تحریک انصاف بلوچستان میں اپنی غلطیوں کی سے وجہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی
صوبائی حکومت نے پی ٹی آئی کو نمائندگی سے محروم رکھا ہوا ہے، ہمارے ارکان اسمبلی سے مشاورت نہیں کی جاتی
ISLAMABAD:
سردارروح اللہ خلجی کا تعلق بلوچستان کے ایک قبائلی اور کاروباری گھرانے سے ہے۔ ان کا شمار موجودہ حکم راں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی اراکین اور صف اول کی ابتدائی قیادت میں ہوتا ہے۔
25 اپریل 1996ء کو پاکستان کے افق پر نمودار ہونے والی سیاسی جماعت کی تشکیل ہو یا شوکت خانم کینسر اسپتال کا قیام، آزاد عدلیہ کی تحریک ہو یا دھاندلی کے خلاف آزادی مارچ، آزاد الیکشن کمیشن اور آزاد احتساب کے لیے جدوجہد میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ پارٹی کے سنیئر نائب صدر، سینٹرل میڈیا کوآرڈینیٹر، سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن صوبائی صدر سمیت پارٹی کے متعدد عہدوں پر فائز رہنے اور سیاسی میدان میں کافی تگ و دو اور تھکی تھکی خاموشی کے بعد انہوں نے گذشتہ دنوں ایکسپریس کو انٹرویو دیا، جس میں سامنے آنے والی ان کی رائے، خیالات اور مختلف معاملات پر گفتگو قارئین کی نظر ہے۔
سردار روح اللہ خلجی پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے اپنی وابستگی سے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی عمران خان کی شخصیت سے کافی متاثر تھے۔ تاہم طلباء سیاست کے دوران وہ نواب اکبر خان بگٹی کی فکر اور نظریات کے گرویدہ تھے۔ عمران خان کی سماجی خدمات شوکت خانم اسپتال کے قیام نے انہیں عمران خان کی جانب مائل کیا بعدازاں وہ ان کے نظریات کے اسیر ہوگئے اور 26 اپریل 1996ء کو وجود میں آنے والی جماعت سے باقاعدہ منسلک ہوکر انصاف، انسانیت اور خودداری کا نعرہ لیے فرسودہ، جاگیردارانہ نظام، روایتی سیاست سے نبردآزما رہے۔ ان کا خیال ہے کہ لسانی، مذہبی اور روایتی بنیادوں پر ہونے والی سیاست نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا گیا ہے اور ملک کو سیاست کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
بلوچستان میں پہلے سے موجود بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں تحریک انصاف کو فعال بنانے میں درپیش مشکلات سے متعلق سوال کے جواب میں سردار روح اللہ خلجی نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے بعد متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ جب عمران خان کوئٹہ کے دورے پر آتے تو بمشکل وہ دس بیس لوگ جمع کرپاتے تھے۔ صوبے کی قبائلی روایات کے تحت اکثر لوگ اور قبائلی عمائدین عمران خان سے ملنے خود آتے اور کھانے کی دعوت دیتے۔
ان کی سیاسی سرگرمیاں پارٹی کے دفتر تک محدود ہوا کرتی تھیں۔ بلوچستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کی سطح پر بننے والی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی پہلے سے موجودگی میں جب وہ عمران خان کے نظریہ کا پرچار کرتے تھے تو انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ تنقید نہ صرف ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے ہوتی بلکہ ان کے اپنے گھر، قبیلے اور قریبی رفقا بھی تنقید کے نشتر برساتے کہ کھلاڑی اور سیاست داں میں بڑا فرق ہے، گیند والا کھلاڑی معاشرے میں اپنا سیاسی مقام کبھی نہیں بنا پائے گا۔
اس بے رحمانہ تنقید سے وہ دل برداشتہ بھی ہوئے مگر عمران خان کی صورت میں امید کی آخری کرن نے مایوس ہونے نہیں دیا۔ انہیں عمران خان کی قیادت پر پورا یقین تھا کہ جس طرح انہوں نے کھیل کے میدان اور سماجی اور فلاحی کاموں میں ملک کے لوگوں کو مایوس نہیں کیا اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی وہ کبھی کسی کو مایوس نہیں ہونے دیں گے۔
سردار روح اللہ خلجی اور ان کے خاندان کا گزر بسر تجارت پر ہے مگر وہ تبدیلی کے جُنون میں اس قدر مگن رہے کہ انہوں نے اپنے آبائی کاروبار اور قبائلی معاملات کو پس پشت ڈال دیا اور اپنا تمام وقت سیاست کو دیتے ہوئے نامساعد حالات، مشکلات اور وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود دن رات کی جدوجہد سے پارٹی کو صوبے بھر میں فعال کیا۔
قوم پرست اور وفاقی جماعتوں میں شمولیت نہ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی عمران خان سے رابطے میں رہے۔ ابتدا میں اکثر دوستوں کی مختلف رائے سامنے آتی تھی کیوںکہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے مختلف نظریات اور سیاسی وابستگی ہونے کے باوجود یہاں کے سیاست دانوں کے ایک دوسرے سے قریبی مراسم اور رابطے ہیں۔ 2002ء میں جب ق لیگ کی حکومت بنی تو مجھے ق لیگ کے دوستوں نے شمولیت کی دعوت دی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھی بھی رابطے میں رہے، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے بھی کئی مرتبہ شمولیت کے لیے رابطے کیے اور ابھی ان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اپنے سیاسی سفر کے دوران انہوں نے کبھی الیکشن لڑنے کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قیادت سے رابطہ نہیں کیا۔ نہ کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی، کیوںکہ وہ سیاست کو عوامی خدمت سے تعبیر کرتے ہوئے سیاست کو ایک رضاکارانہ عمل گردانتے ہیں۔ نظریاتی جدوجہد کے قائل ہیں اور انہوں نے پوری زندگی اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاست میں رضاکارنہ خدمات انجام دی ہیں۔
2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں گورنرشپ کے لیے تحریک انصاف قیادت کی جانب سے ان کا نام تجویز کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہماری خواہش تھی کہ صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنے، تاہم اکثریت نہ ہونے کی بنا پر قیادت نے حکومت سازی کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کی، گورنر کے لیے بہت سے نام زیرغور آئے۔ کارکنوں کی خواہش تھی کہ پارٹی سے گورنر کے لیے کسی دوست کا انتخاب کیا جائے اس سلسلے میں رابطے بھی ہوئے۔ تاہم حتمی فیصلہ قیادت کو کرنا تھا اور وہ قیادت کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پارٹی میں مرکز اور صوبے کی سطح پر دھڑے بندیوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پارٹی میں دھڑے بندی ہو یا سرکاری محکموں میں ہونے والی کرپشن، دونوں ہمیشہ اوپر کی سطح سے ہوتے ہوئے نچلی سطح تک پہنچتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف ایک جمہوری جماعت ہے، پارٹی کے اندر اختلاف رائے سے پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں، جہانگیر ترین ہوں یا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، سردار یار محمد رند یا نوابزادہ ہمایوںجوگیزئی، یہ سب ہماری پارٹی کا اثاثہ ہیں اور عمران خان کے نظریات پر متفق ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کمی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے شوکت خانم میموریل اسپتال کے قیام کے لیے جب چندہ اکٹھا کیا تو دو سالوں کے دوران وہ بمشکل دو کروڑ روپے جمع کرپائے۔ تاہم کورونا کی وبا کے دوران عمران خان کی کال پر ملکی وبین الاقوامی سطح پر ایک دن میں اربوں روپے جمع ہوئے، جو لوگوں کا آج بھی ان پر اعتماد کا اظہار ہے، مگر عمران خان کی پالیسیوں اور عوامی جدوجہد سے وہ لوگ ضرور خائف ہیں جنہوں نے گذشتہ سات دہائیوں سے اقتدار پر قابض رہ کر کرپشن اور کمیشن کو تقویت دی اور آج بھی ملک کی ترقی میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔
سردار روح اللہ خلجی سمجھتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا بہت بڑا اہم کردار ہے اور یہی نوجوان ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، جن کی حمایت سے پارٹی 2013ء اور 2018ء کے انتخابات معرکہ سر کرنے میں کام یاب ہوئی۔ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی شمولیت سے ملک کی ترقی کے لیے ہونے والی جدوجہد کو تقویت ملی ہے۔
عمران خان سے ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی عمران خان سے کوئی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی۔ تاہم پارٹی کے پروگرامز میں یکجا ہونے کا موقع ملا ہے، اسلام آباد میں پارٹی کنونشن کے موقع پر غیررسمی ملاقات ہوئی ہے۔
ملک کی معاشی بدحالی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک اچھے، قابل اور معاملہ فہم انسان ہیں، کرونا نے پورے دنیا کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ملک کو بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ گذشتہ ادوار میں جس بے دردی سے ملک کو لوٹا گیا اس کا ازالہ بھی موجودہ حکومت کے ذمہ ہے۔ حکومت بہتر طرزحکم رانی کی داغ بیل ڈال کر ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہورہا ہے۔
وفاق میں غیرمنتخب معاونین اور مشیروں کے ذریعے حکومتی نظام کو چلانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایک پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اقتدار تک آئے ہیں اور جمہوریت کا استحکام عوامی نمائندوں کی فیصلہ سازی اور شراکت داری میں ہے۔ تاہم جہاں تک معاونین اور مشیروں کی تعیناتیوں سے متعلق سوال ہے تو یہ تمام لو گ کوالیفائیڈ ہیں اور عمران خان کے نظریے پر قائم ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ملک اور قوم کے بہتر مفاد میں ڈیلیور کیا جائے۔
سردار اختر مینگل کے وفاقی حکومت کے اتحاد سے علیحدگی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل صوبے کے ایک اہم سیاسی راہ نما اور قدآور قبائلی شخصیت ہیں۔ صوبہ کی سطح پر ہم ان کی جماعت سے رابطے میں ہیں جب کہ مرکزی قیادت بھی کوشش میں ہے کہ بی این پی دوبارہ اتحاد کا حصہ بنا کر اپنے صفوں میں بٹھایا جائے۔ پارٹی نے ان کے جائز مطالبات تسلیم کیے ہیں اور یہ ہمارے مشترکہ نقاط ہیں جس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں کی حکومت پر تنقید اور قبل ازوقت انتخابات کے مطالبہ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اقتدار کے مز ے لوٹنے والوں کو گوارہ نہیں کہ ملک کا نظام بہتر لوگ خوش حال ہوں اگر حکومت اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں کام یاب ہوجاتی ہے تو ان کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں ہمیشہ ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی مفادات کے لیے ہونے والے اقدامات میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہیں۔
چینی اسکینڈل سے پارٹی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جہانگیر ترین کاروباری شخص ضروری ہیں مگر وہ ایک قابل اور سلجھے سیاست داں ہیں، جب چینی اسکینڈل کی رپورٹ منظرعام پر آئی تو انہیں قریب سے جاننے کی وجہ سے حیرت ضرور ہوئی، تاہم معاملے کی آزادانہ تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی گئی ہے کمیٹی کی رپورٹ آنے تک اس معاملے پر بات چیت نہیں کرسکتا۔
2018 ء کے انتخابات میں صوبے میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی اور پارٹی کے مستقبل سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارٹی سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے صوبے میں تحریک انصاف اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب نہیں ہوئی، مشاورت سے امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا تو یقیناً واضح اکثریت ملتی مگر اس دوران مشاورت پر ذاتی فیصلوں کو فوقیت دی گئی۔ صوبے میں تحریک انصاف کا مستقبل بلوچستان عوامی پارٹی کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ پارٹی اس وقت صوبے میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے اگر مستقبل میں پارٹی کو کوئی سیاسی نقصان پہنچتا ہے تو صوبائی حکومت وجہ بنے گی۔
وزیراعلیٰ کے خلاف اپوزیشن کے عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بننے یا نہ بننے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان بلوچستان کی حکومت کو صوبے کی تعمیر وترقی میں ہر ممکن معاونت فراہم کررہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ بلوچستان بھی دیگر صوبوں کے برابر ترقی یافتہ ہو وفاقی حکومت صوبے کی پس ماندگی کے خاتمے کے لیے بلوچستان حکومت کو ہر ممکن وسائل فراہم کررہی ہے۔
تحریک انصاف صوبے کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے حکومتی اتحاد کا حصہ بنی ہمارا اتحاد بلوچستان عوام پارٹی کے ساتھ ہے اور کوشش کریں گے کہ اس اتحاد کو برقرار رکھا جائے۔ تاہم صوبائی حکومت نے تحریک انصاف کو نمائندگی سے محروم رکھا ہوا ہے اور اتحادی ہونے کے باوجود صوبے سے متعلق ہونے والے فیصلوں میں ہمارے اراکین اسمبلی سے مشاورت نہیں کررہی ہے۔
کوئٹہ سے پارٹی نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر کام یابی حاصل کی ہے تاہم شکایات سامنے آرہی ہیں کہ ان حلقوں میں حکومت اپنے لوگوں فنڈز فراہم کرکے انہیں نواز رہی ہے۔ اتحادی ہونے کے ناتے حکومت کے اندر اور باہر ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ پارٹی کی سنیئر قیادت سے حکومت کے امتیازی رویہ کے خلاف رابطے ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے پارٹی کے اندر بھی مشاورت ہورہی ہے اور کارکنوں کا ہم پر دباؤ ہے کہ اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے۔
سردارروح اللہ خلجی کا تعلق بلوچستان کے ایک قبائلی اور کاروباری گھرانے سے ہے۔ ان کا شمار موجودہ حکم راں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی اراکین اور صف اول کی ابتدائی قیادت میں ہوتا ہے۔
25 اپریل 1996ء کو پاکستان کے افق پر نمودار ہونے والی سیاسی جماعت کی تشکیل ہو یا شوکت خانم کینسر اسپتال کا قیام، آزاد عدلیہ کی تحریک ہو یا دھاندلی کے خلاف آزادی مارچ، آزاد الیکشن کمیشن اور آزاد احتساب کے لیے جدوجہد میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ پارٹی کے سنیئر نائب صدر، سینٹرل میڈیا کوآرڈینیٹر، سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن صوبائی صدر سمیت پارٹی کے متعدد عہدوں پر فائز رہنے اور سیاسی میدان میں کافی تگ و دو اور تھکی تھکی خاموشی کے بعد انہوں نے گذشتہ دنوں ایکسپریس کو انٹرویو دیا، جس میں سامنے آنے والی ان کی رائے، خیالات اور مختلف معاملات پر گفتگو قارئین کی نظر ہے۔
سردار روح اللہ خلجی پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے اپنی وابستگی سے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی عمران خان کی شخصیت سے کافی متاثر تھے۔ تاہم طلباء سیاست کے دوران وہ نواب اکبر خان بگٹی کی فکر اور نظریات کے گرویدہ تھے۔ عمران خان کی سماجی خدمات شوکت خانم اسپتال کے قیام نے انہیں عمران خان کی جانب مائل کیا بعدازاں وہ ان کے نظریات کے اسیر ہوگئے اور 26 اپریل 1996ء کو وجود میں آنے والی جماعت سے باقاعدہ منسلک ہوکر انصاف، انسانیت اور خودداری کا نعرہ لیے فرسودہ، جاگیردارانہ نظام، روایتی سیاست سے نبردآزما رہے۔ ان کا خیال ہے کہ لسانی، مذہبی اور روایتی بنیادوں پر ہونے والی سیاست نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا گیا ہے اور ملک کو سیاست کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
بلوچستان میں پہلے سے موجود بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں تحریک انصاف کو فعال بنانے میں درپیش مشکلات سے متعلق سوال کے جواب میں سردار روح اللہ خلجی نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے بعد متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ جب عمران خان کوئٹہ کے دورے پر آتے تو بمشکل وہ دس بیس لوگ جمع کرپاتے تھے۔ صوبے کی قبائلی روایات کے تحت اکثر لوگ اور قبائلی عمائدین عمران خان سے ملنے خود آتے اور کھانے کی دعوت دیتے۔
ان کی سیاسی سرگرمیاں پارٹی کے دفتر تک محدود ہوا کرتی تھیں۔ بلوچستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کی سطح پر بننے والی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی پہلے سے موجودگی میں جب وہ عمران خان کے نظریہ کا پرچار کرتے تھے تو انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ تنقید نہ صرف ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے ہوتی بلکہ ان کے اپنے گھر، قبیلے اور قریبی رفقا بھی تنقید کے نشتر برساتے کہ کھلاڑی اور سیاست داں میں بڑا فرق ہے، گیند والا کھلاڑی معاشرے میں اپنا سیاسی مقام کبھی نہیں بنا پائے گا۔
اس بے رحمانہ تنقید سے وہ دل برداشتہ بھی ہوئے مگر عمران خان کی صورت میں امید کی آخری کرن نے مایوس ہونے نہیں دیا۔ انہیں عمران خان کی قیادت پر پورا یقین تھا کہ جس طرح انہوں نے کھیل کے میدان اور سماجی اور فلاحی کاموں میں ملک کے لوگوں کو مایوس نہیں کیا اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی وہ کبھی کسی کو مایوس نہیں ہونے دیں گے۔
سردار روح اللہ خلجی اور ان کے خاندان کا گزر بسر تجارت پر ہے مگر وہ تبدیلی کے جُنون میں اس قدر مگن رہے کہ انہوں نے اپنے آبائی کاروبار اور قبائلی معاملات کو پس پشت ڈال دیا اور اپنا تمام وقت سیاست کو دیتے ہوئے نامساعد حالات، مشکلات اور وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود دن رات کی جدوجہد سے پارٹی کو صوبے بھر میں فعال کیا۔
قوم پرست اور وفاقی جماعتوں میں شمولیت نہ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی عمران خان سے رابطے میں رہے۔ ابتدا میں اکثر دوستوں کی مختلف رائے سامنے آتی تھی کیوںکہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے مختلف نظریات اور سیاسی وابستگی ہونے کے باوجود یہاں کے سیاست دانوں کے ایک دوسرے سے قریبی مراسم اور رابطے ہیں۔ 2002ء میں جب ق لیگ کی حکومت بنی تو مجھے ق لیگ کے دوستوں نے شمولیت کی دعوت دی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھی بھی رابطے میں رہے، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے بھی کئی مرتبہ شمولیت کے لیے رابطے کیے اور ابھی ان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اپنے سیاسی سفر کے دوران انہوں نے کبھی الیکشن لڑنے کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قیادت سے رابطہ نہیں کیا۔ نہ کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی، کیوںکہ وہ سیاست کو عوامی خدمت سے تعبیر کرتے ہوئے سیاست کو ایک رضاکارانہ عمل گردانتے ہیں۔ نظریاتی جدوجہد کے قائل ہیں اور انہوں نے پوری زندگی اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاست میں رضاکارنہ خدمات انجام دی ہیں۔
2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں گورنرشپ کے لیے تحریک انصاف قیادت کی جانب سے ان کا نام تجویز کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہماری خواہش تھی کہ صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنے، تاہم اکثریت نہ ہونے کی بنا پر قیادت نے حکومت سازی کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کی، گورنر کے لیے بہت سے نام زیرغور آئے۔ کارکنوں کی خواہش تھی کہ پارٹی سے گورنر کے لیے کسی دوست کا انتخاب کیا جائے اس سلسلے میں رابطے بھی ہوئے۔ تاہم حتمی فیصلہ قیادت کو کرنا تھا اور وہ قیادت کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پارٹی میں مرکز اور صوبے کی سطح پر دھڑے بندیوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پارٹی میں دھڑے بندی ہو یا سرکاری محکموں میں ہونے والی کرپشن، دونوں ہمیشہ اوپر کی سطح سے ہوتے ہوئے نچلی سطح تک پہنچتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف ایک جمہوری جماعت ہے، پارٹی کے اندر اختلاف رائے سے پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں، جہانگیر ترین ہوں یا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، سردار یار محمد رند یا نوابزادہ ہمایوںجوگیزئی، یہ سب ہماری پارٹی کا اثاثہ ہیں اور عمران خان کے نظریات پر متفق ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کمی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے شوکت خانم میموریل اسپتال کے قیام کے لیے جب چندہ اکٹھا کیا تو دو سالوں کے دوران وہ بمشکل دو کروڑ روپے جمع کرپائے۔ تاہم کورونا کی وبا کے دوران عمران خان کی کال پر ملکی وبین الاقوامی سطح پر ایک دن میں اربوں روپے جمع ہوئے، جو لوگوں کا آج بھی ان پر اعتماد کا اظہار ہے، مگر عمران خان کی پالیسیوں اور عوامی جدوجہد سے وہ لوگ ضرور خائف ہیں جنہوں نے گذشتہ سات دہائیوں سے اقتدار پر قابض رہ کر کرپشن اور کمیشن کو تقویت دی اور آج بھی ملک کی ترقی میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔
سردار روح اللہ خلجی سمجھتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا بہت بڑا اہم کردار ہے اور یہی نوجوان ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، جن کی حمایت سے پارٹی 2013ء اور 2018ء کے انتخابات معرکہ سر کرنے میں کام یاب ہوئی۔ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی شمولیت سے ملک کی ترقی کے لیے ہونے والی جدوجہد کو تقویت ملی ہے۔
عمران خان سے ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی عمران خان سے کوئی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی۔ تاہم پارٹی کے پروگرامز میں یکجا ہونے کا موقع ملا ہے، اسلام آباد میں پارٹی کنونشن کے موقع پر غیررسمی ملاقات ہوئی ہے۔
ملک کی معاشی بدحالی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک اچھے، قابل اور معاملہ فہم انسان ہیں، کرونا نے پورے دنیا کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ملک کو بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ گذشتہ ادوار میں جس بے دردی سے ملک کو لوٹا گیا اس کا ازالہ بھی موجودہ حکومت کے ذمہ ہے۔ حکومت بہتر طرزحکم رانی کی داغ بیل ڈال کر ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہورہا ہے۔
وفاق میں غیرمنتخب معاونین اور مشیروں کے ذریعے حکومتی نظام کو چلانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایک پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اقتدار تک آئے ہیں اور جمہوریت کا استحکام عوامی نمائندوں کی فیصلہ سازی اور شراکت داری میں ہے۔ تاہم جہاں تک معاونین اور مشیروں کی تعیناتیوں سے متعلق سوال ہے تو یہ تمام لو گ کوالیفائیڈ ہیں اور عمران خان کے نظریے پر قائم ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ملک اور قوم کے بہتر مفاد میں ڈیلیور کیا جائے۔
سردار اختر مینگل کے وفاقی حکومت کے اتحاد سے علیحدگی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل صوبے کے ایک اہم سیاسی راہ نما اور قدآور قبائلی شخصیت ہیں۔ صوبہ کی سطح پر ہم ان کی جماعت سے رابطے میں ہیں جب کہ مرکزی قیادت بھی کوشش میں ہے کہ بی این پی دوبارہ اتحاد کا حصہ بنا کر اپنے صفوں میں بٹھایا جائے۔ پارٹی نے ان کے جائز مطالبات تسلیم کیے ہیں اور یہ ہمارے مشترکہ نقاط ہیں جس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں کی حکومت پر تنقید اور قبل ازوقت انتخابات کے مطالبہ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اقتدار کے مز ے لوٹنے والوں کو گوارہ نہیں کہ ملک کا نظام بہتر لوگ خوش حال ہوں اگر حکومت اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں کام یاب ہوجاتی ہے تو ان کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں ہمیشہ ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی مفادات کے لیے ہونے والے اقدامات میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہیں۔
چینی اسکینڈل سے پارٹی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جہانگیر ترین کاروباری شخص ضروری ہیں مگر وہ ایک قابل اور سلجھے سیاست داں ہیں، جب چینی اسکینڈل کی رپورٹ منظرعام پر آئی تو انہیں قریب سے جاننے کی وجہ سے حیرت ضرور ہوئی، تاہم معاملے کی آزادانہ تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی گئی ہے کمیٹی کی رپورٹ آنے تک اس معاملے پر بات چیت نہیں کرسکتا۔
2018 ء کے انتخابات میں صوبے میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی اور پارٹی کے مستقبل سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارٹی سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے صوبے میں تحریک انصاف اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب نہیں ہوئی، مشاورت سے امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا تو یقیناً واضح اکثریت ملتی مگر اس دوران مشاورت پر ذاتی فیصلوں کو فوقیت دی گئی۔ صوبے میں تحریک انصاف کا مستقبل بلوچستان عوامی پارٹی کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ پارٹی اس وقت صوبے میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے اگر مستقبل میں پارٹی کو کوئی سیاسی نقصان پہنچتا ہے تو صوبائی حکومت وجہ بنے گی۔
وزیراعلیٰ کے خلاف اپوزیشن کے عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بننے یا نہ بننے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان بلوچستان کی حکومت کو صوبے کی تعمیر وترقی میں ہر ممکن معاونت فراہم کررہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ بلوچستان بھی دیگر صوبوں کے برابر ترقی یافتہ ہو وفاقی حکومت صوبے کی پس ماندگی کے خاتمے کے لیے بلوچستان حکومت کو ہر ممکن وسائل فراہم کررہی ہے۔
تحریک انصاف صوبے کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے حکومتی اتحاد کا حصہ بنی ہمارا اتحاد بلوچستان عوام پارٹی کے ساتھ ہے اور کوشش کریں گے کہ اس اتحاد کو برقرار رکھا جائے۔ تاہم صوبائی حکومت نے تحریک انصاف کو نمائندگی سے محروم رکھا ہوا ہے اور اتحادی ہونے کے باوجود صوبے سے متعلق ہونے والے فیصلوں میں ہمارے اراکین اسمبلی سے مشاورت نہیں کررہی ہے۔
کوئٹہ سے پارٹی نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر کام یابی حاصل کی ہے تاہم شکایات سامنے آرہی ہیں کہ ان حلقوں میں حکومت اپنے لوگوں فنڈز فراہم کرکے انہیں نواز رہی ہے۔ اتحادی ہونے کے ناتے حکومت کے اندر اور باہر ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ پارٹی کی سنیئر قیادت سے حکومت کے امتیازی رویہ کے خلاف رابطے ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے پارٹی کے اندر بھی مشاورت ہورہی ہے اور کارکنوں کا ہم پر دباؤ ہے کہ اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے۔