پنجاب میں جنگلی حیات کی اسمگلنگ اور غیرقانونی شکاریوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ

جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار اور ان کی خرید و فروخت سے متعلق سزاؤں میں اضافے کا بل بھی اسمبلی سے منظور ہونے کا امکان


آصف محمود July 21, 2020
پنجاب میں جنگلی پرندوں کے غیرقانونی شکارمیں تیزی آگئی ہے، فوٹو: فائل

پنجاب وائلڈ لائف نے فارمنگ کی آڑ میں جنگلی حیات کی اسمگلنگ اور غیرقانونی خرید وفروخت میں ملوث افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔

بریڈنگ سیزن مکمل ہونے کے بعد مختلف جنگلی جانور جن میں لالیاں، تیتر،عام چڑیا، تلیر اور طوطے شامل ہیں جال کی مدد سے ان پرندوں کا شکار کرنے والے شکاری متحرک ہوگئے ہیں۔ لاہور، قصور، فیروزوالا، گوجرانوالہ اورسیالکوٹ سمیت دریائے راوی اورستلج کے اطراف میں شکاری جال لگا کران پرندوں کا شکار کررہے ہیں۔ ان پرندوں کو پھر لاہور کی برڈمارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے جبکہ لالیاں اورعام چڑیا صدقہ کے نام پر پرندے آزاد کرنیوالوں کو فروخت کی جاتی ہیں۔

ڈسٹرکٹ وائلڈ لائف آفیسر لاہور تنویراحمد جنجوعہ نے بتایا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ان کی ٹیم نے جال کی مدد سے پرندوں کو قید کرنیوالے 10 گروہ پکڑے ہیں جن کوہزاروں روپے جرمانے کئے گئے اورپرندوں کو موقع پرہی آزاد کردیا گیا۔

وائلڈ لائف پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدر منیرکہتے ہیں کہ غیرقانونی شکار کی روک تھام میں لاک ڈاؤن کے دوران کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن اس کے مکمل خاتمے کے لئے جرمانوں اورسزاؤں میں اضافے اور افرادی قوت بڑھانےکی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ نے غیرقانونی شکار کی روک تھام کے لئے جرمانے اورسزائیں بڑھانے کی تجاویز حکومت کودی تھیں، صوبائی کابینہ نے وہ تجاویزمنظورکرکی تھیں اور اب وہ محکمہ قانون کے پاس ہیں جہاں ان تجاویز کو بل کی شکل دی جائیگی اورپھرمنظوری کے لئے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائیگا، انہوں نے بتایا کہ ہماری کوشش ہے کہ رواں سال ہی ان جرمانے اورسزاؤں میں اضافے کا بل منظورہوجائے گا۔

بدرمنیر نے مزید بتایا کہ صوبے میں جنگلی حیات کی فارمنگ کی آڑ میں جانوروں کی غیر قانونی تجارت میں ملوث افراد کے خلاف شکنجہ تیار کیا جا رہا ہے، قانون سازی کے بعد جنگلی جانوروں اورپرندوں کی سمگلنگ اورغیرقانونی خریدوفروخت کا دھندہ بھی ختم ہوجائیگا، محدودوسائل کے باوجود محکمہ وائلڈ لائف کو ایک مثالی محکمہ بنائیں گے۔

پنجاب وائلڈلائف ذرائع کے مطابق پنجا ب و ائلڈ لائف ایکٹ 2007 کے سیکشن 21 میں ترمیم کرتے ہوئے قید بامشقت کی سزا کی زیادہ سے زیادہ مدت 2 سال سے بڑھا کر 5 سال اور کم سے کم سزا کی مدت 3 سال مقرر کرنے اور جرمانہ کی کم سے کم رقم 10 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے اور زیادہ سے زیادہ جرمانہ کی حد 1 لاکھ روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ غیر قانونی شکار میں استعمال ہونے والے اسلحہ کا لائسنس 10 سال کے لئے معطل کیا جائے گا۔اسی طرح نایاب نسل کے جانوروں کی ان کی عمرکے حساب سے سرکاری قیمت میں بھی اضافہ کیاجائیگا۔

بدرمنیر نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب وائلڈلائف کے پاس کل افرادی قوت دو ہزار ہے جن میں افسران و اہلکاران شامل ہیں جبکہ اس وقت تقریبا 1500 افسران و اہلکاران اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور 500 سے زائد آسامیاں افسران و اہلکاران کے ریٹائر ہوجانے ، وفات پا جانے اور نئی بھرتیوں پر پابندی کے باعث خالی ہیں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے زیر انتظام صوبہ کے طول وعرض میں 16 وائلڈلائف پارکس اور چار چڑیاگھر، 35 وائلڈ لائف سینکچوریز، 23 گیم ریزروز، 4 نیشنل پارکس، صوبہ بھر کی شکار گاہیں اور اوپن ایریاز ہیں جن کی نگرانی و دیکھ بھال اور غیر قانونی شکار کی روک تھام محکمہ کے ان 1500 نہتے ملازمین کے ذمہ داری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔