آدمی ہے۔''کمہار بولا ''چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں اور سفارشی کی زبان کاٹ دی جائے۔'' اور کمہار کے صرف ایک فیصلے کے بعد پورے ملک کا نظام بہتر ہوگیا۔ ہمارے ہاں بھی قیادت کو سیدھا کیا جاسکتا ہے۔ بس طریقہ کمہار والا اپنانا ہوگا اور اس کےلیے چوروں کے ہاتھ اور کچھ لوگوں کی زبانیں کاٹنا پڑیں گی۔''
میرے دوست کا موڈ کچھ ٹھیک ہوا تو اس نے کہا ''آپ کی بات بالکل درست ہے، مگر حکمت عملی بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ ایک کپتان جس کی پیٹھ پر ورلڈ کپ ہو، اس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی ماتحت ٹیم کو یہ کہے کہ کام نہ کرنے والوں کو فارغ کردیا جائے گا۔ یہ تو کھلی دھمکی ہے اور آپ کسی کے سر سوٹا لے کر سو نمبر کا پیپر حل نہیں کروا سکتے۔ ہمارے صنعتی شعبوں کی زبوں حالی پر کف افسوس ملنے کو دل کرتا ہے۔ مہنگائی کی روز افزوں بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ تبدیلی کا ایک نعرہ یہ بھی زور و شور سے گونجا تھا کہ ہم مر جائیں گے مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ گزشتہ دو سال میں تبدیلی کے نام پر جو عوام کا تیل نکالا گیا ہے، اس کی نظیر تو سابقہ حکومتوں میں بھی نہیں ملتی۔ کشکول کو حرز جاں سمجھنے اور کہنے والوں نے ریکارڈ دس ہزار ارب ڈالرز کے قرضے لیے۔ ہارٹ منی کی کہانی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کس طرح عالمی سرمایہ کار کمپنیاں آئیں۔ گرتی معیشت کو سہارا دینے کے نام پر ہمارے بینکوں میں 13 فیصد سود پر ڈالر رکھے اور جب دیکھا کہ کورونا بحران میں ملک کی معیشت کا جہاز ہچکولے کھا رہا ہے اور حکومت اب لازمی طور پر عوام و اپوزیشن کے دباؤ میں آکر شرح سود کم کرنے پر مجبور ہوگی تو انہوں نے اپنے ڈالر سود سمیت نکالے، پوٹلی اٹھائی اور چلتی بنیں۔
تحریک انصاف تبدیلی کی گاڑی پر سوار ہوئی تھی۔ اب یا حکمراں جماعت کو پیچھے جانا پڑے گا یا تبدیلی کو آگے لانا پڑے گا۔ اب تک کے پیش آمدہ تجربات سے یہی پتا چلتا ہے حکمراں جماعت بہت آگے آچکی ہے اور تبدیلی اور اس کے نعرے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔