الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کی مشکلات

صحت سے متعلقہ ہر معاملے میں الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کے مستعد ہونے کے باوجود یہی طبقہ سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے


فیصل چوہدری July 22, 2020
الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صحت کا شعبہ ملک میں برسوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ تمام تر حکومتیں اس شعبے میں ترقی کے دعوے تو کرتی رہیں لیکن کورونا کی اس وبا نے ان تمام دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ شعبہ صحت کے معاملات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے عوام جس ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام مسائل کی اہم وجہ شعبہ صحت میں رائج ''جاگیردارانہ'' نظام ہے۔

ملک بھر میں قائم میڈیکل کالجز کو ملنے والی حکومتی سرپرستی ہو یا پی ایم ڈی سی جیسے مستند بین الاقوامی اداروں کا قیام، ایک ہی طبقہ کو مستقل نوازتے رہنا کئی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔

ڈاکٹروں کو ملنے والی پذیرائی، ملازمت کے مواقع، متوازن سروس اسٹرکچر اور بہترین سماجی مرتبہ ایسی خصوصیات ہیں جو صرف ڈاکٹروں کے حصے میں ہی آتی ہیں۔ ان خصوصی نوازشات پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ڈاکٹروں کو بلاشبہ ہمارے معاشرے میں مقدس گائے سمجھا جاتا ہے۔ اس مقدس پیشے میں وہی لوگ آتے ہیں جن کی قابلیت اور ذہانت قابل رشک ہوتی ہے۔

صحت کا نظام ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس، نرسز، الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز، فارماسسٹ اور حتیٰ کہ سپورٹنگ اسٹاف کی ٹیم ورک کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ جب اس حقیقت کو عام مریض تک محسوس کرسکتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے صحت کے نظام کے کرتا دھرتا اس سادہ سی بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟

الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کے نظر انداز کیے جانے کی اس سے نمایاں مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں میڈیکل ایجوکیشن کو صرف ڈاکٹری کے پیشے تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔ برسوں سے صرف میڈیکل کالجز کے قیام اور ان کے معیار کی بہتری پر ہی توجہ دی جاتی رہی ہے اور الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کو اچھوت سمجھ کر ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ احساس محرومی کا شکار یہ طبقہ صحت کی گاڑی کا وہ پہیہ ہے جس کی شمولیت کے بغیر صحت کے مطلوبہ نتائج تقریباً ناممکن ہیں۔ لیبارٹری کے ٹیسٹ ہوں یا جراحی کے معاملات، آنکھوں کے مسائل سے لے کر دانتوں کے معاملات تک، سب جگہ آپ کو الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز ہی کام کرتے نظر آئیں گے۔

دنیا میں جب بھی کوئی ڈگری پروگرام متعارف کروایا جاتا ہے تو باقاعدہ ان کی متعلقہ کونسل بنائی جاتی ہے۔ یہ ریگولیٹری کونسل نا صرف ان ڈگری پروگرامز کے حامل پروفیشنلز کو ریگولیٹ کرتی ہے بلکہ انہیں لائسنس بھی جاری کرتی ہے تاکہ ترقی کے مزید مواقع پیدا ہوں۔

پاکستان میں الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے 15 سے زائد ڈگری پروگرامز متعارف کروائے گئے ہیں۔ ان ڈگری پروگرامز میں داخلہ کےلیے ایم بی بی ایس کی طرح انٹری ٹیسٹ پاس کرکے مشکل میرٹ سے گزرنا لازمی ہوتا ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہ رہی ہے۔ سالوں سے یہ پروگرامز متعارف کروانے کے باوجود ابھی تک الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز اپنی کونسل کے قیام کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں اورحکومت کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگ رہی۔

پوری دنیا الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ان کی کونسل نہ ہونے کی وجہ سے میڈیکل تعلیم کے باوجود انہیں اتائی قرار دیا گیا ہے، جس سے وہ اپنا نجی کاروبار کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے علاوہ لائسنس اتھارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے دیار غیر میں بھی لائسنس کے حصول میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔

جب بھی کوئی نادان سنہرے خواب سجائے الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں داخلہ لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو پھنے خاں سمجھنے لگ جاتا ہے۔ اس کے یہ تمام خواب اس وقت ٹوٹتے ہیں جب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے جس پروگرام کا انتخاب کیا تھا اس میں اسے کوئی پہچان ملنے والی نہیں ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ خدا خدا کرکے اب اس شعبے کی اہمیت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ اس ضمن میں مختلف حکومتوں نے کئی بار کونسل کے قیام کےلیے ڈرافٹ بھی منظور کیا، لیکن بدقسمتی سے ہمیشہ ہی سب سرد خانے کی نذر ہوجاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کے تمام جائز مسائل حل کرکے ان کو مواقع دے تاکہ ریسرچ کے شعبے میں ترقی ہو۔ جس سے صحت کے شعبہ میں انقلاب برپا کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں