کے الیکٹرک کی کیا غلطی ہے

جو اس ادارے کو لگام ڈال سکتے ہیں، وہ نہ صرف خاموش تماشائی بلکہ درپردہ اس ساری مشق میں کے الیکٹرک کے مددگار بھی ہیں


خرم علی راؤ July 23, 2020
جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی جارہی تھی تو یہ ادارہ نقصان میں مبتلا کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کراچی کے شہری اس بے چارے ادارے 'کے الیکٹرک' پر بہت ہی برہم ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک انداز سے طنز کے تیر اس ادارے کے حوالے سے چلائے جارہے ہیں۔ اس کی ناقص کارکردگی کا ایک شور مچا ہوا ہے۔ لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ کے قصے جیسے گھر گھر کی کہانی بن چکے ہیں۔ کوئی میٹر تیز چلنے کے شکوے کرتا ہے تو کوئی شکایتی مراکز پر عملے کے عدم تعاون کی دہائی دے رہا ہے۔ تو کہیں سسٹم کی اپ گریڈنگ نہ کرنے اور تقسیم کاری کے نظام کو بہتر نہ بنانے کا غلغلہ ہے۔ کہیں سلیب بینیفٹ فارمولے کے استعمال پر، جس میں بجلی کے نرخ دو سو ننانوے یونٹس تک دس روپے یونٹ ہوتے ہیں اور تین سو سے بیس روپے یونٹ شروع ہوجاتے ہیں اور علیٰ ہذالقیاس یہ فارمولا یونٹس بڑھنے کے ساتھ خودکار انداز میں ریٹ بڑھاتا جاتا ہے اور صارفین یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اس طرح کا فارمولا دنیا میں اور کہاں کس ملک میں استعمال ہوتا ہے؟ یہ تو کھلی لوٹ مار ہے وغیرہ۔

اوپر بیان کردہ باتیں، شکایتیں اور تکالیف کم و بیش درست ہیں لیکن ان شکایات کا پوری طرح صرف کے الیکٹرک کو ذمے دار قرار دینا کیا درست ہے؟ کیا غلطی صرف کے الیکٹرک کی ہی ہے؟ نہیں، بلکل نہیں! پھر کون ذمے دار ہے؟ ذمے دار کوئی ایک نہیں بلکہ کئی ایک ہیں اور ان میں سب سے پہلے ذمے دار میں اور آپ ہیں، پھر ارباب اختیار ہیں، پھر سارے ملک میں پھیلا بدعنوانی کا نظام ہے۔ اور یہ سب کچھ بہرحال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں کہ جو ہم نے اپنے آپ، اس ملک اور عوام کے ساتھ کیا ہے اور اب جیسے بیداری کے بعد اس خواب کے اثرات سے کانپ رہے ہیں بلکہ بیداری بھی کہاں، شاید خواب کے اندر کوئی دوسرا ڈراؤنا خواب شروع ہوچکا ہے۔ کے الیکٹرک جو کچھ اس شہر اور اس کے باسیوں کے ساتھ کررہی ہے اور جتنی دیدہ دلیری سے کررہی ہے وہ واقعی شرمناک حد تک قابل داد ہے۔ اگر اسے قابل داد کہا جاسکے تو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کسی خاموش سرپرستی کے بغیر اتنی دیدہ دلیری دکھانے کی کسی پرائیوٹ ادارے کی جرأت ہوسکتی ہے۔ کوئی تو ہے یا ہیں ناں، جن کی شہ پر کے الیکٹرک یوں بدمست بیل بنا پھر رہا ہے اور ہر ایک کو ٹکر رسید کر رہا ہے۔

بات یہ ہے کہ جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی جارہی تھی تو یہ ادارہ نقصان میں تھا یا مبتلا کر دیا گیا تھا۔ اور یہ بہت کامیاب اور مجرب طریقہ ہے اس ملک کے بالادست صاحبان اقتدار و اختیار کا کہ پہلے ملک کے اثاثہ جات کو ہر ہر حربہ یعنی سیاسی بھرتیاں، کرپشن یا بدعنوانی کا فروغ، ادارے کے وسائل کا بے جا استعمال اور دیگر منفی حربے استعمال کرکے تباہ کرو، پھر اونے پونے بیچ کر کک بیکس اور کمیشن وصول کرو اور قومی اداروں کی نج کاری کرکے ذاتی مال و زر کی افزائش کرو۔ اس سارے گھناؤنے عمل میں تمام متعلقہ ادارے اور سرکاری افراد اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں اور ملک، قوم، سلطنت برباد سے برباد تر ہوتی جاتی ہے۔ ہمارا اور آپ کا قصور یہ ہے کہ ہم خاموش تماشائی بنے اس ٹھگی کو نہ صرف دیکھتے رہتے ہیں بلکہ اپنے اپنے حساب سے ان صاحبان اقتدار اور قائدین قلت کےلیے زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے رہتے ہیں اور پھر جب اس ٹھگی کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پھر بلبلاتے ہیں۔

آئی پی پیز، ریکوڈک، پی ٹی سی ایل، پاکستان اسٹیل اور کے ای ایس سی کے ساتھ ساتھ بلامبالغہ ایسے ہی چھوٹے بڑے کتنے ہی منصوبوں کی نشان دہی باقائدہ نام لے کر کی جاسکتی ہے جن میں اربوں کھربوں روپے قومی خزانے سے بڑی بہترین منصوبہ بندی کرکے بے دردی سے لوٹے گئے اور چوکیداروں کو ساتھ ملاکر بڑی بڑی وارداتیں ڈالی گئیں۔ مبینہ طور پر یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور اب یوں لگتا ہے کہ جیسے پی آئی اے کی باری ہے۔ کیونکہ وہی فارمولا اب اس ادارے پر بھی آزمایا جارہا ہے اور اس کے دیگر اثاثوں کے ساتھ امریکا میں پی آئی اے کے روز ویلٹ ہوٹل پر ٹپکتی رالیں اہل نظر بخوبی دیکھ رہے ہیں۔

کے الیکٹرک تو اس وسیع و عریض ''لوٹو پاکستان'' گیم کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا، جس کے بڑے شرکا اس مشن کو کامیابی سے انجام دے کر اپنا اپنا حصہ لے کر دوسرے مرحلوں میں مصروف ہیں اور چھوٹے شرکا اس سے فوائد حاصل کرتے ہوئے اس کا خاموشی سے ہر سطح پر دفاع کررہے ہیں اور کم قسمتی سے تبدیلی سرکار کے کچھ وفاقی وزرا بھی اس فائدہ مندانہ کھیل کا مبینہ طور پر حصہ ہیں، جن کی باقاعدہ نام لے کر نشاندہی کئی ٹی وی پروگراموں اور تحریری آرٹیکلز میں ملک کے نامور صحافی کرتے رہتے ہیں۔ جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی جارہی تھی اور اس قسم کے معاہدے ہورہے تھے جن میں عوامی اعتبار سے بہت ناروا اور پریشان کن شرائط رکھی جارہی تھیں تو مملکت خداداد کے سیاسی اور سرکاری ذمے داران و افسران یہ سب خاموشی سے ہوتا دیکھ رہے تھے۔ اور بہت سوں کو ان کا حصہ بقدر جثہ پہنچ رہا تھا۔

اب کیونکہ عالمی سطح پر ابراج گروپ کو، جو اس کے الیکٹرک کی مالک کمپنی ہے، دیوالیہ قرار دیا جاچکا ہے اور اس گروپ کے ذمے داران اور بڑوں کو مختلف عالمی ساہوکاروں اور اداروں کو ڈالر اور یوروز میں بھاری ادائیگیاں کرنا ہیں، بصورت دیگر سخت سزائیں بھگتنی پڑیں گی تو اس کے الیکٹرک کو اچھے داموں بیچ کر اس سےحاصل کردہ رقم سے کچھ نہ کچھ واجب الاادا بین الااقوامی ادائیگیاں کی جاسکتی ہیں، اس لیے اس گروپ کے بڑوں نے اس ادارے کے منافع کو بڑھا چڑھا کر دکھانا ہے تاکہ یہ اچھے داموں بک جائے۔ اسی لیے پیسہ کمانے اور عوام کا خون نچوڑنے کےلیے جو حربہ ممکن ہو وہ آزمایا جارہا ہے اور اپنے منافع کا گراف بلند کیا جارہا ہے۔ اس سارے کھیل میں جو اس ادارے کو لگام ڈال سکتے ہیں، قابو کرسکتے ہیں، وہ نہ صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، بلکہ درپردہ اس ساری مشق میں کسی نہ کسی طور سے کے الیکٹرک کے مددگار بھی ہیں۔ تو اصل قصور وار کون ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں