حکومت گرانے کیلئے اپوزیشن کا اتحاد حقیقت بننے لگا

سیاسی تناؤ کی یہ صورت حال نہ جمہوریت کے لیے سازگار ہے اور نہ ہی ملک کی سلامتی کے حق میں بہتر ہے۔


Irshad Ansari July 22, 2020
سیاسی تناؤ کی یہ صورت حال نہ جمہوریت کے لیے سازگار ہے اور نہ ہی ملک کی سلامتی کے حق میں بہتر ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان ملاقاتوں کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن کی پیپلزپارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقاتوں کے بعد پیر کو بلاول ہاؤس لاہور میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماوں کی ملاقات میں بڑی سیاسی پیشرفت سامنے آئی ہے اور ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے سیاسی روابط تیز کرنے اور عید کے بعد اے پی سی بلانے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کیلئے جوائنٹ اپوزیشن کمیٹی بنانے پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔

اس کمیٹی میں مسلم لیگ ن سے ایاز صادق، خواجہ آصف اور مریم اورنگ زیب شامل ہیں۔ ملاقات میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ طاقتور حلقوں نے اگر اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں چیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایسا رویہ اختیار کیا تو اپوزیشن اپنی تحریک عدم اعتماد سے پیچھے ہٹ جائے گی۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی حکومت صرف نئے الیکشن کے انعقاد کیلئے تشکیل دی جائے گی۔

تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے دوسال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس دوسال کے عرصے میں اپوزیشن کی نام کی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہیں دی۔ حکومت کی کارکردگی سے عوام میں مایوسی پیدا ہوئی ہے، مہنگائی عروج پر ہے ،گورننس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، اداروں کو ایڈہاک ازم پر چلایا جا رہا ہے، اقتصادی شرح نمو سمیت تمام اقتصادی اشاریئے مسلسل تنزلی کا شکار ہیں، بے روزگاری میں اضافہ کے باعث خط غربت کی لکیر سے نیچنے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

خود حکومت کے اپنے وزیر کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ خود اپنے آپ سے خطرہ ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ پارلیمانی نظام میں غیرمنتخب لوگ فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہو سکتے، فیصلہ سازی میں صرف منتخب لوگ حصہ لے سکتے ہیں۔ آئین کے تحت دہری شہریت والوں پر اسمبلی میں آنے پر پابندی ہے تو دہری شہریت والے کیسے کابینہ کا حصہ ہوسکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا کوئی قد کاٹھ نہیں جبکہ ن لیگ کو یہ بھی نہیں پتہ اْن کو لیڈ کس نے کرنا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی لائسنس فیس بڑھانے سے متعلق فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی کے پاس بزنس پلان کوئی نہیں، لیکن فیس بڑھا دی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ دو سال کے عرصہ میں حکومت اپنی عوامی مقبولیت کھوچکی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی شہریت اور اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں۔

19 معاونین خصوصی اور مشیروں میں سے 4 غیر ملکی شہریت اور کروڑوں روپے کی جائیداد کے مالک ہیں۔ کچھ لوگ اسکا کریڈٹ کپتان کو دے رہے ہیں اور یہ بات درست بھی ہے، مگر ماضی کو لے کر حکومت پر خوب نشتر برسائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی طرف سے مئی میں جاری کردہ صدارتی آرڈیننس کو منظر عام پر لاکر حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔

اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں انکے مطابق وزیراعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی طرف سے حکومت کو جمع کرائے گئے اثاثہ جات کی تفصیل میں ان کی طرف سے حکومت پاکستان کو ادا کیے گئے ٹیکسوں کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی طرف سے جاری اثاثہ جات میں ابہام اور تضادات پائے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر غور کیا ہے۔

سیاسی تناؤ کی یہ صورت حال نہ جمہوریت کے لیے سازگار ہے اور نہ ہی ملک کی سلامتی کے حق میں بہتر ہے اس لئے اب متبادل سوچ زور پکڑ رہی ہے اور رہی سہی کسر خواجہ برادران کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ حالیہ تفصیلی تحریری فیصلے نے پوری کردی ہے یہ فیصلہ نیب اور حکومت کیلئے چارج شیٹ ہے۔ اس فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا ہے کہ ملک میں احتساب کے قانون کو سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے اور سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا 'ان قوانین سے گورننس، معاشرے، سیاسی نظام میں ملک کے لیے بہتری کے بجائے مزید ابتری آئی۔

جسٹس باقر نے لکھا ہے کہ نیب کے جانبدارانہ رویے سے اس کی غیر جانبدارانہ ساکھ کا تصور دھندلا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ایسی گرفتاریاں کر رہا ہے جن میں مہینوں اور سالوں انکوائریاں چلتی رہتی ہیں جبکہ نیب قانون کے مطابق ٹرائل تیس دنوں میں مکمل ہونا چاہیے یہ پیشہ وارانہ صلاحیت اور خلوص کے فقدان کے باعث ہو رہا ہے۔

دوسری طرف بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بارے میں بعؑض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم نواز شریف نے 1998 میں رکھا تھا لیکن اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کے اگلے ہی سال ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ 2013 کے نئے منصوبے کے تحت بھاشا اور داسو ڈیم دونوں کو شروع کیا گیا لیکن فوری ضرورت کے پیشِ نظر پہلے داسو ڈیم بنایا جا رہا ہے۔

داسو ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش مہمند ڈیم کے برابر ہے اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 5 گنا زیادہ ہے جو بھاشا ڈیم کے برابر ہے۔ داسو ڈیم کو پہلے شروع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ ڈیم زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے اور نسبتاً جلد مکمل ہو گا۔ جبکہ بھاشا ڈیم 10 سے 12 سال کا پراجیکٹ ہے اسی طرح داسو ڈیم دیامیر بھاشا ڈیم سے صرف 74 کلومیٹر ڈاؤن سٹریم پر واقع ہے۔ یعنی اس منصوبے کے ساتھ ساتھ بھاشا ڈیم پر بھی کام شروع ہونا تھا۔ یعنی واپڈا کی جو ٹیم اور کنسٹرکشن کمپنیوں کی مشینری داسو ڈیم میں اپنا کام ختم کر لے گی اسے اوپر بھاشا ڈیم پہنچا کر کام وہاں شروع رکھا جائے گا اور یوں ایک ساتھ 2 منصوبوں پر کم لاگت اور بہترین حکمت عملی سے کام ہو گا۔

بھاشا ڈیم کیلئے زمین کی خرید اور متاثرین کو ادائیگی کا کام 2018 میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ بھاشا ڈیم کیلئے ایک اور اہم مرحلہ 2013 میں ورلڈ بینک سے بغیر انڈیا کے این او سی کے فنانسنگ حاصل کرنا تھا۔ ہندوستان کی سازشوں کے بعد ورلڈ بینک نے ہاتھ کھینچ لیا تو بھاشا ڈیم کو ورلڈ بینک یا چین کی مدد کی بجائے قومی وسائل سے بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جبکہ داسو ڈیم پر تو بہت سارا کام ہو بھی چکا ہے۔ اسی طرح مہمند ڈیم کا ٹھیکہ بھی دیا جا چکا ہے اور حال ہی میں داسو ڈیم کی ٹنلز کی کھدائی کا اہم ترین مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |