حکومتی اتحاد بچانے کیلئے وزیراعلیٰ کو خود متحرک ہونا ہوگا

عیدالاضحی کے بعد بلوچستان میں نیا سیاسی میدان سجنے کو ہے۔

عیدالاضحی کے بعد بلوچستان میں نیا سیاسی میدان سجنے کو ہے۔ فوٹو: فائل

متحدہ اپوزیشن کی درخواست پر بلایا گیا بلوچستان اسمبلی کا اجلاس حکومتی صفوں میں دراڑیں ڈال کر غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہوگیا۔ اجلاس میں پاک افغان بارڈر کی بندش کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک التواء کے معاملے پر حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی اے این پی کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔

دونوں جانب سے ایک دوسرے کے حوالے سے تُند و تیز بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جبکہ حکمران جماعت کے ایک اہم وزیر میر ظہور بلیدی نے اتحادی جماعت اے این پی کو حکومت سے علیحدہ ہونے کا مشورہ دے کر جام حکومت کیلئے پریشانی بڑھا دی ہے۔ اس سے قبل حکومتی کارکردگی پر اپوزیشن ارکان نے زبردست تنقید کی۔ جبکہ حکومتی بنچ سے وضاحتیں پیش کی جاتی رہیں۔

اپوزیشن ارکان نے سیندک کی لیز کے حوالے سے بھی پوائنٹ اُٹھایا اُن کا موقف تھا کہ سیندک پراجیکٹ کی توسیع کے حوالے سے حکومت نے کوئی معاہدہ کیا ہے تو اُسے سامنے لایا جائے اور اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی کی مجلس قائمہ کو بھی فعال کیا جائے جس پر صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ایوان کو بتایا کہ سیندک پراجیکٹ کی لیز کے حوالے سے حکومت بلوچستان نے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی معاہدہ کرنے کا ارادہ ہے۔

اجلاس کے آخری روز اُس وقت حکومتی صفوں میں دراڑ پڑگئی جب جام حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے ایوان میں چمن میں پاک افغان بارڈر کی بندش کے حوالے سے تحریک التواء 'جو کہ بحث کیلئے منظور ہوچکی تھی' پیش کی تو اُن کی اپنی جماعت سمیت حکومتی و اپوزیشن ارکان نے کورم توڑ دیا جس پر اسپیکر نے ایک رکن کی نشاندہی پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔

اس صورتحال پر اصغر خان اچکزئی نے سخت احتجاج کیا اور بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ سینٹ چیئرمین کے انتخاب کے معاملے سے بھی زیادہ افسوسناک ہے، حکومت اور اپوزیشن ارکان دونوں نے غیر سنجیدگی کی انتہا کر دی ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ گذشتہ اجلاس میں جب اُنہوں نے پاک افغان بارڈر کی بندش کے حوالے سے تحریک التواء پیش کی تو پورے ایوان نے اس کی تائید کی حتیٰ کہ بعض ارکان نے تو یہ مشورے بھی دیئے کہ سرحدی تجارت کی بندش صرف چمن کے ہی نہیں بلکہ دیگر اضلاع کے عوام کا بھی مسئلہ ہے۔ اب جب اس پر بحث کا مرحلہ آیا تو سب نے پیٹھ دکھا دی۔ یہ اپوزیشن اور حکومت دونوں کی ناکامی ہے۔

اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغر اچکزئی کے اس بیان پر ترجمان وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اصغر خان اچکزئی صوبائی حکومت کی جانب سے پاک افغان بارڈر کی بندش کے حوالے سے قائم جائزہ کمیٹی کے رکن ہیں جن کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن اصغر اچکزئی ہر کام بغیر مشورے کے کرتے ہیں انہوں نے کمیٹی کے چیئرمین اور دیگر ارکان کو اعتماد میں لئے بغیر تحریک التواء اسمبلی میں پیش کی جبکہ اس سے قبل بھی اُنہوں نے مشورے کے بغیر ایک ڈرافٹ تیار کیا تھا جس کی وجہ سے کمیٹی اس حوالے سے اپنی حتمی رپورٹ مرتب نہ کرسکی۔


ترجمان نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ وفاق کو اعتماد میںلئے بغیر نہیں کرسکتی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی دوسری بڑی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی مبین خلجی جو کہ اس کمیٹی کا حصہ ہیں اُنہوں نے بھی اسی قسم کا موقف میڈیا کے سامنے رکھ کر اپنی حمایت جام حکومت کے پلڑے میں ڈال دی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی کے تنقیدی بیان اور پھر حکومت کی جانب سے وضاحتی بیان آنے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجانا چاہیے تھا لیکن اے این پی کی رکن اسمبلی شاہینہ کاکڑ نے ٹوئٹر پر اسمبلی اجلاس میں ارکان کی جانب سے کورم توڑنے پر افسوس کا اظہار کیا تو صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ردعمل میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ الزام لگانے سے بہتر ہے کہ آپ حکومت سے علیحدہ ہوجائیں یہ اپوزیشن کا بلایا ہوا اجلاس تھا اور تحریک پیش ہونے پر آپ کی جماعت کے اپنے دو ممبران اسمبلی میں نہیں تھے۔

ٹوئٹر پر اتحادیوں کے درمیان ایک دوسرے کو جواب سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جام حکومت کے اندر اختلافات جنم لے چکے ہیں کیونکہ صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نہ صرف جام کابینہ کے ایک اہم وزیر تصور کئے جاتے ہیں۔ اُن کی جانب سے اے این پی کوصوبائی حکومت سے علیحدگی کا مشورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جام حکومت اپنی اس اتحادی جماعت سے شاید چھٹکارہ چاہتی ہے جو کہ مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بیٹھی ہے جبکہ اے این پی کے پارلیمانی گروپ نے اس تمام صورتحال سے اپنی مرکزی قیادت کو آگاہ کردیا ہے اور وہ بھی چارسدہ ولی باغ کے فیصلے کی منتظر ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عیدالاضحی کے بعد بلوچستان میں نیا سیاسی میدان سجنے کو ہے۔ ایک طرف متحدہ اپوزیشن جام حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریوں میں مصروف ہے جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال کے اپنے ہی لوگ اتحادیوں کو ناراض کرکے اپوزیشن کاہدف آسان بنا رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر اے ین پی نے جام حکومت کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ کرلیا تو پھر جام حکومت کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ بعض سیاسی محفلوں میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی اپنی جماعت میں بھی بعض ارکان ناراض ہیں جبکہ اتحادی جماعتوں کو بھی گلے شکوے ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے وزیراعلیٰ جام کمال کو خود فعال ہونا ہوگا۔

 
Load Next Story