پب جی جیسے جدید گیمز کے مقابلے میں رنگ برنگے لٹو آج بھی زندہ

دیہی علاقوں میں آج بھی بچے رنگیلے لٹوؤں سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں


آصف محمود July 23, 2020
لٹو جتنازیادہ گول اورمتوازن ہوگا وہ اتناہی زیادہ گھومے گا، فوٹو: ظہور احمد

لکڑی سے بنے ہوئے لٹو سے کھیلنا برصغیر کا ایک قدیم کھیل ہے جو آج معدوم ہوتا جارہا ہے گر رنگین لٹو بنانے والا محموداحمد گزشتہ 40 برسوں سے یہ لٹو بنارہا ہے اور اس قدیم کھیل کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ آج بھی دور دراز سے لوگ اس کے پاس اپنی پسند اور ڈیزائن کا رنگ برنگا لٹو بنوانے کے لئے آتے ہیں۔

جدید دور میں بچے پب جی جیسی جدید گیموں سے کھیلتے ہیں مگر پنجاب کے شہر چنیوٹ میں رنگ برنگے لٹو بنانے اور ان سے کھیلنے کا کھیل اور فن آج بھی زندہ ہے۔ پنجاب کے دیہات میں بچے لٹوکے ساتھ کھیلتے تھے اوران کے آپس میں مقابلے ہوتے تھے تاہم لکڑی کے بنے ان کھلونوں کی جگہ الیکٹرانک کھلونوں نے لے لی ہے۔ پنجاب میں ویسے تو آج بھی درجنوں ایسے کاریگرہیں جو لکڑی سے مختلف کھلونے اورڈیکوریشن پیس بنانے کا کام کررہے ہیں لیکن محمود احمد کا خاص ہنر رنگین لٹو بنانا ہے۔



محمود احمد نے بتایا کہ وہ 40 سال سے یہ کام کررہے ہیں، لٹو کے علاوہ وہ روٹی تیارکرنے والا بیلنا، مدھانی، چرخہ اور بچوں کے کھلونے بناتے ہیں لیکن ان کا زیادہ کام لٹوبنانے کا ہے۔ اپنے بچپن کی یادیں بتاتے ہوئے محموداحمد نے کہا انہیں خود بچپن میں لٹو سے کھیلنے کا بہت شوق تھا، وہ گھرسے سکول جانے کے لئے نکلتے تو سکول جانے کی بجائے اپنے علاقے میں موجود لٹو بنانے والے کارخانے میں چلے جاتے اوروہاں کئی کئی گھنٹے بیٹھ کرلٹوبنتے دیکھتے رہتے تھے، اس بات کا علم جب ان کے گھروالوں کہ میں سکول جانے کی بجائے یہاں لٹو بنانے والے کارخانے میں بیٹھا رہتا ہوں تو انہوں نے مجھے پھر میرے شوق کی خاطرسکول سے اٹھاکرکارخانے میں بھیج دیا جہاں میں لٹو بنانا سیکھنے لگا، ڈھائی سال میں میں نے یہ ہنرسیکھ لیا تھا اورپھراس کے بعد استاد کی اجازت سے خود لٹوبنانے لگا تھا



محمود احمد کہتے ہیں آج ان کی نظر کمزور ہوگئی ہے اوروہ بیماربھی رہتے ہیں ، دیگر کھلونے ان کے بیٹے بناتے ہیں لیکن لٹو وہ آج بھی خود بڑے شوق کے ساتھ بناتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اب لٹو سے کھیلنے والے بچے موبائل پرجدید گیم کھیلتے ہیں مگر وہ اس دھرتی کے قدیم کھیل اور فن کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ محمود احمد بتاتے ہیں کہ دور دراز سے لوگ ان کے پاس لٹوبنوانے آتے ہیں، وہ مختلف ڈیزائن اور رنگوں کے لٹوتیارکرواتے ہیں اوراس کا ہنردیکھ کرخوش ہوتے ہیں۔ آج بھی لاہور، فیصل آباد،قصور،شیخوپورہ، گوجرانوالہ، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں وہ خود جاتے ہیں اور دکانداروں کو لٹو بیچ کرآتے ہیں ، لوگ انہیں ان کے اصل نام کے بجائے رنگیلا لٹو والا کے نام سے زیادہ جانتے ہیں



لکڑی سے لٹو بنانے کاکام اتنا آسان نہیں ہوتا ہے، اس مقصد کے لئے پہلے لکڑی ایک مخصوص ٹکڑے کو خراد کی مدد سے گول کیا جاتا ہے، پھر اس گول لکڑی پر لٹو کے ڈیزائن بنائے جاتے اور لٹو کی شکل دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کے اندرایک کیل ٹھونک دی جاتی ہے جس کے اوپر لٹو گھومتا ہے اور پھر اسے مختلف رنگ دیئے جاتے ہیں، ایک لٹو 20 سے 50 روپے تک میں فروخت ہوتا ہے۔ لٹو جتنازیادہ گول اورمتوازن ہوگا وہ اتناہی زیادہ گھومے گا، اگراس کی گولائی میں فرق آجائے تو پھر وہ زیادہ دیرتک نہیں گھوم سکتاہے۔



پنجاب کے مختلف دیہی علاقوں میں آج بھی بچے ان رنگیلے لٹوؤں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظرآجائیں گے، کچی زمین پرگھومتے اس لٹو کودھاگے کی مدد سے مزید تیزگھمایاجاتا ہے اورپھرجس بچے کا لٹوسب سے زیادہ دیرتک گھومتا رہے وہ جیت جاتا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں