پی سی بی کے اعزازی چیئرمین کو بے شمار مراعات حاصل
مکمل فرنیشڈ رہائش،3 گھریلو ملازمین، لینڈ لائن، موبائل فون، انٹرنیٹ، کیبل ٹی وی کی سہولت، ڈرائیور کے ساتھ گاڑی
پی سی بی کے ''اعزازی'' چیئرمین کو بے شمار مراعات حاصل ہیں۔
چیئرمین پی سی بی کا عہدہ پانے کیلیے بڑی بڑی شخصیات خوب کوششیں کرتی ہیں، بظاہر تو یہ پوسٹ اعزازی مگر بھرپور مراعات اسے بہترین بنا دیتی ہیں۔ رکن قومی اسمبلی سید عمران احمد شاہ نے پی سی بی کے بارے میں کچھ عرصے قبل چند سوالات پوچھے تھے،انھیں وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی معرفت سے جوابات موصول ہوئے،بورڈ آفیشلز کے الاؤنسز کی تفصیلات تو پہلے ہی سامنے آ گئی تھیں، اب چیئرمین کی مراعات کا بھی انکشاف ہوگیا۔
نمائندہ ''ایکسپریس'' کے پاس موجود دستاویز کے مطابق ہیڈ آفس لاہور کا رہائشی نہ ہونے کی صورت میں چیئرمین کو مکمل فرنیشڈ رہائش یا ایک لاکھ روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں، پی سی بی کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق احسان مانی کی رہائش پر جولائی 2019 سے جون 2020تک 40 لاکھ24 ہزار 260 روپے خرچ ہوئے ہیں، یعنی ہر ماہ تقریباً 3 لاکھ 35 ہزار روپے رہائش پر صرف ہوتے ہیں۔
گزشتہ6سے7 برس میں کسی اور ''اعزازی'' چیئرمین نے لاہور میں رہائش پر بورڈ سے اتنی رقم خرچ نہیں کرائی،بورڈ کی پالیسی کے مطابق اگر کوئی چیئرمین شہر میں اپنی پسند کی کسی جگہ پر رہنا پسند کرے تو اسے ایک لاکھ روپے ماہانہ کا مانیٹری الاؤنس دیا جائے گا،اگر رہائش کی فرنشنگ درکار ہو تو چیئرمین20 لاکھ روپے تک حاصل کر سکتا ہے، یہ فرنیچر بورڈ کی ہی ملکیت شمار ہوتا ہے، تین سالہ دور میں کوئی چیئرمین ایک بار ہی یہ رقم حاصل کرنے کا اہل ہوتا ہے۔
احسان مانی نے اب تک اس مد میں 14 لاکھ58 ہزار374 روپے وصول کیے ہیں،یہ پالیسی احسان مانی کے دور میں ہی متعارف کرائی گئی ہے، چیئرمین کو سیکیورٹی گارڈ سمیت گھر کے لیے تین کْل وقتی ملازمین رکھنے کی اجازت ہوتی ہے، ان کی تنخواہیں بورڈ براہ راست ادا کرتا ہے، موجودہ چیئرمین نے ایک کْل وقتی باورچی اور جز وقتی صفائی والے کو رکھا ہے۔
چیئرمین کو لاہور میں بورڈ کے ملازم ڈرائیور سمیت2400 سی سی کار رکھنے کا اختیار حاصل اور احسان مانی نے1800 سی سی کار لی ہوئی ہے، اس کی مینٹیننس بھی بورڈ کے ذمہ ہے۔ چیئرمین کوبعد میں مروجہ ریٹ پر یہ کار خریدنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے، اسے لینڈ لائن فون اور اپنی مرضی کا موبائل فون بھی ملتا ہے، گھر پر وائی فائی انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے، ان سب کا مکمل بل بورڈ کے ذمہ ہے۔ کسی وجہ سے اسپتال داخل ہونے کی صورت میں چیئرمین اور اہلیہ کے مکمل طبی اخراجات پی سی بی ہی ادا کرے گا۔
کسی آفیشل دورے میں ایمرجنسی کی صورت میں اگر چیئرمین اور اہلیہ کو اسپتال داخل ہونا پڑے تو بھی بورڈ بل بھرے گا،موجودہ چیئرمین نے اب تک میڈیکل کی مد میں کوئی رقم نہیں لی۔ آفیشل دوروں کیلیے لاہور سے باہر جانے پرچیئرمین اور اہلیہ بزنس کلاس میں فضائی سفر کے اہل ہیں، فائیو اسٹار ہوٹل میں رہائش اور دیگر چیزوں کا مکمل بل بورڈ دیتا ہے،ڈومیسٹک سفر پر رہائش کے ساتھ یومیہ10 ہزار روپے ملتے ہیں۔
بورڈ کے موجودہ سربراہ نے ابھی تک اس مد میں کوئی رقم نہیں لی، غیرملکی دوروں میں رہائش کے ساتھ یومیہ 300 ڈالر دیے جاتے ہیں، احسان مانی نے بھی اس مد میں کچھ رقم وصول کی ہے، دورہ برطانیہ میں رہائش کے ساتھ یومیہ400ڈالر ملتے ہیں۔
دستاویز کے مطابق موجودہ چیئرمین نے ابھی تک ایسا کلیم نہیں کیا، چیئرمین گورننگ بورڈ میٹنگ کے 20 ہزار روپے وصول کرنے کے بھی اہل ہیں مگر احسان مانی نے اس مد میں کوئی رقم نہیں لی، بزنس اینٹرٹینمنٹ پر چیئرمین خرچ ہونے والی رقم واپس لینے کا اہل ہے، ہر ماہ اس مد میں 50 ہزار سے زائد کا بل ہونے کی صورت میں آڈٹ کمیٹی کے چیئرمین سے منظوری لینا ہوتی ہے۔
چیئرمین پی سی بی کا عہدہ پانے کیلیے بڑی بڑی شخصیات خوب کوششیں کرتی ہیں، بظاہر تو یہ پوسٹ اعزازی مگر بھرپور مراعات اسے بہترین بنا دیتی ہیں۔ رکن قومی اسمبلی سید عمران احمد شاہ نے پی سی بی کے بارے میں کچھ عرصے قبل چند سوالات پوچھے تھے،انھیں وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی معرفت سے جوابات موصول ہوئے،بورڈ آفیشلز کے الاؤنسز کی تفصیلات تو پہلے ہی سامنے آ گئی تھیں، اب چیئرمین کی مراعات کا بھی انکشاف ہوگیا۔
نمائندہ ''ایکسپریس'' کے پاس موجود دستاویز کے مطابق ہیڈ آفس لاہور کا رہائشی نہ ہونے کی صورت میں چیئرمین کو مکمل فرنیشڈ رہائش یا ایک لاکھ روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں، پی سی بی کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق احسان مانی کی رہائش پر جولائی 2019 سے جون 2020تک 40 لاکھ24 ہزار 260 روپے خرچ ہوئے ہیں، یعنی ہر ماہ تقریباً 3 لاکھ 35 ہزار روپے رہائش پر صرف ہوتے ہیں۔
گزشتہ6سے7 برس میں کسی اور ''اعزازی'' چیئرمین نے لاہور میں رہائش پر بورڈ سے اتنی رقم خرچ نہیں کرائی،بورڈ کی پالیسی کے مطابق اگر کوئی چیئرمین شہر میں اپنی پسند کی کسی جگہ پر رہنا پسند کرے تو اسے ایک لاکھ روپے ماہانہ کا مانیٹری الاؤنس دیا جائے گا،اگر رہائش کی فرنشنگ درکار ہو تو چیئرمین20 لاکھ روپے تک حاصل کر سکتا ہے، یہ فرنیچر بورڈ کی ہی ملکیت شمار ہوتا ہے، تین سالہ دور میں کوئی چیئرمین ایک بار ہی یہ رقم حاصل کرنے کا اہل ہوتا ہے۔
احسان مانی نے اب تک اس مد میں 14 لاکھ58 ہزار374 روپے وصول کیے ہیں،یہ پالیسی احسان مانی کے دور میں ہی متعارف کرائی گئی ہے، چیئرمین کو سیکیورٹی گارڈ سمیت گھر کے لیے تین کْل وقتی ملازمین رکھنے کی اجازت ہوتی ہے، ان کی تنخواہیں بورڈ براہ راست ادا کرتا ہے، موجودہ چیئرمین نے ایک کْل وقتی باورچی اور جز وقتی صفائی والے کو رکھا ہے۔
چیئرمین کو لاہور میں بورڈ کے ملازم ڈرائیور سمیت2400 سی سی کار رکھنے کا اختیار حاصل اور احسان مانی نے1800 سی سی کار لی ہوئی ہے، اس کی مینٹیننس بھی بورڈ کے ذمہ ہے۔ چیئرمین کوبعد میں مروجہ ریٹ پر یہ کار خریدنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے، اسے لینڈ لائن فون اور اپنی مرضی کا موبائل فون بھی ملتا ہے، گھر پر وائی فائی انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے، ان سب کا مکمل بل بورڈ کے ذمہ ہے۔ کسی وجہ سے اسپتال داخل ہونے کی صورت میں چیئرمین اور اہلیہ کے مکمل طبی اخراجات پی سی بی ہی ادا کرے گا۔
کسی آفیشل دورے میں ایمرجنسی کی صورت میں اگر چیئرمین اور اہلیہ کو اسپتال داخل ہونا پڑے تو بھی بورڈ بل بھرے گا،موجودہ چیئرمین نے اب تک میڈیکل کی مد میں کوئی رقم نہیں لی۔ آفیشل دوروں کیلیے لاہور سے باہر جانے پرچیئرمین اور اہلیہ بزنس کلاس میں فضائی سفر کے اہل ہیں، فائیو اسٹار ہوٹل میں رہائش اور دیگر چیزوں کا مکمل بل بورڈ دیتا ہے،ڈومیسٹک سفر پر رہائش کے ساتھ یومیہ10 ہزار روپے ملتے ہیں۔
بورڈ کے موجودہ سربراہ نے ابھی تک اس مد میں کوئی رقم نہیں لی، غیرملکی دوروں میں رہائش کے ساتھ یومیہ 300 ڈالر دیے جاتے ہیں، احسان مانی نے بھی اس مد میں کچھ رقم وصول کی ہے، دورہ برطانیہ میں رہائش کے ساتھ یومیہ400ڈالر ملتے ہیں۔
دستاویز کے مطابق موجودہ چیئرمین نے ابھی تک ایسا کلیم نہیں کیا، چیئرمین گورننگ بورڈ میٹنگ کے 20 ہزار روپے وصول کرنے کے بھی اہل ہیں مگر احسان مانی نے اس مد میں کوئی رقم نہیں لی، بزنس اینٹرٹینمنٹ پر چیئرمین خرچ ہونے والی رقم واپس لینے کا اہل ہے، ہر ماہ اس مد میں 50 ہزار سے زائد کا بل ہونے کی صورت میں آڈٹ کمیٹی کے چیئرمین سے منظوری لینا ہوتی ہے۔