آئی جی ایف سی توہین عدالت کیس چیف جسٹس اور عرفان قادر کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ

میں اپنے موکل کو کسی سیاسی ستارے کے سامنے پیش نہیں کرسکتا، وکیل آئی جی ایف سی بلوچستان عرفان قادر

عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے اگر عرفان قادر کا یہی رویہ رہا تو بطور وکیل لائسنس معطل کیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس فوٹو؛فائل

سپریم کورٹ میں آئی جی ایف سی توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران آئی جی ایف سی بلوچستان کے وکیل عرفان قادر اور چیف جسٹس کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔

آئی جی ایف سی بلوچستان کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کررہا ہے۔ کیس کی سماعت کے آغاز میں آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد کے وکیل عرفان قادر نے کہاکہ اخبار میں خبر آئی ہے کہ ایک جوڈیشل ستارہ غروب اور سیاسی ستارہ ابھر رہا ہے اس لئے میں اپنے موکل کو کسی سیاسی ستارے کے سامنے پیش نہیں کرسکتا،ان اخبارات کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے اس قسم کا رویہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ عدالتی وقار کا احترام کریں۔ آپ عدالت کے کام میں مداخلت کررہے ہیں کیوں نہ آپ کا لائسنس معطل کردیں۔ عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے اگر آپ کا یہ رویہ رہا تو بطور وکیل آپ کا لائسنس معطل کیا جاسکتا ہے، اس پر عرفان قادر نے کہا کہ آپ میرا لائسنس معطل نہیں منسوخ کردیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ میں آئی جی ایف سی کا وکیل ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کا وکالت نامہ قبول نہیں کیا، ہمیں نوٹس جاری کرنے پر مجبور نہ کریں ،عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ذاتیات پر مت آئیں میں نے قانون کی بات کی ہے، اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جج ذاتیات پر نہیں آتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عرفان قادر کی جانب سے جو کچھ کہا گیا وہ ریکارڈ پر ہے ہم اس پر فیصلہ دے سکتے ہیں، اس پر عرفان قادر نے کہاکہ میں بھی چاہتا ہوں کہ جو باتیں ہیں وہ ریکارڈ پر لائی جائیں اور اگر عدالت میرے خلاف توہین عدالت کی کوئی بھی کارروائی کرنا چاہتی ہے تو فیئر ٹرائل کا موقع دیا جائے، اس عدالت نے کہا کہ آپ کو فیئر ٹرائل کا موقع دیا جائے گا۔


چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس وقت ایف سی کا کمانڈنٹ کون ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی جی ایف سی علالت کے باعث چھٹی پر ہیں قائم مقام کا نوٹس نہیں ہوا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ کو قائم مقام آئی جی ایف سی کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا کہہ دیا ہے۔ اس موقع پر ڈی جی ایف سی بریگیڈئر خالد سلیم نے عدالت کو بتایا کہ وہ قائم مقام آئی جی کے فرائض ادا کررہے ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ میں کس طرح پیش ہورہے ہیں آپ یونیفارم میں کیوں نہیں آئے، خالد سلیم کا کہنا تھا کہ میرے اس لباس کو کیا ہے میں ٹائی نہیں باندھتا، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا ایک وقار ہوتا ہے آپ کو یونیفارم میں آنا چاہیے تھا ، لاپتہ افراد کا معاملہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے، ہم یہاں بیٹھ کر کھیل نہیں کھیل رہے، ڈی جی ایف سی نے کہا کہ ہم لوگوں کو بازیاب کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کا عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو 3 روز میں قائم مقام آئی جی ایف سی تقرر کرنے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ موجودہ آئی جی ایف سی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی مناسب وقت پر الگ سے کی جائے گی جب کہ تمام لاپتہ افراد کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے سامنے پیش کیا کرنے کا بھی حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے بلوچستان لاپتہ افراد کیس اور آئی جی ایف سی توہین عدالت مقدمہ کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ سابق آئی جی ایف سی عبیداللہ خٹک نے تحریری یقین دہانی کرائی تھی کہ لاپتہ افراد پیش کردیئے جائیں گے، وہ تمام افراد جنہوں نے لاپتہ افراد پیش کرنے کی یقین دہانی پر دستخط کیے وہ سب آئندہ سماعت پر پیش ہوں اور وضاحت کریں کہ عملدرآمد کیوں نہ ہوا، اگر عدالت ان کی وضاحت سے مطمئن نہ ہوئی تو سخت کارروائی کی جائے گی، عدالت نے قائم مقام آئی جی ایف سی کو بھی اگلی سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا۔
Load Next Story