گھریلو تشدد آخر کب تک
ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ ہم نے عورت کے ساتھ مارپیٹ کرنے کو کلچر کا حصہ ہی بنا دیا ہے
RAWALPINDI:
آج سے کوئی بیس سال پہلے پنجاب کے ایک نواحی علاقے میں ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ سردیوں کی رات تھی۔ قریب 10 بجے کا وقت تھا۔ گاؤں میں لوگ بہت جلدی سو جاتے ہیں، سب گہری نیند میں تھے۔ اچانک ایک محلے میں 15 سے 20 لوگوں نے ایک گھر پر دھاوا بول دیا۔ چیخ و پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ ابھی لوگ اٹھے ہی تھے، سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں کہ گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ لوگ اور زیادہ ڈر گئے۔
جس محلے میں یہ واقعہ ہوا، وہاں لوگ اپنی چھتوں پر آگئے۔ لوگ گلی میں جمع ہوئے، لیکن اس گھر میں جانے کی ہمت کوئی بھی نہیں کر پایا، کیونکہ گولیاں چلنے کی آوازیں آئی تھیں، کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ چوری کا واقعہ ہے یا کوئی گھریلو مسئلہ ہے۔ گولیاں چلنے کے بعد اس گھر سے مسلح افراد ایک عورت کو گھسیٹتے ہوئے نکلے اور لوگوں سے کہا کہ ہماری تم لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ عورت ہمارے گھر کی ہے اور ہم لے کر جارہے ہیں، اس لیے راستے سے ہٹ جاؤ۔ لوگوں نے راستہ دے دیا، کیونکہ وہ عورت اس گھر کی نہیں تھی۔ ان کے جانے کے بعد لوگ اس گھر میں داخل ہوئے جہاں یہ واقعہ ہوا۔ اس گھر کا ایک بیٹا علی خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس کی ٹانگوں میں دو گولیاں ماری گئی تھیں۔ لوگ جلدی سے اسپتال لے گئے اور وہ بچ گیا، کیونکہ اسے مارنے کے ارادے سے گولیاں نہیں ماری گئیں، صرف سبق سکھانے کےلیے ماری گئی تھیں۔
کچھ دن کے بعد یہ کہانی لوگوں کے سامنے آئی اور سب دنگ رہ گئے۔ علی ایک شادی شدہ آدمی، پانچ بچوں کا باپ اور کبھی کبھار شراب پیتا تھا۔ اس کا شراب کا ساتھی زین تھا۔ وہ ایک امیر گھر کا شادی شدہ آدمی تھا۔ ان دونوں کی شراب کی ہی کسی محفل میں ملاقات ہوئی اور پکی والی دوستی ہوگئی۔ علی کا اس کے گھر میں آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس سب میں علی اور زین کی بیوی کی علیک سلیک ہوگئی۔ بات محبت تک آگئی اور وہ عورت اپنے چار بچوں کو چھوڑ کر علی کے ساتھ بھاگ آئی۔ علی اسے اپنے ہی گھر لے آیا۔ زین اثرورسوخ والا تھا۔ اسے پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی کو بھگانے والا خود اس کا ہی دوست ہے۔ وہ غنڈے لے کر اس کے گھر پہنچ گیا اور اپنی بیوی لے گیا۔ اس کہانی کا انجام ہونا ابھی باقی تھا۔
کچھ ہی مہینوں بعد یہ دوبارہ بھاگے۔ پولیس میں رپورٹ ہوئی۔ کچھ عرصے بعد پنچایت کی مدد سے آخر یہ کیس حل کیا گیا۔ اس عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر شراب پی کر روز مارتا ہے، اب وہ مزید اس وحشی کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس نے اپنے بچے لینے سے بھی انکار کردیا۔ ایک ماں اپنے ہی بچوں کو لینے کےلیے تیار نہیں ہوئی۔ وہ شوہر کے ظلم سہتے سہتے تھک گئی تھی۔ یوں اس نے طلاق لی اور علی سے دوسری شادی کرلی۔ وہ یہاں غربت میں تھی، اس کا پہلا شوہر امیر تھا۔ جب عورتوں نے پوچھا کہ تمہیں یہاں کیا ملا، غربت ہی ملی؟ وہاں تم سکھی تو تھیں۔ اس کا جواب تلخ مگر سچ تھا ''امیری کی مار پیٹ سے کہیں بہتر عزت کی غربت ہے''۔
ابھی ایک جرنلسٹ علی سلمان علوی کے کیس بارے میں آپ نے پڑھا ہوگا، جو کہ خود عورت مارچ کا بہت بڑا حامی رہا ہے۔ 29 جون کو اس کی بیوی کی موت ہوئی۔ مگر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے، جس میں اس پر گھریلو تشدد اور قتل کا الزام لگایا گیا ہے۔ اور اب وہ پولیس کی حراست میں ہے۔
گھریلو تشدد کا تعلق جہالت سے ضرور ہے، مگر جس طرح سے یہ واقعات پڑھے لکھے لوگ بھی کرتے ہیں، اس سے یہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ عورت کی عزت کرنے کا تعلق ڈگری سے نہیں بلکہ تربیت سے ہے۔ ہر زمانے میں عورت پر تشدد ہوا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ترقی کرتے ممالک نے اس پر قابو پانے کےلیے اقدامات کیے اور اس کا نتیجہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک میں عورت کی حفاظت کےلیے سخت قوانین ہیں۔ وہاں پر خواتین گھریلو تشدد کو رپورٹ کرواتی ہیں، اس لیے وہاں مردوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
امریکا میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ گھریلو تشدد کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری دنیا میں ہر 3 میں سے ایک عورت، یعنی 35 فیصد خواتین کو جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہے۔ اور سب سے زیادہ گھریلو تشدد کے کیسز کے حوالے سے پہلے نمبر پر 45.6 فیصد کے ساتھ افریقہ، دوسرے نمبر پر 36.1 فیصد کے ساتھ امریکا اور ہمارا خطہ ایسٹرن میڈیٹرن (مشرقی بحیرہ روم) 36.4 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں 2008 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 70 فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، اور ہر سال 5 ہزار سے زائد خواتین گھریلو تشدد یا غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں۔ اور یہ اعدادوشمار بہت کم ہیں کیونکہ زیادہ تر کیسز تو رپورٹ ہو ہی نہیں پاتے۔ ڈبلیو ایچ او نے پوری دنیا میں کورونا کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں پر گھریلو تشدد میں اضافہ ہونے کی وارننگ دی ہے اور خیبرپختونخوا میں اس لاک ڈاؤن میں اب تک گھریلو تشدد کے 500 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ ہم نے عورت کے ساتھ مارپیٹ کرنے کو کلچر کا حصہ ہی بنا دیا ہے۔ اگر کوئی عورت آواز اٹھاتی بھی ہے تو بجائے مرد کو سمجھانے کے عورت کو ہی صبر کرنے کا کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میڈیا کی خواتین بھی اگر اپنی طلاق کی وجہ گھریلو تشدد بتائیں تو ہم یقین نہیں کرتے بلکہ ان کی ہی کردار کشی کرتے ہیں۔ جن گھروں میں عورت پر تشدد ہوتا ہے، وہ بچے بھی بڑے ہوکر تشدد ہی اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تشدد صرف بیوی تک نہیں ہوتا بلکہ بہن، بھائی، بچے اور یہاں تک کہ ماں بھی محفوظ نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایسے لوگوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں۔ معاملہ آگے بڑھ جائے تو گھریلو معاملہ قرار دے کر رفع دفع کردیا جاتا ہے۔
ابھی ایک بیٹے کا ماں پر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جسے ایک دل رکھنے والا انسان دیکھ ہی نہیں سکتا۔ مگر یاد رکھیں یہ سب ہماری سوسائٹی میں ہورہا ہے۔ اس کو روکنے کےلیے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایسے بھیڑیوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے، تبھی ہم اس معاشرتی برائی کو ختم کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج سے کوئی بیس سال پہلے پنجاب کے ایک نواحی علاقے میں ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ سردیوں کی رات تھی۔ قریب 10 بجے کا وقت تھا۔ گاؤں میں لوگ بہت جلدی سو جاتے ہیں، سب گہری نیند میں تھے۔ اچانک ایک محلے میں 15 سے 20 لوگوں نے ایک گھر پر دھاوا بول دیا۔ چیخ و پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ ابھی لوگ اٹھے ہی تھے، سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں کہ گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ لوگ اور زیادہ ڈر گئے۔
جس محلے میں یہ واقعہ ہوا، وہاں لوگ اپنی چھتوں پر آگئے۔ لوگ گلی میں جمع ہوئے، لیکن اس گھر میں جانے کی ہمت کوئی بھی نہیں کر پایا، کیونکہ گولیاں چلنے کی آوازیں آئی تھیں، کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ چوری کا واقعہ ہے یا کوئی گھریلو مسئلہ ہے۔ گولیاں چلنے کے بعد اس گھر سے مسلح افراد ایک عورت کو گھسیٹتے ہوئے نکلے اور لوگوں سے کہا کہ ہماری تم لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ عورت ہمارے گھر کی ہے اور ہم لے کر جارہے ہیں، اس لیے راستے سے ہٹ جاؤ۔ لوگوں نے راستہ دے دیا، کیونکہ وہ عورت اس گھر کی نہیں تھی۔ ان کے جانے کے بعد لوگ اس گھر میں داخل ہوئے جہاں یہ واقعہ ہوا۔ اس گھر کا ایک بیٹا علی خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس کی ٹانگوں میں دو گولیاں ماری گئی تھیں۔ لوگ جلدی سے اسپتال لے گئے اور وہ بچ گیا، کیونکہ اسے مارنے کے ارادے سے گولیاں نہیں ماری گئیں، صرف سبق سکھانے کےلیے ماری گئی تھیں۔
کچھ دن کے بعد یہ کہانی لوگوں کے سامنے آئی اور سب دنگ رہ گئے۔ علی ایک شادی شدہ آدمی، پانچ بچوں کا باپ اور کبھی کبھار شراب پیتا تھا۔ اس کا شراب کا ساتھی زین تھا۔ وہ ایک امیر گھر کا شادی شدہ آدمی تھا۔ ان دونوں کی شراب کی ہی کسی محفل میں ملاقات ہوئی اور پکی والی دوستی ہوگئی۔ علی کا اس کے گھر میں آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس سب میں علی اور زین کی بیوی کی علیک سلیک ہوگئی۔ بات محبت تک آگئی اور وہ عورت اپنے چار بچوں کو چھوڑ کر علی کے ساتھ بھاگ آئی۔ علی اسے اپنے ہی گھر لے آیا۔ زین اثرورسوخ والا تھا۔ اسے پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی کو بھگانے والا خود اس کا ہی دوست ہے۔ وہ غنڈے لے کر اس کے گھر پہنچ گیا اور اپنی بیوی لے گیا۔ اس کہانی کا انجام ہونا ابھی باقی تھا۔
کچھ ہی مہینوں بعد یہ دوبارہ بھاگے۔ پولیس میں رپورٹ ہوئی۔ کچھ عرصے بعد پنچایت کی مدد سے آخر یہ کیس حل کیا گیا۔ اس عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر شراب پی کر روز مارتا ہے، اب وہ مزید اس وحشی کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس نے اپنے بچے لینے سے بھی انکار کردیا۔ ایک ماں اپنے ہی بچوں کو لینے کےلیے تیار نہیں ہوئی۔ وہ شوہر کے ظلم سہتے سہتے تھک گئی تھی۔ یوں اس نے طلاق لی اور علی سے دوسری شادی کرلی۔ وہ یہاں غربت میں تھی، اس کا پہلا شوہر امیر تھا۔ جب عورتوں نے پوچھا کہ تمہیں یہاں کیا ملا، غربت ہی ملی؟ وہاں تم سکھی تو تھیں۔ اس کا جواب تلخ مگر سچ تھا ''امیری کی مار پیٹ سے کہیں بہتر عزت کی غربت ہے''۔
ابھی ایک جرنلسٹ علی سلمان علوی کے کیس بارے میں آپ نے پڑھا ہوگا، جو کہ خود عورت مارچ کا بہت بڑا حامی رہا ہے۔ 29 جون کو اس کی بیوی کی موت ہوئی۔ مگر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے، جس میں اس پر گھریلو تشدد اور قتل کا الزام لگایا گیا ہے۔ اور اب وہ پولیس کی حراست میں ہے۔
گھریلو تشدد کا تعلق جہالت سے ضرور ہے، مگر جس طرح سے یہ واقعات پڑھے لکھے لوگ بھی کرتے ہیں، اس سے یہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ عورت کی عزت کرنے کا تعلق ڈگری سے نہیں بلکہ تربیت سے ہے۔ ہر زمانے میں عورت پر تشدد ہوا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ترقی کرتے ممالک نے اس پر قابو پانے کےلیے اقدامات کیے اور اس کا نتیجہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک میں عورت کی حفاظت کےلیے سخت قوانین ہیں۔ وہاں پر خواتین گھریلو تشدد کو رپورٹ کرواتی ہیں، اس لیے وہاں مردوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
امریکا میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ گھریلو تشدد کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری دنیا میں ہر 3 میں سے ایک عورت، یعنی 35 فیصد خواتین کو جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہے۔ اور سب سے زیادہ گھریلو تشدد کے کیسز کے حوالے سے پہلے نمبر پر 45.6 فیصد کے ساتھ افریقہ، دوسرے نمبر پر 36.1 فیصد کے ساتھ امریکا اور ہمارا خطہ ایسٹرن میڈیٹرن (مشرقی بحیرہ روم) 36.4 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں 2008 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 70 فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، اور ہر سال 5 ہزار سے زائد خواتین گھریلو تشدد یا غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں۔ اور یہ اعدادوشمار بہت کم ہیں کیونکہ زیادہ تر کیسز تو رپورٹ ہو ہی نہیں پاتے۔ ڈبلیو ایچ او نے پوری دنیا میں کورونا کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں پر گھریلو تشدد میں اضافہ ہونے کی وارننگ دی ہے اور خیبرپختونخوا میں اس لاک ڈاؤن میں اب تک گھریلو تشدد کے 500 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ ہم نے عورت کے ساتھ مارپیٹ کرنے کو کلچر کا حصہ ہی بنا دیا ہے۔ اگر کوئی عورت آواز اٹھاتی بھی ہے تو بجائے مرد کو سمجھانے کے عورت کو ہی صبر کرنے کا کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میڈیا کی خواتین بھی اگر اپنی طلاق کی وجہ گھریلو تشدد بتائیں تو ہم یقین نہیں کرتے بلکہ ان کی ہی کردار کشی کرتے ہیں۔ جن گھروں میں عورت پر تشدد ہوتا ہے، وہ بچے بھی بڑے ہوکر تشدد ہی اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تشدد صرف بیوی تک نہیں ہوتا بلکہ بہن، بھائی، بچے اور یہاں تک کہ ماں بھی محفوظ نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایسے لوگوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں۔ معاملہ آگے بڑھ جائے تو گھریلو معاملہ قرار دے کر رفع دفع کردیا جاتا ہے۔
ابھی ایک بیٹے کا ماں پر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جسے ایک دل رکھنے والا انسان دیکھ ہی نہیں سکتا۔ مگر یاد رکھیں یہ سب ہماری سوسائٹی میں ہورہا ہے۔ اس کو روکنے کےلیے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایسے بھیڑیوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے، تبھی ہم اس معاشرتی برائی کو ختم کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔